سعیٔ پیہم میری ناکام ہوئی جاتی ہے
سعیٔ پیہم میری ناکام ہوئی جاتی ہے
صبح آئی ہی نہیں شام ہوئی جاتی ہے
وہ لبِ سُرخ ہیں گویائی پہ آمادہ پھر
سخت ارزاں مئے گُلفام ہوئی جاتی ہے
لُطفِ خلوت جو اُٹھانا ہو اُٹھا لو یارو
دعوتِ پیرِ مُغاں عام ہوئی جاتی ہے
مضطرب ہو کے چلے آتے ہیں میری جانب
موت ہی وصل کا پیغام ہوئی جاتی ہے
ان کو اظہارِ محبت سے ہے نفرت محمودؔ
آہ میری یونہی بدنام ہوئی جاتی ہے
عشق ہے جلوہ فگن فطرتِ وحشی پہ مری
دیکھ لینا کہ ابھی رام ہوئی جاتی ہے
جرأتِ زُلف تو دیکھو کہ بروزِ روشن
درپئے قتل سرِِ بام ہوئی جاتی ہے
خودسری تیری گر اسلام ہوئی جاتی ہے
ان کی رنجش بھی تو انعام ہوئی جاتی ہے
لذّتِ عیشِ جہاں دیکھ کے بھُولا مسلم
دانہ سمجھا تھا جسے دام ہوئی جاتی ہے
کیا سبب ہے کہ تجھے دے کے دِل اے چشمۂ فیض
میری جاں معرضِ الزام ہوئی جاتی ہے
پھر مٹے جاتے ہیں ہر قسم کے دُنیا سے فساد
عقل پھر تابعِ الہام ہوئی جاتی ہے
(کلام محمودمع فرہنگ صفحہ۱۹۱)