خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۱۲؍ مئی۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:آیت کا ترجمہ ہے: پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تُو ان کے لیے نرم ہو گیا۔ اور اگر تُو تُندخُو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گِرد سے دُور بھاگ جاتے۔ پس ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور (ہر) اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر۔ پس جب تُو (کوئی) فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر توکّل کر۔یقیناً اللہ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔(آل عمران:۱۶۰)ان دنوں میں مختلف ممالک میں جماعتی مجالسِ شوریٰ منعقد ہو رہی ہیں۔ بعض ملکوں میں ہو چکی ہیں، بعض میں اس ہفتے ہیں اور بعض آئندہ ہفتے میں ہوں گی۔ جرمنی کی آج شروع ہو رہی ہے۔اس کے ساتھ ہی اَور بہت سے ملک ہیں۔ اسی طرح یوکے کی مجلس شوریٰ اگلے ہفتے ہے اور اس کے ساتھ اَور بھی ممالک شامل ہیں۔ شوریٰ کی اہمیت اور نمائندگان کی ذمہ داریوں کے بارے میںمَیں پہلے بھی خطبات میں توجہ دلا چکا ہوں لیکن اس کو کیونکہ اب کچھ سال گزر چکے ہیں اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ آج پھر اس بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم، آنحضرتﷺکے اسوہ اور جماعتی روایات اور طریق کے مطابق کچھ کہوں۔
سوال نمبر۲: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کس تعلیم اوراصول کےتابع مجالس شوریٰ کےانعقادکاذکرفرمایا؟
جواب: فرمایا:اس آیت میں جہاں اس بات کی تصدیق فرمائی گئی ہے کہ آنحضرتﷺ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے اپنی امّت کے افراد کے لیے انتہائی نرم دل رکھنے والے تھے وہاں اس بات کی طرف بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی اور ہدایت فرمائی کہ جن کے سپرد آنحضرتﷺ کے کام کو آگے بڑھانا ہے اور پھر آپﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپﷺ کی غلامی میں آنے والے مسیح موعودؑ اور مہدی معہودؑ کے مشن کو پورا کرنا ہے ان کا بھی یہ کام ہے کہ محبت، پیار اور نرمی سے کام کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر نرمی نہ دکھائی اور سخت دلی دکھائی اور غصہ میں آنے والا ہوا تو یہ لوگ دُور ہوجائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ درگزر کرنے اور بخشش کی دعا کرنے کا حکم فرماتا ہے اور پھر ساتھ ہی مشورہ کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے۔پس اس اصول اور تعلیم کے تابع مجالس شوریٰ منعقد کی جاتی ہیں لیکن جیساکہ نام سے ظاہر ہے یہ مشورہ دینے والی مجلس ہے، فیصلہ کرنے والی نہیں۔ اس لیے فرمایا کہ مشوروں کے بعد جو فیصلہ تُو کرے اس پر اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے عمل کر اور جب اللہ تعالیٰ پر توکّل ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے نتائج بھی بےانتہا برکتوں والے نکالے گا۔ توکل کی اعلیٰ ترین مثال تو آنحضرتﷺکی ذات میں ہمیں نظر آتی ہے۔ آنحضرتﷺ کو تو بہت سے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست راہنمائی ملتی تھی لیکن خاص طور پر ان معاملات میں آپؐ ضرور ضروری مشورہ طلب فرماتے تھے جہاں اللہ تعالیٰ کا کوئی واضح حکم نہ ہوتا تھا۔ اور آپؐ کا یہ عمل اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہمیں بتانے کے لیے ہے کہ جماعتی عہدیداروں کے افرادِ جماعت کےساتھ کیسےرویے ہونے چاہئیں اور ہمیں باہم مشورے سے کام کرنے چاہئیں۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکی صحابہ کرامؓ سےمشاورت کی بابت کیاطریق بیان فرمائے؟
جواب: فرمایا: آنحضرتﷺ نے کن موقعوں پر مشورے لیےاور آپؐ کے مشورے کا کیا طریق تھااس بارے میں ہمیں تاریخ سے جو پتہ چلتا ہے وہ کچھ بیان کرتا ہوں۔ یہی طریق خلفائے راشدین نے بھی جاری رکھا اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اسی پر عمل کیا۔عموماً مشورہ لینے کے لیے تین طریق ہمیں نظر آتے ہیں۔ ایک یہ طریق تھاکہ جب مشورے کے قابل کوئی معاملہ ہوتا تو ایک شخص اعلان کرتا کہ لوگ جمع ہو جائیں اور لوگ جمع ہو جاتے اور پھر جو رائے ہوتی، جو مشورہ ہوتا اس پر آنحضرتﷺ یا خلفاء فیصلہ کر دیتے کہ ان مشوروں کے بعد ہمارا یہ فیصلہ ہے، اس طرح اس پر عمل ہو گا۔ اس زمانے میں کیونکہ سرداری نظام تھا اس لیے عموماً گو قبیلے کے بہت سارے لوگ جمع ہو جاتے تھے لیکن رائے سردار یا امیر ہی دیتے تھے۔ ان کا ایک نمائندہ ہوتا تھا۔ اور لوگ اس بات پر بخوشی راضی ہوتے تھے کہ ہمارا سردار یا امیر ہماری نمائندگی میں رائے دے۔ بلکہ اس وقت کے رواج کے مخالف اگر کوئی جوش میں اپنی رائے دینے کی کوشش بھی کرتا توآنحضرتﷺفرماتے کہ اپنے سردار یا امیر سے کہو کہ وہ آگے آ کر اپنی رائے دے۔ تمہاری بات کی اس طرح کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پس یہ ایک طریق تھا۔ دوسرا طریق یہ تھا کہ جن لوگوں کو آنحضرتﷺ مشورے کا اہل سمجھتے انہیں بلا لیتے اور عمومی طور پر سب کو نہ بلایا جاتا اور پھر ان چند لوگوں کی مجلس سے مشورہ لیا جاتا۔ تیسرا طریق یہ تھا کہ جہاں آپﷺ سمجھتے کہ دو آدمی بھی اکٹھے جمع نہیں ہونے چاہئیں وہاں آپؐ علیحدہ علیحدہ بلا کر مشورہ لیتے۔ پہلے ایک کو بلا کر مشورہ لیتے پھر دوسرے کو بلا کر مشورہ لیا جاتا۔بہرحال آپﷺ کے یہ تین طریق تھے مشورہ لینے کے اور خلفائے راشدین نے بھی اس کے مطابق ہی مشورہ لیا۔ جیساکہ بیان ہو چکا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کا رسول ان مشوروں سے مستغنی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ نے مختلف موقعوں پر مشورے لیے بلکہ آپؐ تو بہت زیادہ صحابہؓ سے مشورے لیا کرتے تھے ۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ممبران شوریٰ کومشورہ دینے کےحوالہ سے کیاہدایت فرمائی؟
جواب: فرمایا: جہاں جہاں ہمارے شوریٰ کے ممبران ہیں ان کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں وہ مشورہ دیتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار کریں کہ ہم نے ان مشوروں پر منظوری کے فیصلے کے بعد عمل کرنا ہے یا جو بھی خلیفۂ وقت فیصلہ کریں گے سب سے پہلے ہم نے اس پر عمل کرنے کے لیے ہر قربانی دینی ہے۔ جب اپنے عملی نمونے قائم ہوں گے تو پھر ہی افراد جماعت بھی خوشی سے اس پر عمل کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں گے۔ شوریٰ کے ممبران کو یہ ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ ہر احمدی کا خلافت سے وفا اور اطاعت کا عہد ہے تو اس کے لیے سب سے اعلیٰ نمونہ عہدیداران اور شوریٰ کے ممبران کو دکھانا چاہیے کیونکہ آپ اس ادارے کے ممبر بنائے گئے ہیں جو نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت کا مددگار ادارہ ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جہاں یہ حکم خلیفۂ وقت کو ہے کہ آنحضرتﷺ کی سنت پر چلتے ہوئے دین کے اہم کاموں میں امّت کے لوگوں سے مشورہ لو، اسی طرح نرم دل رہنے اور دعا کا بھی حکم ہے۔ ان لوگوں کو بھی یہ حکم ہے جن سے یہ مشورہ لیا جاتا ہے کہ نیک نیت ہو کر تقویٰ پر چلتے ہوئے مشورہ دو۔ پس مشورہ دینے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے مشورے نیک نیتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق ہونے چاہئیں۔ پس اس لحاظ سے مشورہ دینے والوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ جائزہ لیں کہ ان کا تقویٰ کس معیار کا ہے۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے نمائندگان شوریٰ کو منتخب کرنے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:حضرت علیؓ کی ایک روایت وضاحت کرتی ہے، آپؓ نے فرمایا کہ شَاوِرُوْا الْفُقَہَاءَ وَالْعَابِدِیْنَ یعنی سمجھدار اور عبادت گزار لوگوں سے مشورہ کروہر ایک سے نہیں۔ پس یہ معیار ہے نمائندگان کا۔اس میں ان لوگوں کے لیے بھی نصیحت ہے جو نمائندگان شوریٰ چنتے ہیں کہ اپنے میں سے ایسے لوگ چنیں جو بظاہر صائب رائے رکھنے والے ہیں، دینی علم میں بہتر ہیں اورعبادت کے معیار بھی اچھے ہیں۔جہاں بھی اس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے نمائندگان چنے جاتے ہیں ان نمائندگان کی رائے میں مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک نمایاں فرق نظر آ رہا ہوتا ہے۔اور یہ ذمہ داری ہے ان نمائندگان کی بھی کہ اگر حسنِ ظن رکھتے ہوئے افراد جماعت نے کسی کو شوریٰ کا نمائندہ چنا ہے تو وہ اس حسن ظن پر پورا اترے۔ ایک دن میں یا چند ہفتوں میں کوئی علم کے اعلیٰ معیار اور دین کی گہرائی کو تو نہیں جان سکتا، حاصل نہیں کر سکتا لیکن تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی رائے ہر قسم کے مفاد سے بالا تر ہو کر تو ہر کوئی دے سکتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے، دعا کے ساتھ جہاں جہاں شوریٰ منعقد ہو رہی ہیں وہاں کے نمائندگان کو اپنی رائے دینی چاہیے نہ کہ کسی مقرر کی تقریر سے متاثر ہو کر اور نہ ہی کسی تعلق اور دوستی کا خیال رکھتے ہوئے اپنی رائے کو دوسروں کی رائے کے ساتھ ملانا چاہیے اور نہ ہی کسی خوف یا لحاظ کی وجہ سے اپنی رائے بدلنی چاہیے بلکہ تقویٰ سامنے رکھتے ہوئے جماعت کے مفاد کو ہر بات پر مقدّم کرتے ہوئے جب رائے دیں گے تو تبھی حقیقت میں وہ اپنی نمائندگی کا حق ادا کرنے والے بنیں گے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کے حال بھی جانتا ہے اور ہمارے ہر عمل کو بھی دیکھ رہا ہے۔ اگر میں اس کی رضا کو سامنے رکھ کر کام نہیں کر رہا تو کہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لینے والا نہ بن جاؤں۔ اسی طرح جہاں شوریٰ ہو چکی ہے وہاں شوریٰ کے ممبران اپنا حق اب اس طرح ادا کریں کہ اپنے عملی نمونے ہمیشہ اپنی روحانی اور عملی حالت پر نظر رکھتے ہوئے گزارنے کا عہد کریں اور جو فیصلے ہوں یا ہوئے ہیں ان پر تقویٰ سے چلتے ہوئے عمل کرنے اور کروانے کی کوشش کریں۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مجلس مشاورت میں تجاویز کے دوبارہ پیش ہونے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:اگر تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہر نمائندہ اور ہر عہدیدار شوریٰ کی منظور شدہ تجاویز پر عمل کرنے اور کروانے کی کوشش کرے تو پھر کبھی یہ صورت پیدا نہ ہو کہ وہ تجویز دوبارہ اگلے سال یا دو تین سال بعد پیش ہونے کے لیے آ جائے۔ دوبارہ تجویز آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس پر یا تو مکمل طور پر عمل نہیں ہوا یا جس طرح ہونا چاہیے تھا اس طرح نہیں ہوا۔ پس ایسی جماعتوں اور عہدیداروں کو سوچنا چاہیے کہ کیا یہ تقویٰ پر چلنے اور اپنی امانتوں کے حق ادا کرنے کا عمل ہے؟ کیا یہ خلافت سے اطاعت اور وفا کے نبھانے کے عہد کو پورا کرنے کا عمل ہے؟ ملک کے اندر جو جماعتیں ہیں وہ اپنے مرکز کو بھی ایسی تجاویز بھیجتی ہی اس وقت ہیں جب وہ دیکھتی ہیں کہ ان باتوں پر عمل نہیں ہو رہا۔ اگر عمل ہو رہا ہو اور ہر سطح پر ہر جماعت کی نگرانی ہو رہی ہو کہ کس حد تک عمل ہو رہا ہے تو تجاویز دوبارہ آئیں ہی نہ اور نہ ملکی مرکز کو ان تجاویز کو خلیفۂ وقت کے پاس اس سفارش کے ساتھ بھیجنے کی ضرورت پڑے کہ کیونکہ یہ ایک سال پہلے یا دو سال پہلے پیش ہو چکی ہے اس لیے اس کو شوریٰ میں پیش کرنے کی سفارش نہیں کی جاتی۔ یہ جواب لکھتے ہوئے ملکی مرکزی نظام کو شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھنا چاہیے کہ ہم شرمندہ ہیں کہ ہم اس پر عمل نہیں کروا سکے۔ اب اس سال ہم اس پر عمل کریں گے۔ اگر عمل نہ کروائیں تو ہم مجرم ہوں گے اور ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو اپنی امانتوں کا حق ادا نہیں کر رہے۔ لہٰذا یہ تحریر ان کو لکھنی چاہیے اور پھر لکھیں کہ لہٰذا نہایت عجز کے ساتھ ہم معافی مانگتے ہوئے اس تجویز کو اس سال پیش نہ کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ جب اس طرح کریں گے تو ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گا۔ کم از کم اس سے انتظامیہ اور نمائندگان کو یہ احساس تو ہو گا کہ وہ بڑے بڑے لائحہ عمل بنا کر خلیفۂ وقت کو پیش کرتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے اور پھر اس پر عمل نہیں کرتے تو وہ مجرم ہیں اور خلیفۂ وقت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے ہیں۔ پس اس لحاظ سے جہاں اجتماعی لحاظ سے محاسبہ ہو وہاں انفرادی طور پر بھی عہدیدار اور نمائندہ شوریٰ اپنا محاسبہ کرے اور استغفار کرے اور پھر اس پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجوہات بھی ہر سطح پر جاننے کی کوشش کی جائے۔