رمضان المبارک اور قبولیت دعا (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍ اپریل۲۰۲۱ء)
اس وقت میں دعاؤں کے حوالے سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض فرمودات پیش کر کے اس کی اہمیت اور ہمیں جو اپنی عملی حالتوں کو درست کرنا چاہیے اس کے متعلق قبولیت دعا کی شرائط کیا ہیں اور اس کا فلسفہ اور اس کی گہرائی کے بارے میں جو آپؑ نے بیان فرمایا اس میں سے کچھ پیش کروں گا۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سطحی طور پر دعا کر کے پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول نہیں کیں۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کو ہم نے ایک کام کہا جس کو اسے ماننا چاہیے تھا۔ یعنی نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ ان کے حکموں کا پابند ہے۔ جو چاہیں وہ کہیں، جس طرح چاہیں وہ کہیں، جو چاہیں ان کے عمل ہوں لیکن اللہ تعالیٰ پابند ہے کہ ہماری باتیں سنے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا یہ نہیں ہو گا۔ پہلے تمہیں میری باتیں ماننی ہوں گی۔ اپنے عملوں کو قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ رمضان کے مہینے میں جب نیکیوں کا ماحول بنا ہے۔ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے تو میری ہدایات اور احکامات کو دیکھو، غور کرو، سنو اور ان پر عمل کرو۔ اپنے ایمانوں کا جائزہ لو کہ کتنے مضبوط ایمان ہیں تمہارے۔ کسی مشکل میں پڑنے پر، ابتلا آنے پر ایمان متزلزل تو نہیں ہو رہے؟ بہرحال یہ ایک ایسا مضمون ہے جس میں قدم بندے نے ہی پہلے اٹھانا ہے اور جب اس کی انتہا ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت جوش میں آتی ہے، اس کا فضل جوش میں آتا ہے۔ پس اس بات کو سمجھنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ
’’د عا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے۔ مگر یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بَک بَک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہ کر آستانہ الوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لیے قَوی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ حالت میسر آجاوے تو یقیناً سمجھو کہ باب ِ اجابت اس کے لیے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کے لئے عطا ہوتی ہے۔ یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد7 صفحہ263ایڈیشن 1984ء)
پس یہ ہے دعا کا طریق اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا طریق اور دعا کو قبول کرانے کا طریق اور گناہوں سے پاک ہونے کا طریق۔ آج کل یہ سوال بڑا عام کیا جاتا ہے کہ ہمیں کس طرح پتہ چلے کہ ہمارے گناہ معاف ہو گئے اور اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے۔ یہاں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اصولی بات بھی بیان فرما دی کہ اگر اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق قائم ہو جاتا ہے جو مستقل تعلق ہے، جس کے لئے انسان نے حقیقی کوشش کی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوتا ہے جو اسے بدیوں سے بچنے کی استقامت عطا فرماتا ہے اور نہ صرف یہ کہ بدیوں سے انسان بچتا ہے بلکہ نیکیاں کرنے اور مستقل نیکیاں کرنے کی قوت عطا ہوتی ہے۔ اگر یہ نہیں تو انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا قرب پا لیا ہے۔ پس حقیقی عابد انسان اس وقت بن سکتا ہے جب اس نہج پر سوچنے والا ہو اور اس کے مطابق عمل کرنے والا ہو اور اس کے لیے ہمیں اس رمضان میں کوشش بھی کرنی چاہیے۔
دعا کے حوالے سے جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض باتیں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ قبولیت دعا کے مسئلہ کو بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’استجابت دعا کا مسئلہ درحقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھوکے لگتے ہیں۔‘‘ کسی چیز کو سمجھنے کے لئے اس کی بنیاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ بنیادی چیز نہیں سمجھ آ رہی تو جتنے مرضی اس کے نکات ہوں، تشریحیں ہوں، وضاحتیں ہوں وہ سمجھ نہیں آ سکتے۔ فرمایا کہ ’’…… دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق مجاذبہ ہے۔‘‘ یعنی جذب کرنے کا ایک تعلق ہے۔ ’’یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے۔‘‘ اگر بندے کی سچائی اور سچے دل سے کوششیں ہوں گی تو پھر خدا تعالیٰ بندے کے نزدیک ہو جاتا ہے۔ ’’اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواصِ عجیبہ پیدا کرتا ہے۔‘‘ عجیب و غریب قسم کے خواص ظاہر ہوتے ہیں۔ ’’سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے۔ پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہِ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے۔‘‘ صرف اس کو خدا ہی خدا نظر آتا ہے۔ ہر چیز نظر سے غائب ہو جاتی ہے۔ دنیا کی کوئی حیثیت اس کے سامنے نہیں رہتی۔ کسی بھی چیز کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ ایسی حالت پیدا ہوتی ہے کہ صرف خدا ہوتا ہے اور جب خدا کو دیکھتا ہے تو اس کے آستانے پر پھر اس کی روح سر رکھ دیتی ہے ’’اور قوتِ جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔‘‘ بندے کے اندر بھی جذب کرنے کی ایک قوت رکھی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی جو عنایات ہیں ان کو جذب کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ’’تب اللہ جل شانہٗ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے۔‘‘ جو بھی بنیادی اسباب اس کام کو کرنے کے لیے ضروری ہیں، جو چیزیں بھی ضروری ہیں، جو لوازمات بھی ضروری ہیں ان پر اللہ تعالیٰ اپنا اثر ڈالتا ہے۔ ’’جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً اگر بارش کے لیے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کے لیے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں اور اگر قحط کے لئے بد دعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے۔‘‘
پھر فرمایا کہ ’’…… جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیائے کرام ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرتِ قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں۔‘‘ (برکات الدعاء، روحانی خزائن جلد6صفحہ9-10)