اداریہ

اداریہ: مجھ سے بڑھ کر مری بخشش کے بہانوں کی تلاش

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

(رمضان مبارک: آسان شرائط پر اپنے گذشتہ گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا مہینہ)

آج کل دنیا میں معاشی بحران ہونے کی وجہ سے ہر شخص کسی نہ کسی رنگ میں مقروض ہے۔ انسان کے پاس قرض اتارنے کے وسائل نہ ہوں تو وہ مزید قرض لے کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ جب وہ بازار کا رخ کرتا ہے تو بنکوں یا بنیوں کے اشتہار’’آسان شرائط پر قرض حاصل کریں‘‘ سے فائدہ اٹھانے کا خواہاں ہوتا ہے، اگرچہ شرائط دیکھنے پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح آسان نہیں۔ بہر کیف ضرورت مند تو مجبور ہوتا ہے، مرتا کیا نہ کرتا، ہر شرط پر قرض لینے پر راضی ہوجاتا ہے اور سواری، زیور حتیٰ کہ مکان تک گروی رکھوا بیٹھتا ہے۔ اور جب وہ اپنا سب کچھ لٹا بیٹھنے کے باوجود قرض کی دلدل سے نہیں نکل پاتا تو اچھا خاصا شریف آدمی مایوسی میں مبتلا ہوکر ایسا بے پروا ہو جاتا ہے کہ قرض کا خوف ہی اس کے دل سے جاتا رہتاہے۔ اور پھر جہاں اور جیسے اسے موقع ملے قرض لے لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ البتہ اگر اسے واقعۃً آسان شرائط پر قرض میسر آجائے درایں حالیکہ اس میں سعادت مندی پائی جاتی ہو، وہ نیک نیّت ہو اور اُن آسان شرائط کو پورا کرنے پر رضامند ہو جن کے بدلے اسے قرض دیا جائے تو اس کا نفس ناامیدی اور پریشانی سے نکل کر اطمینان کی منزل کی جانب گامزن ہو جاتا ہے اور اللہ کے فضل سے ایک نہ ایک دن قرض کی اس لعنت سے نجات حاصل کر ہی لیتا ہے۔

گناہوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اچھا بھلا شریف انسان بعض اوقات برائیوں کی دلدل میں پھنس کر ایسی مایوسی کا شکار ہوتا ہے کہ بے دریغ غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ جب کبھی بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرتا ہوا اپنے آپ کو حساب کتاب کے بازار میں کھڑا پاتا ہے تو اُسے بھانت بھانت کی دکانوں کے جھرمٹ میں ایک ایسا مکان بھی دکھائی دیتا ہے جس پر اُس کے مالک کی جانب سے جلی حروف میں یہ درج ہوتا ہے کہ ’’تُو کہہ دے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقیناً اللہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے۔ یقیناً وہی بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الزمر:۵۴)گویااس جگہ برائیوں کی دلدل سے نکلنے اور گناہوں کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیے آسان شرائط پر ’قرض‘ دستیاب ہے جس کی سادہ اور بنیادی شرط اس مالک مکان کے لیے جھکنا، اسے سجدہ کرنا اور اس کی حقیقی بندگی اختیار کرناہے۔

اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے جو اپنے بندوں کے گناہوں کو بخشنے کے لیے گویا بہانے ڈھونڈتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے اس کا وہ اونٹ اچانک مل جائے جسے وہ بےآب و گیاہ چٹیل میدان میں گم کربیٹھا ہو۔ ایک اور روایت میں ہے: الله اپنے بندے کی توبہ کی وجہ سے تم میں سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی بے آب وگیاہ چٹیل میدان میں اپنی سواری پر سفر کر رہا ہو کہ اس کی سواری اس سے گم ہو جائے اور اس کے کھانے پینے کا سامان بھی اسی پر ہو۔ وہ اس کے ملنے سے مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے آکر اس کے سائے میں لیٹ جائے اور اسے اپنی سواری کے مل جانے کی کوئی امید نہ رہے۔ ایسے میں اچانک اس کی سواری اس کے سامنے آ کھڑی ہو۔ اور وہ اس کی نکیل پکڑ کر فرط مسرت سے یوں کہہ بیٹھے کہ اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب! یعنی خوشی کی شدت کی وجہ سے وہ غلطی سے ایسا کہہ دے۔

قارئین! اگر ہم غور کریں تو رمضان کا مہینہ وہی مکان ہے جس کا مالک اعلان کروا رہا ہے کہ مَن صَامَ رَمَضَانَ إيمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ یعنی جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھےاُس کے گذشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔ وہ بتاتا ہے کہ اس بابرکت مہینے میں شیطان اور سرکش جنّ زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اُس نے جنت کے دروازے ’ریّان‘ کو روزے داروں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔ اسی نے قرآن کریم میں اپنے پیارے رسولؐ اور اُس کی امّت کو اپنی مغفرت اور رحم کے حصول کے لیے یہ دعا سکھا رکھی ہے کہ رَبِّ اغۡفِرۡ وَارۡحَمۡ وَاَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ (المومنون:۱۱۹) یعنی اے میرے ربّ! بخش دے اور رحم کر اور تُو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

رمضان اپنی تمام تر برکات کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اس وقت پہلے عشرہ رحمت کا نصف گزر چکا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ سے نجات کا ہے۔ رمضان کا مہینہ اس لیے بھی ایک الگ شان رکھتا ہے کیونکہ حدیث قدسی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم کا ہر عمل اُس کے لیے ہوتا ہے سوائے روزے کے۔ کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کا بدلہ ہوتا ہوں۔

الغرض ایک طرف اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو اپنے نفسوں سے زیادتی کر بیٹھے ہوں، گویا ان سے ایسے گناہ سرزد ہو چکے ہوں جن کی وجہ سے وہ اپنی بخشش اور آئندہ زندگی میں روحانی ترقیات سے مایوس ہو چکے ہوں اپنی بے پایاں رحمت سے مایوس نہ ہونے کا پیغام دیتا ہے اور ابنِ آدم کے روزے کے اجر کو اپنی دسترس میں بیان فرماتا ہے، گویا مالکِ کُل اور ارحم الراحمین خدا جو اپنے بندے سے بڑھ کر اس کی بخشش کے بہانوں کو تلاش کرتا اور اس کی سچی توبہ پر بے حد خوش ہوتا ہے، وہ بادشاہوں کا بادشاہ روزہ دار کے رمضان کو شرفِ قبولیت بخشے تو جو چاہے اس کے کشکول میں ڈال دے، اُسے بخش دے تو دوسری جانب اُس کے سرورِکونین اور رحمت للعالمین رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ خوش خبری دیتے ہیں کہ جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔اگر ہم غور کریں تو گناہوں اور خطاؤں کے قرض اور بوجھ اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی سے کہ جس کی وجہ سے انسان مزید گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے نجات کی اس سے آسان شرائط بھی بھلا ہو سکتی ہیں! اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم کمرِ ہمت کس کر اس پیشکش سے کما حقہ فائدہ اٹھائیں۔

مجھ سے بڑھ کر مری بخشش کے بہانوں کی تلاش

کس نے دیکھے تھے کبھی ایسے بہانے والے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں۔ ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گذر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایااور والدین گذر گئے اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے۔(ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۳۷۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کے مہینے کی پہلی رات ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف دیکھتا ہے اور جب اﷲ تعالیٰ کسی بندے کی طرف دیکھتا ہے تو پھر اسے کبھی بھی عذاب نہیں دیتا۔ اور اﷲ تعالیٰ ہر روز ہزاروں لاکھوں افراد کو جہنم سے نجات دیتا ہے۔ پس جب رمضان کی 29ویں رات ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ رمضان کی گذشتہ 28 راتوں کے برابرلوگوں کو بخش دیتا ہے۔(الترغیب والترھیب۔کتاب الصوم۔الترغیب فی صیام رمضان )

یہاں اس حدیث میں ہے وَاِذَا نَظَرَاللّٰہُ اِلَی عَبْدٍ لَمْ یُعَذِّبْہُ اَبَدًا۔ تو یہاں عَبْد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو کامل فرمانبردار ہو،اس کی طرف جھکنے والا ہو، اس کی عبادت کرنے والا ہو۔ فرمایا کہ جب میرے ایسے بندے ہوں گے، جب ایک دفعہ میں ان کو اپنی پیار کی چادر میں لپیٹ لوں گا تو پھر انہیں کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور اﷲ تعالیٰ بھی انہیں جنتوں کا وارث ٹھہرائے گا۔ اﷲ تعالیٰ سب کو حقیقی عبدبننے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

حضورِ انور نے مزید فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ’’ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے رمضان کے روز ے رکھنا تم پر فرض کئے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کر دیا ہے۔ پس جوکوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے اس میں روزے رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو۔‘‘ یعنی بالکل معصوم بچے کی طرح۔ (سنن نسائی۔کتاب الصیام باب ذکر اختلاف یحی بن ابی کثیر و النضر بن شیبان فیہ )(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو باقی ماندہ عشرۂ رحمت سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس رمضان کریم کے گزرنے پر ہمارا شمار اُن خوش قسمت لوگوں میں ہو جن کے گذشتہ گناہ معاف ہو چکے ہوں اور آئندہ بھی اُن پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی چادر سایہ فگن رہے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button