متفرق مضامین

’’دِن ہوں مُرادوں والے پُرنُور ہو سویرا‘‘

(محمد فاروق سعید۔ لندن)

دُنیا میں ایک عام دستور ہے کہ جب کسی گھر میں کسی مہمان کے آنے کا موقع ہو تو گھر والے اس مہمان کی وجہ سے ایک خاص جوش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے مناسب حال تیاریاں کرتے ہیں۔ مہمان جتنا عالی مقام ہوگا یا جتنا پیارا ہوگاگھر والوں کا جوش و خروش بھی ویسا ہی دیدنی ہوگا اور اس حوالے سےان کے انتظامات بھی گھر والوں کی استطاعت سے بڑھ کر بہترین اور مکمل ہوں گے۔ اسی طرح اگر کوئی کام ہو تو اس کام کی اہمیت اور خاصیت کی خاطراس کی تیاری میں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اور اس کو مکمل کرنے کے لیے کوشش بھی ویسی ہی بہترین کی جاتی ہےکیونکہ کسی بھی منصوبے یا کام کی کامیابی کا ایک بہت بڑا حصہ اس کی تیاری میں ہوتا ہے اور اس کی تیاری اس کا ایک لازمی جزو ہوتی ہے۔ اور اگر مناسب تیاری نہ کی جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ انسان اپنے ارادے میں مخلص نہیں۔ یہ تو ہو گئی دُنیاوی مہمان کی بات۔

دینِ اسلام میں ایک ایسا مہینہ اللہ تعالیٰ اپنے لیے مخصوص رکھتا ہے جس کو اپنے پاک کلام میں اللہ تعالیٰ ’’گنتی کے چند دن‘‘ (البقرہ ۱۸۵) کہہ کر لوگوں کو اس کی اطلاع کرتا ہے۔ یہ مہینہ ’’رمضان المبارک‘‘ کہلاتا ہے جو بہت عظیم اور بابرکت مہینہ ہے۔ اس مہینے میں ایک خاص عبادت ہے جو طلوع فجر سے شروع ہو کر غروبِ آفتاب تک جاری رہتی ہے اور اسے ’’روزہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے روزے ایک نہایت ہی شرف اور فضیلت والا، قدرو منزلت والا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں نہایت پسندیدہ عمل ہے جس کی عطا اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر خصوصی انعام ہے۔

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا یہ خاص کرم ہے کہ اُس نے اپنی مخلوق کو اس مہینہ کے افضل ہونے کی وجہ بھی اپنے پاک کلام میں بتادی ہے۔فرمایا:شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَالۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَلَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَلِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَلَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ۔(البقرہ۱۸۶)ترجمہ: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اُس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔

اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاک و کامل نبی ہمارے آقاﷺ نے اس بابرکت مہینے کے متعلق یوں اطلاع فرمائی: سنو! سنو! تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جو بہت بڑا اوربہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنافرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو ثواب ٹھہرایاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہو اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے رمضان کے علاوہ ستر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سےنجات کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر روزہ دار کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی۔(صحیح ابن خزیم جلد۲ صفحہ۹۱۱ باب فضائل شہر رمضان)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان المبارک کے متعلق اپنی جماعت کو یوں سمجھاتے ہیں:’’رمضان سورج کی تپش کوکہتے ہیں۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتاہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتاہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔ اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا اس لیے رمضان کہلایا میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ عرب کے لیے خصوصیت نہیں ہوسکتی۔ روحانی رمضان سے مراد روحانی ذوق شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے۔ رمضان اس حرارت کوبھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہوجاتے ہیں۔‘‘(الحکم ۲۴؍جولائی ۱۹۰۱ء)

یہ تیس دن دراصل نیکی، حصولِ تقویٰ اور قربِ الٰہی کے حصول کا ایک سنہری موقع ہیں اور کوئی دانشمند حصولِ ترقی کے لیے موقع ضائع نہیں کرتا۔

حضور پاکﷺ نے ان بابرکت ایام کا لائحہ عمل یوں بیان فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لیے ہوتا ہے سوائے روزوں کے۔ روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ اور روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر اس کو کوئی گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہیے کہ میں تو روزہ دار ہوں۔ آگے فرمایا: (اس میں سے کچھ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ) اس ذات کی قسم! کہ جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیب ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں۔ ایک جب وہ روز ہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہو گا۔ ‘‘(بخاری۔ کتاب الصوم۔ باب ھل یقول إنی صائم اذا شتم)

عموماً رمضان المبارک کی تیاری کھانے پینے، مہینے کا راشن جمع کرنے، پُرتکلف دعوتوں کا اہتمام کرنے وغیرہ کو سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ سے ہمیں اس کی یوں تیاری کا سبق ملتا ہے۔ ایک جگہ حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا :کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّمْ إذَا دَخَلَ رَمَضَانُ تَغَیَّرَ لَونُہُ وَکُثُرَتْ صَلَاتُہُ وَابْتَہَلَ فِی الدُّعَاءِ وَأشْفَقَ مِنْہ۔(بیہقی شعب الایمان، رقم:۳۶۲۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ تھی کہ جب رمضان داخل ہوتا توآپ کا رنگ بدل جاتا، نمازوں میں اضافہ ہوجاتا،دعاوٴں میں خوب الحاح وزاری کرتے، خوف وخشیت کا غلبہ ہوتا۔

كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ، فَيَقُوْلُ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا، وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ۔ (صحیح مسلم، كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا، باب التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَهُوَ التَّرَاوِيحُ)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ لوگوں کو رمضان میں حتمی حکم دیے بغیر عبادت کرنے کی ترغیب دیتے اور فرماتے جس نے ایمان کے ساتھ اور (اللہ کی رضا کی) امید رکھتے ہوئے رمضان میں عبادت کی تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ پھر رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی تو یہی معمول رہا۔ پھر حضرت ابو بکرؓ کی خلافت میں بھی اسی پر عمل رہا اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دور میں بھی۔

پھر رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے کیوں کہ اسی مہینے میں قرآن مجید نازل ہوا اس لیے رمضان المبارک میں قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کرنی چاہیے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: روزہ اورقرآن دونوں قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا،اے ربّ! میں نے اس بندے کوکھانے اورخواہشات سے روکاہے؛ لہٰذا تُواس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما،اورقرآن کہے گا میں نے اس بندے کورات میں سونے سے روکاہے(یعنی راتوں کو جاگ کر تراویح اورنفلوں میں قرآن پڑھتا تھا)لہٰذا اس کے بارے میں میری سفارش کوقبول فرما، اللہ کے رسول نے فرمایاتویہ دونوں ہی سفارش کریں گے۔

حضورﷺ کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کا شغل باقی دنوں کی نسبت زیادہ ہوتا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہر رمضان المبارک میں رسول پاکﷺ کو نازل شدہ قرآن کا ایک دَور مکمل کرواتے۔ اور آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری رمضان میں تو یہ دَور دو دفعہ مکمل کروایا۔

رمضان المبارک کے روزے ایک رنگ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ہر اس نعمت کے لیےجو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عطا کی۔اور بنی نوع انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت قرآن پاک ہے جس کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کر کے شکر ادا کیا جا سکتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’انسان کو چاہیے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے۔ جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے۔ اور خودبھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا۔ اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے۔ اور اُن بداعمالیوں سے بچے جن کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی۔ دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لیے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے…جہاں جہاں دعا ہوتی ہےوہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمتِ الٰہی میرے شاملِ حال ہو۔ قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چُنتا ہے پھر آگے چل کر اور قسم کا پھول چُنتا ہے۔ پس چاہیے کہ ہر ایک مقام کے مناسبِ حال فائدہ اُٹھاوے‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۹۱۵)

ایک سوال جو ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے وہ یہ کہ رمضان کے روزے اتنے اہم کیوں ہیں؟ اور کیوں فرض کیے گئے؟

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس سوال کا جواب یوں بیان فرمایا ہے:اے وہ لوگوجو ایمان لائے ہو!تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئےہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقویٰ کی اہمیت اپنے منظوم کلام میں یوں بیان فرماتے ہیں:

عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ

مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ

ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

(درثمین)

عربی میں تقویٰ کےمعنی پرہیز کرنے او ربچنے کے ہیں۔ عام فہم زبان میں تقویٰ ہر کام اللہ تعالیٰ کے تابع کرنے کی خواہش اور عمل اور برائی سے نفرت و پرہیز کو کہتے ہیں۔ تقویٰ کے حصول کے لیے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا بہت اہم ہے اور رمضان میں یہ مشق احسن رنگ میں ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جب کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی جائے تو اس پر صبر کرنا روزے کا حصہ ہے۔ جب کوئی گالی دے یا برا بھلا کہہ کر رنجش بڑھانا چاہے تو ’’اِنّی صَائِمٌ ‘‘سے جواب دینا دراصل روزے کی شرط ہے۔غیبت اور جھوٹ سے بچنے کے لیے روزہ دار خاموش رہنے کو ترجیح دیتا ہے اور اس خاموشی کو سجانے کے لیے اپنی زبان کو ذکرِ الٰہی سے تر کرتا ہے اور یہ ذکر الٰہی اسے لمحہ بہ لمحہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف لے جاتا رہتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:أَكْثِرُوْا ذِكْرَ اللّٰهِ تَعَالٰى، حَتَّى يَقُوْلُوْا: مَجْنُونٌ(مسنداحمد بن حنبل،المستدرک الحاکم)اﷲ تعالیٰ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں۔

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو نیکی اور قربِ الٰہی کے جتنے مواقع اور راہیں عطا کی ہیں رمضان المبارک میں وہ تمام مواقع اور راہیں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اور جس طرح یہ راہیں اور مواقع اکٹھے ہوتے ہیں اسی طرح کثرت سے برکات و فیضانِ الٰہی کا نزول بھی ہوتا ہے۔ رمضان المبارک روحانیت کو تیز کرنے اور اس میں ترقی کرنے کا مہینہ ہےجس کو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے لیے مخصوص کیا ہے اس لیے ہماری زیادہ سے زیادہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ رمضان کو اس کی اُن شرائط کے مطابق گزارا جائے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے نبیﷺ نے بیان فرمائی ہیں جن کی تشریح جا بجا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے بیان فرمائی ہے۔

رمضان المبارک کے جملہ فوائد جو ہم حاصل کر سکتے ہیں چند ایک یہ ہیں۔ تقویٰ جیسی انمول نعمت حاصل ہو سکتی ہے جو سب نیکیوں کی سرخیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔بھوکا پیاسا رہ کر رزق کی قدر ہوتی ہے اور غرباء کی تکالیف کا اندازہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے صدقہ و خیرات کی طرف اور محتاجوں کی مدد کی طرف توجہ ہوتی ہے، امراضِ روحانی دُور ہوتے ہیں۔عفت و پاکدامنی حاصل ہوتی ہے، قربِ الٰہی کا حصول، عبادات و ذکر الٰہی کی مشق ہوتی ہے۔ نوافل کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔ قرآن پر تدبر و تفکر کی عادت، قبولیتِ دُعا کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ روزہ داروں کے لیے مخصوص جنت کے دروازے ’’ریّان‘‘سے گزر کر جنت میں جانے کی خوشخبری ملتی ہے، طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے اور بری عادتوں سے چھٹکارا پانا آسان ہوجاتاہے۔ ریا،عُجب، حقارت،تکبر کو ترک کرنے میں مدد ملتی ہے۔

سورہ انشقاق آیت ۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۔اے انسان! تجھے ضرور اپنے ربّ کی طرف سخت مشقّت کرنے والا بننا ہوگا۔ پس (بہرحال) تُو اُسے رُوبرو ملنے والا ہے۔

رمضان المبارک سارباں کے نغمے کی طرح ہوتا ہے۔ عرب میں رواج تھا کہ دورانِ سفر اونٹ جب تھک جاتے، چل چل کر اُکتا جاتے تو آہستہ ہو جاتے۔ شتربان اک خاص ترنم سے شعر پڑھنا شروع کر دیتا اس ترنم کا اونٹوں پر ایسا اثر ہو جاتا کہ وہ چاق و چوبند ہو جاتے اور رفتار پکڑ لیتے۔ اسی طرح انسان گیارہ مہینوں میں کوشش کرتا گرتا پڑتا کبھی محنت کرتا کبھی جی چراتا تھک جاتا اکتا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ رمضان کا نغمہ اتارتا ہے جس میں چونکہ ہر طرف مساجد میں گھروں میں ایک خاص ماحول ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے کی جانے والی مشقت آسان ہو جاتی ہے۔ اور اس روبرو ملاقات کی تیاری کے لیے رمضان نہایت اکسیر ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینے کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے۔(کنزالعمال)

الغرض رمضان المبارک ہر لحاظ سے خیر و برکت کا مہینہ ہے جس میں معمول سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہیے کہ ربِ کریم یوں راضی ہو جائے اور ہمارے گلے میں اپنی بانہیں ڈال کر کہے کہ’’جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو‘‘

رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی بخشش کا حصول یوں بھی آسان ہے کہ اس مہینے میں شیطان جکڑ دیا جاتا ہے، جہنم کے دروازوں کو تالے لگا دیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اسی لیے تو رسول کریمﷺ نے نہایت دردِ دل سے بنی نوع انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’کوئی رمضان کو پائے اور بخشا نہ جائے تو پھر کب بخشا جائے گا‘‘ (سنن ترمذی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button