فدیہ نیک نیتی سے دیا جائے
اللہ تعالیٰ نے خود ہی مریض اور مسافر کو سہولت دے دی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ جو روزے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کے لئے فدیہ ہے، پھر وہ ایک مسکین کو روزہ رکھوائے۔ لیکن جو بعد میں روزے پورے کر سکتے ہیں وہ بھی اگر فدیہ دیں تو ٹھیک ہے، ایک نفل ہے، تمہارے لئے بہتر ہے۔ لیکن جب وہ حالت دوبارہ قائم ہو جائے، صحت بحال ہو جائے یا جو وجہ تھی وہ دور ہو جائے توپھر رمضان کے بعد روزے رکھنا ضروری ہے باوجود اس کے کہ تم نے فدیہ دیا ہے، یہی چیز ثواب کا باعث بنے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ’’وہ لوگ ہیں جن کو کبھی امید نہیں کہ پھر روزہ رکھنے کا موقع مل سکے ‘‘۔ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ بیمار جن کی عارضی بیماری ہے دور ہو گئی۔ ایک وہ بیمار جن کی بیماری مستقل ہے اور بعد میں ان کو روزہ رکھنے کا موقع نہیں مل سکتا۔ تو فرمایا کہ’’جن کو کبھی امید نہیں کہ روزہ رکھنے کا موقع مل سکے، مثلاً ایک نہایت بوڑھا، ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جو دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بسبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی اور سال بھر اسی طرح گزر جائے گا ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور فدیہ دیں باقی اَور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ صرف فدیہ دے کر روزہ کے رکھنے سے معذور سمجھا جا سکے‘‘۔ (بدر جلد۶نمبر۴۳ مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ۳)
پس یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ’صرف فدیہ دے کر‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں، چھوٹی یا عارضی بیماری میں بھی فدیہ دیا جا سکتا ہے اور یہ ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نفل کے طور پر تمہارے لئے بہتر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے روزہ فرض کیا ہے لیکن اسلام کیونکہ دینِ فطرت ہے اس لئے یہ سختی نہیں کہ کیونکہ تم نے روزہ نہیں رکھا اس لئے تمہارے اندر تقویٰ پیدا نہیں ہو سکتا، تم اللہ تعالیٰ کی رضا کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ فطری مجبوریوں سے فائدہ تو اٹھاؤ لیکن تقویٰ بھی مدِّنظر ہو کہ ایسی حالت ہے جس میں روزہ ایک مشکل امر ہے تو اس لئے روزہ چھوڑا جا رہا ہے، نہ کہ بہانے بنا کر۔ پھر اس کا مداوا اس طرح کرو کہ ایک مسکین کو روزہ رکھواؤ۔ یہ نہیں کہ بہانے بناتے ہوئے کہہ دو کہ مَیں روزہ رکھنے کی ہمت نہیں رکھتا، پیسے میرے پاس کافی موجود ہیں، کشائش ہے، غریب کو روزہ رکھوا دیتا ہوں۔ ثواب بھی مل گیا اور روزے سے جان بھی چھوٹ گئی۔ نہ یہ تقویٰ ہے اور نہ اس سے خداتعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر نیک نیتی سے ادا نہ کی گئی نمازوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نمازیوں کے منہ پر ماری جاتی ہیں تو جو فدیہ نیک نیتی سے نہ دیا گیا یا بدنیتی سے دیا گیا ہو گا، یہ بھی منہ پر مارا جانے والا ہو گا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍ستمبر ۲۰۰۷ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۷ء)