اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (اکتوبر ۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)
میر پورخاص میں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی
میرپور خاص۔اکتوبر ۲۰۲۳ء:دو نامعلوم شر پسندوں نے نصرت آباد احمدیہ فارمز پر دو احمدیوں کی قبروں کو نقصان پہنچایا۔انہوں نے ایک قبر کا کتبہ اور دوسری قبر پر لگی ٹائلیں توڑ دیں۔
امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت مقدمات کا اندراج
منڈی بہاؤالدین۔ ستمبر ۲۰۲۳ء: پولیس نے ۲۷؍ستمبر ۲۰۲۳ءکوشاہ تاج شوگر ملز میں میناروں کےساتھ مسجد بنانے کے جرم میں آٹھ نامزد اور ۳۰ نامعلوم احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔حالانکہ یہ مسجد ۱۹۷۰ء میں بدنام زمانہ امتناع قادیانیت آرڈیننس سے پہلے بنائی گئی تھی۔اگر جرم ثابت ہو جائے تو ملزمان کو تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت ۲۳؍ لوگوں پر مقدمہ
چک ۲۰ضلع منڈی بہاؤالدین۔اکتوبر ۲۰۲۳:پولیس نے کل ۲۳؍ احمدیوں کے خلاف توہین کے مقدمات کا اندراج کر دیا۔ان پراپنی مسجد میں محراب اور میناروں کی تعمیر کرنے کے جرم میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ مسجد یہ ۱۹۶۰ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ایڈیشنل سیشن جج سلیم اختر کی عدالت میں ملزمان کی عبوری ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی لیکن اس نے درخواست خارج کر دی۔ایک اور احمدی کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن مجسٹریٹ نے ان کی ضمانت منظور کرلی۔احمدیوں کے خلاف یہ انتہائی بودہ اور بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا ہے۔
تحریک لبیک کے دہشتگرد ملاں کے دباؤ کی وجہ سے ایک احمدی سرکاری اہلکار کا تبادلہ
منڈی بہاؤالدین۔ پنجاب۔ستمبر۲۰۲۳ء: ایک احمدی کا بطور ایس پی پولیس منڈی بہاؤالدین میں تبادلہ ہوا۔اس پر تحریک لبیک پاکستان کے ملاںنعیم چٹھہ قادری نے یہ بیان جاری کیا کہ ایک قادیانی ایس پی کا تبادلہ اس ضلع میں کیا گیا ہے۔ مَیں ایجنسیوں کو خبردار کر رہا ہوں کہ اگر اس کی ضرورت ہے تو اس کو کسی اَور ضلع میں لے جاؤ۔ وہ یہاں نہیں رہ سکتا۔یا وہ رہے گا یا ہم۔بابا جی(خادم رضوی)نے ہمیں بتایا ہوا ہے کہ ہماری گردنیں سرکارﷺ کے لیے حاضر ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایک غازی آئے گا۔ اور غازی کو آتے ہوئے کوئی وقت نہیں لگتا۔پھر تم سوچتے رہنا کہ یہ کیا ہو گیا۔ پہلے ایک گورنر کو مارا اب ایک ایس پی کو۔ اگر اسے زندہ رکھنا چاہتے ہو تو اسے کسی اَور ضلع میں لے جاؤ۔اسی مولوی نے پہلے ایک بیان دیا تھا کہ اس زور سے نعرے لگاؤ کہ احمدی عورتوں کے حمل گر جائیں۔پولیس نے ان کے دبائو میں آکر مذکورہ احمدی کا تبادلہ واپس لاہور پٹرولنگ پولیس میں کر دیا۔
ضلع جہلم میں احمدیہ مسجد کی بے حرمتی
محمود آباد۔ستمبر ۲۰۲۳ء:۵ بج کر ۴۰ منٹ پر تقریباً ۲۰؍ کے قریب مذہبی شدّت پسندوں کا ہجوم مولویوں کی قیادت میں احمدیہ مسجد پر حملہ آور ہو گیا اور مسجد کے محراب کو شہید کر دیا۔جو احمدی چھت پر کھڑے ہو کر اس مذموم کام کی ویڈیو بنا رہے تھے ان پر ان مذہبی انتہاءپسندوں نے پتھر پھینکے۔پولیس کو بھی اس واقعہ کی خبر کر دی گئی۔
پولیس کی جانب سے احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی
بھلیر۔ضلع قصور۔۳۰؍ستمبر ۲۰۲۳ء:مذہبی شدّت پسندوں نے پولیس کو شکایت کی کہ کچھ احمدیوں کی قبروں کے کتبوں پر مقدس اسلامی الفاظ درج ہیں۔ڈی سی قصور نے اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے بےضمیری کا ثبوت دیتے ہوئے احمدیوں کو عندیہ دیا کہ وہ یہ الفاظ مٹائیں۔ احمدیوںنے جواباً کہا کہ سپریم کورٹ کی ایک رولنگ کے مطابق احمدی اپنی چار دیواری کے اندر اپنے عقائد کے مطابق عمل کر سکتے ہیں اور یہ قبرستان چار دیواری کے اندر ہے لہٰذا کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔لیکن کمیٹی نے احمدیوں کی اس دلیل کو ردّ کر دیا۔بعد ازاں ۳۰؍ ستمبر کو کمیٹی کے ایک رکن نے احمدی احباب کو مطلع کیا کہ ان کو حکم ملا ہے کہ وہ ان کتبوں کو ہٹائیں۔ نیز یہ کہ ان کو فوراً اس حکم پر عمل درآمدکا کہا گیا ہے۔ احمدی احباب نے ان سے حکم نامے کی کاپی مانگی تو انہوں نے مہیا کرنے سے انکار کردیا۔اس کے بعد پولیس نے مذکورہ کتبوں کو شہید کردیا اور ملبہ اپنے ساتھ لے گئی۔
احمدیہ مسجد کے محراب کو شہید کر دیا گیا
55/2ایل۔ ضلع اوکاڑہ۔ اکتوبر۲۰۲۳ء:۲۷؍ستمبر کو شدت پسند عناصر نے احمدیہ مسجد کے محراب کو شہید کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ حصے کو ہی نقصان پہنچا سکے۔ تاہم دو روز بعد انہوں نے شام ۶ بجے حملہ کر کے محراب اور سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ دیا۔اس بات کی اطلاع پولیس کو دے دی گئی۔ڈی پی او اور باقی افسران موقع پر پہنچےا ور کہا کہ اگر احمدی احباب تحریری رپورٹ درج کروائیں گے تو اس پر کوئی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
ملتان میں تین احمدیوں کی قبروں کے کتبے شہید کردیے گئے
کوٹھے والا۔ ضلع ملتان۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء: نامعلوم افراد نے احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی۔ ایک احمدی ۲۱؍اکتوبر۲۰۲۳ءکو جب قبرستان گئے تو انہوں نے دیکھا کہ تین احمدیوں کی قبروں کے کتبے شہید کر دیے گئے ہیں۔
احمدی جیل میں بھی محفوظ نہیں ہیں
کیمپ جیل لاہور۔ستمبر۲۰۲۳ء:پانچ احمدی کیمپ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور ان کے اہل خانہ قانون کے مطابق ان سے ملاقات کےلیے آتے ہیں۔۱۹؍ستمبر کو بھی ان کے اہل خانہ ان اسیران سے ملاقات کےلیے آئے تو وہاں پر موجود ایک مولوی نے برقع کی وجہ سے احمدی خواتین کو پہچان لیا اور جماعت احمدیہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے لگا۔ اس پر وہاں موجود پولیس نے اس کو یہ کہتے ہوئے باہر نکال دیا کہ کیا تم پاگل ہو گئے ہو۔احسن باکسر نامی ایک یوٹیوبر جو خود کو مہدی کہتا ہے بھی وہاں قید ہے اور احمدی اسیران کے خلاف ایک منظم گروہ بنا رہا ہے۔ایک روز جب احمدی اسیران باجماعت نماز ادا کررہے تھے تو وہ چلّانے لگا جس پر جیل انتظامیہ نے اسے کسی اَور جگہ منتقل کر دیا۔
قرآن کریم کی بے حرمتی کا جھوٹا الزام
ادرحماں۔ ضلع سرگودھا۔ ۲۹؍اکتوبر۲۰۲۳ء: ایک مقامی مولوی نے اپنے کالے کرتوت چھپانے کےلیے احمدیوں پر قرآنِ کریم جلانے کا جھوٹا الزام لگا دیا۔ تفصیلات کے مطابق کوئی چار ماہ قبل مقامی جامع مسجد کے ایک اَور مولوی نے ایک ویڈیو پیغام میں مذکورہ مولوی پر ایک لڑکے کے ساتھ بدفعلی کرنے کا الزام لگایا جس پر اس کے خلاف ایک رپورٹ بھی درج کروائی گئی۔لیکن مقامی ایم پی کی مداخلت سے اس رپورٹ کو ختم کر دیا گیا۔ ۲۸؍اکتوبر کو اسی مولوی کے بھائی نے ایک اور لڑکے کے ساتھ بد فعلی کرنے کی کوشش کی جس کاعلم گاؤں والوں کو ہو گیا۔ گاؤں والوں نے پولیس کو بلالیا۔پولیس کے موقع پر پہنچنے پر ملزم فرار ہوگیا۔ اگلے روز اس مولوی نے عوام کی توجہ اس گھناؤنے الزام سے ہٹانے کی خاطر احمدیوں پر قرآنِ کریم جلانے اور اس کی بے حرمتی کرنے کا جھوٹا الزام لگا دیا۔ ضلعی امن کمیٹی نے مقامی سطح پر تحقیقات کے بعد مولوی کے ان الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دے دیا۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )