حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا پاکیزہ بچپن
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ دادی جان !مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ احمد نمازِ عشاء کے بعد بھاگتا ہوا سیدھا دادی جان کے پاس پہنچا۔
دادی جان: وعلیکم السلام ! ذرا دَم تو لو میاں!
احمد: مجھے مربی صاحب نے یومِ مسیح موعودپر تقریر کا عنوان دیا ہے’’حضرت مسیح موعودؑ کا بچپن‘‘۔ تو مجھے جلدی سے تیاری کروا دیں۔
گڑیا: اس پر تو مجھے بھی کچھ کچھ معلوم ہے دادی جان۔ پچھلے سال سیکرٹری صاحبہ نے اس پر تقریر کی تھی۔
دادی جان: جی بیٹا آپ پہلے بتائیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کا نام حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ ہے۔ آپؑ کے والد کا نام حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب رئیس قادیان اور والدہ محترمہ کا نام حضرت چراغ بی بی صاحبہ تھا۔ کنیت ابومحموداحمد تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کا بچپن نہایت پاکیزہ اور درخشندہ تھا۔ آپؑ کو دوسرے بچوں کے ساتھ فضول کھیلنے کودنے کی عادت نہ تھی اور نہ آپ شوخی کرتے اور نہ شرارت میں دوسرے بچوں کا ساتھ دیتے تھے۔ آپ ایک سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو عہدِ طفولیت میں سنت انبیاء کے مطابق بکریاں چرانے کا بھی موقع ملا۔ گڑیا نے رک رک کر جو یاد آیا وہ بتایا۔
محمود: یہ عہدِ طفولیت کیا ہوتا ہے دادی جان؟
دادی جان: محمود میاں! عہدِ طفولیت بچپن کے زمانے کو کہتے ہیں۔ جیسے کہ آپ سب کی عمر ہے۔ شاباش گڑیا بیٹا! آپ نے اچھی باتیں یاد رکھیں۔
احمد: آپؑ کون سے سکول جاتےتھے اور کیا کیا مضامین پڑھتے تھے؟
دادی جان: ہندوستان میں انگریز حکومت سے قبل پنجاب میں سکھوں کی حکومت تھی اور وہ تعلیم کی طرف توجہ نہ دیتے تھے۔ اس وقت سکھوں نے مسلمانوں پر بہت مظالم کیے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے آباء و اجداد کو قادیان سے ہجرت کرنی پڑی اور پھر آپؑ کے والد محترم کو کچھ زمین واپس ملی۔ آپؑ کے والد رئیسِ قادیان تھے۔ اوراس زمانہ میں رؤسائے ملک اپنے گھروں میں ہی اساتذہ کو بطور اتالیق رکھ لیتے تھے۔ اسی لیے آپؑ کی تعلیم کا انتظام گھر پر ہی کیا گیا۔ آپؑ ایک رئیس زادے ہونے کے باوجود اپنے اساتذہ کاپوری طرح احترام فرماتے اور کوئی مذاق یابے ادبی کی حرکت نہ کرتے اور نہ کسی شرارت میں حصہ لیتے جبکہ دوسرے بچے اساتذہ سے مذاق اور شرارت کرتے۔
محمود: آپؑ پڑھتے رہتے تھے۔ تو کوئی گیم نہیں کرتے تھے؟ مجھے تو کرکٹ پسند ہے۔ کیا آپؑ کرکٹ کھیلتے تھے؟
دادی جان: وہ زمانہ بھی سکھوں کا تھا اس زمانہ میں کرکٹ اتنی عام نہ تھی۔ آپؑ کھیل تو کھیلتے تھے اس زمانہ میں کُشتی، کبڈی، مُگدر اور موگری اٹھانے کے کھیل رائج تھے۔ سیر کی عادت تھی جو آخری وقت تک قائم رہی۔ آپ کئی کئی میل سیر فرماتے اور خوب تیز چلا کرتے تھے۔ کچے تالابوں میں تیراکی سیکھی۔ گھڑسواری بھی کرتے تھے۔ اس سلسلہ میںایک واقعہ سناؤں؟
جی ہاں!فاتح فوراً بولا
دادی جان: حضرت مسیح موعودؑ ماہر تیراک تھے لیکن بچپن میں ایک بار کہیں تالاب میں نہارہے تھے کہ اچانک ڈوبنے لگے۔ تب ایک بزرگ نے آپ کو فوری بچایا۔ اور تالاب سے نکالا۔ آپؑ فرماتے تھے کہ اس بزرگ کو اس سے قبل اور بعد میں کہیں نہیں دیکھا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی تھی۔ اسی طرح آپؑ ایک دفعہ ایک گھوڑے پر سوار ہوئے۔ اس نے شوخی کی اور بے قابو ہو گیا۔ حضورؑ نے بہت روکنا چاہا مگر وہ شرارت پر آمادہ تھا نہ رکا۔ چنانچہ وہ اپنے پورے زور میں ایک درخت یا دیوار کی طرف بھاگا اور پھر اس زور کے ساتھ اس سے ٹکرایا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ وہیں مر گیا۔ مگر حضورؑ کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ حضورؑ بہت نصیحت کیا کرتے تھے کہ سر کش اور شریر گھوڑے پر ہرگز نہیں چڑھنا چاہیے۔ اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اس گھوڑے کا حضور ؑکو مارنے کا ارادہ تھا۔ مگر آپؑ ایک طرف گر کربچ گئے اور وہ مرگیا۔
احمد: نمازوں اور عبادات کا بتائیں دادی جان
دادی جان: چھوٹی عمر سے ہی آپ نمازوں کے پابند تھے۔ اس بارہ میں حرمت بی بی صاحبہ جو آپؑ کی پہلی بیوی تھیں اور ان سے آپ کے دو بچے ہوئے۔ وہ بتاتی ہیں کہ بچپن میں جب ہم اکٹھے کھیلتے تھے تو آپ اکثر فرمایا کرتے تھےکہ ’’دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے۔ ‘‘ آپؑ کومسجد سے ایسا لگاؤ تھا کہ آپ کے والد آپ کو ’’مسیتڑ‘‘ یعنی مسجد سے چپکا رہنےوالا کہا کرتے تھے۔ قرآن کی تلاوت اور اس پر غورو فکر خوب کرتے۔ آپ کے پاس ایک قرآن تھا جس پر بہت سے نشانات درج تھے۔ مطالعہ کی خوب عادت تھی کہ آپ کے والد بار بار صحت کے حوالہ سے ہمدردانہ ہدایت کرتے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے۔ آپ کو بچپن میں ایک ولی اللہ و صاحبِ کرامات بزرگ مولوی غلام رسول صاحب قلعہ میہاں سنگھ نے دیکھا تو سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے۔ ‘‘
دادی جان! اور کوئی مشاغل وغیرہ بھی بتائیں۔ احمد نوٹس لیتے ہوئے سر اٹھا کر بولا۔
دادی جان: آپؑ کو ہر طرح کی مالی آسائشیں میسر تھیں لیکن آپؑ نے بچپن یا جوانی میں کسی بھی قسم کی لغو اور فضول باتوں کو نہ کیا نہ اپنایا۔ بچپن میں شکار کیا ہے اور وہ بھی چڑیوں وغیرہ کا جنگل میں جاکر ۔ آپ کو کبھی کبھی اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل میں ریفری کے فرائض بھی سرانجام دینے کے لیے بلایا جاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچپن سے ہی آپ کے دوست آپ کی امانت اور دیانت داری کے قائل تھے۔
احمد:دادی جان کوئی کتب بتائیں جہاں سے میں اس بارہ میں مدد لے سکوں۔
دادی جان: حیاتِ طیبہ از حضرت شیخ عبد القادر مرحوم، اور الفضل میں احمد علیہ السلام کا سلسلہ مضامین ہے اس کے آغاز میں بھی آپ کے بچپن کے تمام دستیاب واقعات کو یکجا کیا گیا ہے۔
احمد: دادی جان! جزاکم اللہ خیرًا۔ میں کل صبح اس پر امی جان کی مدد سے تقریر لکھ لیتا ہوں۔
(حیاتِ طیبہ صفحہ 10تا12، سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل26، 30ستمبر، 3 اکتوبر2020ء)