رمضان گزاریں ایمان اور احتساب کے ساتھ
ہر سال جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ قریب آرہا ہوتا ہے تو مجھے یہ فکر لاحق ہوتی جاتی ہے کہ خدا جانے اس بابرکت مہینہ کا صحت کی حالت میں منہ دیکھ پاؤں گا یا نہیں؟ اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان برکتوں والے دنوں میں سے گزرنا نصیب کرتاہے۔ ہر طرف نیکیوں کا سماں آجاتا ہے جیسے چمن میں بہار آگئی ہو۔ اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نیکیاں کرنے کی توفیق مل پاتی ہے اور کچھ نہیں بھی۔ ہررمضان کے بعد ماحصل یہ نکلتا ہے کہ روتے ہوئے دعائیں کررہا ہوتا ہوں کہ اوہو یہ برکتوں والے شب و روز ہاتھ سے جاتے رہے اور میں کچھ نہ کر سکا۔قرآن کریم سے اس مہینہ کی بابت یہ اشارہ ملتا ہے کہ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ۔(البقرہ:۱۸۵)گنتی کے چند دن ہیں۔
یہاں یہ پیغام دیا جا رہاہےکہ ان گنتی کے چند روحانی بہار کے دنوں کو تو اسی طرح گزرنا ہی ہے۔اب ان بہار کے دنوں سے فائدہ اٹھا لو تاکہ سال بھرحسرت سے یہ نہ کہنا پڑھے کہ کاش! ان چند گنتی کے دنوں میں کچھ نیکیاں کما لیتے۔اس بابرکت مہینے سے مستفیض ہوکر اپنے خدا کو راضی کر لیتے۔ مجھ جیسے انسان اپنے دامن کو گناہوں سے ایساداغ دار کرچکے ہیں کہ یہاں ایک رمضان کی بات نہیں رہی بلکہ ایسے سینکڑوں رمضان آئیں اورایک دھوبی کی طرح ہمارے گناہوں سے بھرے چولے کو پتھر پر پٹختے چلے جائیں تو شاید پھر بھی کئی ایسے داغ ہوں جو مٹنے ہی میں نہ آئیں۔تو یہ رمضان چند دنوں میں پھر گزر جانے والا ہے،اٹھو کمر ہمت کس لواس مصمم ارادہ کے ساتھ کہ ہم جتنی اپنی توفیق کے مطابق نیکیاں کماسکتے ہیں وہ ضرور کمائیں گےاور خدا کی رضا کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔
اب جب ہمیں یہ فکر ہے کہ ان چند گنتی کے دنوں سے معلوم نہیں کہ ہم فائدہ اٹھا پائیں گے بھی یا نہیں۔تو ان فکروں سے آزادی کا گر ہمیں آنحضرت ﷺنے یہ سکھایا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبۂ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب صوم رمضان احتساباً من الایمان)
پس مراد یہ ہے کہ انسان دنیا کی نظروں سے بے پرواہ محض اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے نیکیاں کرے۔رمضان کی راتوں کو زندہ کرنا اپنے رب کی محبت کے حصول کے لیے،دین کے تمام فرائض پورے کرنا۔ایمان کی تفاصیل میں تمام عبادات داخل ہیں۔
تو اس بات کو اس حدیث میں مزید کھول دیا کہ صرف روزے رکھنا کافی نہیں ہے بلکہ روزے ان تمام لوازمات کے ساتھ رکھنے ضروری ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اپنے روزوں کے معیار کو دیکھنا اور تقویٰ کی طرف قدم بڑھنے کا تبھی پتہ چلے گا جب اپنا محاسبہ کر رہے ہوں گے۔ دوسرے کے عیب نہیں تلاش کر رہے ہوں گے بلکہ اپنے عیب اور کمزوریاں تلاش کر رہے ہوں گے۔ یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آج میں نے کتنی نیکیاں کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور کتنی برائیاں ترک کی ہیں، کتنی برائیاں چھوڑی ہیں۔ہمیں اس طرح جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری صُبحیں اور ہماری راتیں ہماری نیکیوں کی گواہ ہونی چاہئیں۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسرکیا ‘‘۔(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲)
پس رمضان کی راتوں میں اٹھنا عبادت کی خاطراور عبادت اس لیے کرنا کہ اپنا احتساب کیا جائے یہ مضمون ہے جو آنحضرت ﷺ نے کھولا ہے۔اس طرح رمضان گذاریں تو بخشش کے سامان پیدا ہو سکتے ہیں۔جو شخص اس طرح ایمان اور احتساب کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ خداتعالیٰ کے آستانے پر گرتا ہے ایسے شخص کے لیے آنحضرت ﷺ نے یہ نوید سنائی ہے کہ وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے اس روز تھا جب اس کی ماں نے اس کو جنم دیا۔گناہوں کے داغوں سے بالکل پاک اور صاف۔گویا ایک نئی روحانی پیدائش واقع ہوتی ہے۔تواس جائزے کی ضرورت ہےکہ ہر سال پیدا ہوکر ہرسال مرنا ہی تو ہم نے اپنا مقدر تو نہیں بنا رکھا۔ایک بار روحانی دنیا میں پیدا ہوگئے تو اس معصومیت کو برقرار رکھنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔جس کے لیے راتوں کو اٹھ کر احتساب کی ضرورت ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ابنِ آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لیے ہوتا ہے سوائے روزوں کے۔ پس روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور مَیں ہی اس کی جزا دوں گا اور روزے ڈھال ہیں۔ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر کوئی اس کو گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ مَیں تو روزے دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے،، روزے دار کی منہ کی بواللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیّب ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں۔ ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے ربّ سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہو گا۔ (بخاری کتاب الصوم۔ باب ھل یقول انی صائم اذا شتم حدیث نمبر ۱۹۰۴)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ روزے کی میں جزا دوں گا تو ویسے بھی ہر عمل کی جزا تو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ لیکن دوسرے سارے عمل ایسے ہیں جن میں یہ نیکیاں ہیں، جائز باتیں ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یا برائیاں ہیں جن سے رکنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ لیکن رمضان میں روزہ رکھ کر ایک مومن ناجائز باتوں سے تو رک ہی رہا ہوتا ہے، بعض جائز باتیں بھی خدا کی خاطر چھوڑ رہاہوتا ہے۔ اور پھر عام حالات کی نسبت پہلے سے بڑھ کر نیکیاں کر رہا ہوتا ہے۔ نیکیاں کرنے کی توفیق پا رہا ہوتا ہے۔ پھر اپنے اندر تبدیلی پید اکرنے کی کوشش کرتے ہوئے بُرائی کا جواب بھی اللہ کی خاطر نیکی سے دے رہا ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا اجر بھی بے حساب رکھا ہے یہ سوچ کر کہ تم میری خاطر کچھ عمل کر رہے ہو یا کرو گے تو میں اس کا اجر بے حساب دوں گا۔ ہر بات کا، ہر کام کا، ایک فرض کے ادا کرنے کا ۷۰گنا ثواب ملتا ہے۔ تومطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کے اس فعل سے کہ اس نے اللہ کی خاطر روزہ رکھا اور تمام نیکیاں بجا لانے اور برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ کی بلکہ بعض جائز باتیں بھی جیسا کہ میں نے کہا جو عام حالات میں انسان کر سکتا ہے ان سے بھی اس لئے رکا کہ اللہ کا حکم ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ اس کی جزا بن گیا۔ پس یہ عبادت بھی خالص ہو کر اس کے لئے کرنا اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہی اس کی رحمتوں کا وارث بنائے گااور بے حساب رحمتوں کا وارث بنائے گا اور خالص ہو کر ہم اس کی خاطر یہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کو ایسے مومن کی ہر حالت اور ہر حرکت پر پیار آتا ہے جو اس کی خاطر یہ فعل کررہا ہوتا ہے۔ یہاں تک فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے بعض دفعہ جو منہ سے بو آتی ہے اللہ تعالیٰ کو وہ بھی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء)
خدا تعالیٰ جب روزہ دار کے لیے جزا بنتا ہے تو اس کو رمضان میں ہی خداتعا لیٰ کے قرب کا احساس کُچھ کچھ ضرور محسوس ہونا چاہئے اگر خدا تعالیٰ ہمارے روزوں کی جزا بناہے تو لقائے باری تعالیٰ ہمیں اپنی اپنی توفیق کے مطابق ضرور نصیب ہوگی۔اور یہی کامیابی کی کنجی ہے۔کہ ہمیشہ کی زندگی انسان کو اسی دنیا میں نصیب ہوجاتی ہے۔ عالم فنا میں رہتے ہوئے عالم بقا میں انسان داخل ہوجاتا ہے۔
روزہ کی حقیقت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیۂ نفس ہوتاہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلّی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ۱۰۲ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
آیئے ہم سب اپنے لیے دعائیں کرتے ہوئے رمضان میں اس طرح داخل ہوں کہ رمضان کاآب حیات پیتے ہوئے رمضان کے تمام اعلیٰ مقاصد پورے کرنے والے ہوں۔ہماری بدیاں جھڑ جائیں ہمارا احتساب کامل ہو،ایمان زندہ ہوجائےجس سے ہم خدا کو پالیں جس کی طرف رمضان ہمیں انگلی پکڑ کر لے جانا چاہتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین