احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
کیابراہین احمدیہ مکمل کتاب ہے؟
اور کیایہ کتاب مکمل لکھی گئی؟ اور بقیہ کتاب کامسودہ کہاں ہے؟
براہین احمدیہ کی طباعت واشاعت کی تفصیلات میں جائیں تو ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا براہین احمدیہ مکمل تصنیف ہوچکی تھی یعنی کیااس کا مکمل مسودہ تیارہوچکاتھا؟یا ساتھ ساتھ لکھی جاتی تھی اور جتنامسودہ تیارہوتاتھاوہ کتابت وطباعت کے لیے دے دیاجاتاتھا؟
ہمارے سامنے جو تاریخ وسیرت کی بنیادی کتب موجودہیں ان کی روشنی میں دونوں طرح کی آراء موجودہیں یہ خیال بھی ظاہر کیاگیا ہے کہ جیسے براہین احمدیہ کا مضمون اورمسودہ ساتھ کے ساتھ لکھاجاتاتھا یہاں تک کہ چوتھے حصہ تک شائع ہونے کے بعد دوسری اہم اورزیادہ ضروری مصروفیات کے باعث یہ سلسلہ رک گیا اور دوسری تصنیفات کا رنگ اختیار کرگیا۔اس رائے کے مؤید حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نظرآتے ہیں۔
دوسری رائے یہ ہے کہ براہین احمدیہ مکمل طورپر تصنیف ہوچکی تھی اوراس کا مسودہ تیار تھا۔اورجب ایک حصہ شائع ہوچکاتو اس وقت اورحالات کی مناسبت سے حواشی وغیرہ ساتھ لکھے جاتے تھے جبکہ اصل مضمون پر مشتمل مکمل کتاب تیارہوچکی تھی۔ اس رائے کے حامی حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ ہیں اوراسی طرح محترم حضرت مولانا عبدالرحیم دردصاحبؓ مصنف Life Of Ahmadاور مؤرخ احمدیت حضرت مولانا دوست محمدصاحب شاہدبھی اسی دوسری رائے کے مؤید نظر آتے ہیں۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اس ضمن میں تحریرفرماتے ہیں :’’یہ امر بھی قابل بیان ہے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف کیونکر ہوئی ہے ساری کتاب کا مسودہ ایک مرتبہ لکھا گیا اور پھر کتاب پریس میں دی گئی یا آپؑ ساتھ ساتھ لکھتے تھے اور کاتب بھی کتابت کرتا جاتا تھا۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایدہ اللہ الاحد نے اپنی تحقیقات سیرت المہدی صفحہ ۹۳پر جو روایت لکھی ہے اس میں تحریر فرمایا ہے کہ’’جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۷۹ء میں براہین کے متعلق اعلان فرمایا تو اس وقت براہین احمدیہ تصنیف فرما چکے تھے اور کتاب کا حجم قریباً دو اڑھائی ہزار صفحہ تک پہنچ گیا تھا اور اس میں آپ نے اسلام کی صداقت میں تین سو ایسے زبردست دلائل تحریر کیے تھے کہ جن کے متعلق آپ کا دعویٰ تھا کہ ان سے صداقتِ اسلام آفتاب کی طرح ظاہر ہوجائے گی اور آپ کا پکا ارادہ تھا کہ جب اس کے شائع ہونے کا انتظام ہو تو کتاب کو ساتھ ساتھ اور زیادہ مکمل فرماتے جاویں اور اس کے شروع میں ایک مقدمہ لگائیں اور بعض اَور تمہیدی باتیں لکھیں اور ساتھ ساتھ ضروری حواشی بھی زائد کرتے جاویں چنانچہ اب جو براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع شدہ موجود ہیں ان کا مقدمہ اور حواشی وغیرہ سب دوران اشاعت کے زمانہ کے ہیں اور اس میں اصل ابتدائی تصنیف کا حصہ بہت ہی تھوڑا آیا ہے یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تین سو دلائل جو آپ نے لکھے تھے ان میں سے مطبوعہ براہین احمدیہ میں صرف ایک ہی دلیل بیان ہوئی ہے اور وہ بھی نامکمل طور پر۔ان چار حصوں کے طبع ہونے کے بعد اگلے حصص کی اشاعت خدا کے تصرف کے ماتحت رک گئی اور سنا جاتا ہے کہ بعد میں اس ابتدائی تصنیف کے مسودے بھی کسی وجہ سے جل کر تلف ہو گئے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۲۳)
یہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی تحقیقات ہے۔ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی تحقیقات کے متعلق کچھ نہیں لکھنا چاہتا اسے من وعن درج کر دیا ہے۔ہاں میری تحقیقات کا نتیجہ دوسرا ہے۔بظاہر اس میں اختلاف نظر آتا ہے مگر بالآ خر میں نے بتا دیا ہے کہ میری اور صاحبزادہ صاحب کی تحقیقات ایک نقطہ پر آٹھہرتی ہے۔میرا نظریہ یہ ہے کہ حضرت اقدس ساتھ ساتھ تصنیف فرماتے تھے:جیسا کہ میں نے کسی دوسری جگہ آپ کے طریق عمل کے متعلق لکھا ہے اس کے علاوہ میرے پاس بعض تائیدی شواہد ہیں اول یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عام طریق ِتصنیف یہ تھا کہ کاتب کو ساتھ ساتھ مسودہ لکھ کر دیتے تھے چند تصانیف میری قادیان میں موجودگی میں طبع ہوئی ہیں ان کے متعلق میں نے اسی معمول کو دیکھا۔اس کے علاوہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے جب الحکم میں آپ کی سیرت پر ایک سلسلہ خطوط شائع کیا جس کو بعد میں سیرة مسیح موعود ؑکے نام سے میں نے علیحدہ بھی شائع کیا اس میں آپ نے تبلیغ کی تصنیف کے ایام کا ایک واقعہ لکھا ہے جس کو میں سیرة مسیح موعود ؑحصہ اول کے صفحہ ۱۰۰میں درج کر چکا ہوں اس میں حضرت مولوی صاحب تبلیغ کے ایک دو ورقہ کا ذکر کرتے ہیں جو حضرت حکیم الامت کو دیا گیا اور ان سے وہ گم ہو گیا اس پر وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت علیہ السلام نے مضمون نہیں بھیجا اور کاتب سر پر کھڑا ہے۔یہ واقعہ حضرت علیہ السلام کے طریق عمل کی مزید تائید ہے لیکن میں ایک اور عجیب تائید پیش کر تا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام میں بعض کتب زیر تصنیف تھیں اور وہ حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد شائع ہوئی تھیں۔وہ بدستور نامکمل شائع کی گئی ہیں۔اگر آپ علیہ السلام کا طریق عمل کل مسودہ کتاب کو پہلے سے تیار کر لینا ہوتا توکچھ شک نہیں یہ کتابیں نامکمل شائع نہ کی جاتیں۔منجملہ ان کتابوں کے خود براہین احمدیہ حصہ پنجم ہے اس کا نام ابتداء میں نصرة الحق تھا چنانچہ حضرت نے دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں تحریر فرمایا کہ ’’اس حصہ پنجم کے وقت جو نصرت حق ظہور میں آئی ضرور تھا کہ بطور شکر گزاری اس کا ذکر کیا جاتا سو اس امر کے اظہار کے لئے میں براہین احمدیہ حصہ پنجم کے لکھنے کے وقت جس کو در حقیقت اس کتاب کا نیا جنم کہنا چاہئے اس حصہ کا نام نصرة الحق بھی رکھ دیا تھا۔وہ نام ہمیشہ کے لئے اس بات کا نشان ہو کہ باوجود صدہا عوایق اور ذرائع کے محض خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد نے اس حصہ کو خلعت وجود بخشا۔چنانچہ اس حصہ کے ٹائیٹل ورق کے ہر صفحہ کے سرپر نصرةالحق لکھا گیا۔مگر پھر اس خیال سے کہ تایا د دلایا جائے کہ وہی براہین احمدیہ ہے جس کے پہلے چار حصہ طبع ہو چکے ہیں بعد اس کے ہر صفحہ پر براہین احمدیہ کا حصہ پنجم لکھا گیا۔‘‘’’پہلے پچاس حصہ لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا ۔‘‘(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۷،روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۹،۸)
اس صفحہ میں وجہ التوا بھی بیان کی ہے کہ التوا اس لئے رہا کہ براہین کی مندرجہ پیشگوئیاں پوری ہو جاویں بہر حال یہ کتابیں ظاہر کرتی ہیں کہ آپ ایک بار مسودہ لکھ کر رکھ نہیں لیتے تھے ہاں یہ طریق تھا کہ بعض اوقات کوئی مضمون قلب پر گزرا اس کو نوٹ کر کے رکھ لیا۔براہین احمدیہ پنجم کا متن صرف ۵۶صفحات تک لکھا گیا۔لیکن اس کے ضمیمے ۲۲۵ صفحہ تک چلے گئے۔اور خاتمہ میں صرف مقاصد اور خاتمہ کی ترتیب کی تفصیل لکھی جا سکی۔غرض آپ کا طریق عمل یہی تھا۔ بَااِین اگر براہین احمدیہ کا مسودہ مکمل آپ علیہ السلام نے پہلے لکھ دیا جو بعد میں کسی وجہ سے جل گیا تو اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں۔
حواشی کے متعلق حضرت اقدسؑ کا صاف ارشاد موجود ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً ایام طباعت میں لکھے جائیں گے جیسا کہ آپ علیہ السلام نے اعلان مندرجہ ٹائیٹل براہین احمدیہ جلد اول ۱۸۸۰ء مطبوعہ سفیر ہند میں لکھا ہے کہ’’کتاب ہذا بڑی مبسوط کتاب ہے یہاں تک کہ جس کی ضخامت سو جزو سے کچھ زیادہ ہوگی اور تا اختتام وقتاً فوقتاً حواشی لکھنے سے اَور بھی بڑھ جائے گی۔‘‘
اس اقتباس سے جو خود حضور علیہ السلام کے اعلان سے لیا گیا ہے معلوم ہوتاہے کہ حواشی بعد میں لکھے جاتے تھے لیکن اس میں بھی اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ مستقل حواشی آپ علیہ السلام ساتھ ہی لکھ دیتے تھے۔چھوٹے چھوٹے نوٹ یا حاشیہ کا آپ علیہ السلام آخری پروف تک اضافہ کرتے رہتے تھے۔براہین احمدیہ کی طباعت سے صاف ظاہر ہے کہ وہ حواشی تصنیف کے وقت ہی لکھے گئے تھے۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ مسودہ صاف کرنے کے وقت لکھے گئے ہوں اس لئے کہ حواشی کا مضمون اس قدر مسلسل اور مربوط اور طویل ہے کہ وہ بجائے خود ایک مستقل تصنیف ہے اس لئے میری تحقیق یہی ہے کہ جب براہین کا مسودہ کاتب کو دیا گیا تو وہ اسی صورت میں دیا گیا۔اس میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہو سکتا کہ متن پہلے لکھ دیا ہو اور حواشی کو صاف کرتے وقت ساتھ اضافہ کر دیا گیا۔
اسی سلسلہ میں ایک اَور امر بھی میں پیش کر دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ براہین احمدیہ کے اندر بعض واقعات کی تاریخیں دی ہوئی ہیں یا یوں کہو کہ بعض امور بقید تاریخ بیان کیے گئے ہیں اس سے لازماً ہم کو یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ وہ مقام جہاں کسی واقعہ کو تاریخ کے ساتھ بیان کیا ہے اس تاریخ سے پہلے نہیں لکھا گیا۔میں مثال کے طور پر چند مقامات کا حوالہ دے دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ اول براہین احمدیہ حصہ سوم کے صفحہ ۲۳۸بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱میں لکھتے ہیں کہ ’’اس الہام کی مثالیں ہمارے پاس بہت ہیں لیکن وہ جو ابھی اس حاشیہ کی تحریر کے وقت یعنی ۱۸۸۲ء میں ہوا ہے۔جس میں یہ امر غیبی بطور پیشینگوئی ظاہر کیاگیا ہے کہ اس اشتہاری کتاب کے ذریعہ سے اور اس کے مضامین پر مطلع ہونے سے انجام کار مخالفین کو شکست فاش آئے گی۔الخ۔‘‘
یہ حاشیہ در حاشیہ صفحہ ۲۱۷سے صفحہ ۲۶۷ تک چلا گیا ہے۔کم از کم اس مقام کی تحریر کی تاریخ مہینے کے لحاظ سے مارچ ۱۸۸۲ء ہے۔
دوم حاشیہ در حاشیہ نمبر۲میں اس حصہ کے صفحہ ۲۶۸پر نور افشان ۳؍مارچ ۱۸۸۲ء کے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے اس سے یہ ظاہر ہے کہ بہرحال یہ تحریر ۳؍مارچ ۱۸۸۲ء کے یقیناً بعد کی ہے یہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۲صفحہ ۳۰۶تک چلا گیا ہے۔
سوم صفحہ ۳۴۹ حاشیہ نمبر ۱۱میں پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کے اخبار دھرم جیون جنوری ۱۸۸۳ء میں شائع کردہ اعتراضات کا جواب دیا ہے اور یہ حاشیہ نمبر ۱۱حصہ سوم کے شروع سے ہی شروع ہو جاتاہے(صفحہ ۱۴۶حصہ سوم )اور حصہ چہارم کے اخیر تک برابر چلا جاتا ہے۔کم از کم یہ ضرور اس سے پایا جاتا ہے کہ یہ صفحہ ۳۴۹جنوری ۱۸۸۳ء کے بعد لکھا گیا ہے۔
چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳صفحہ ۴۷۵ پر یکم اپریل ۱۸۸۳ء کا ایک واقعہ درج ہے۔غرض اس طرح پر متعدد مقامات پر بعض تاریخوں کے حوالے آتے ہیں ان سب پر بہ ہیئت مجموعی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۷۹ء میں یہ سب مسودہ تیار نہ تھا۔
بالآخر اس امر کے متعلق میں پھر صراحت کر دینا چاہتا ہوں کہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی تحقیقات کو غلط نہیں ٹھہراتا۔میں نے جو کچھ بیان کیا ہے اسے اپنی تحقیقات کے رنگ میں لکھا ہے بظاہر ایک شخص کو اس میں اختلاف نظر آئے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کی گنجائش نہیں آسان تاویل یہ ہے کہ متن آپ علیہ السلام نے لکھ لیا اور جب مسودہ مبیضہ ہو کر کاتب کے سپرد ہو نے لگا تو حواشی کا اضافہ جو بجائے خود ایک مستقل مضمون ہے لکھاگیا۔اس تصریح کے بعد دونوں تحقیقاتیں بجائے خود درست ہیں۔اسی سلسلہ میں اتنا اور ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ میں نے مکرمی صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب مصنف قاعدہ یسّرنا القرآن سے حضرت اقدس علیہ السلام کے طریق عمل کے متعلق دریافت کیا اس لیے کہ وہ سالہا سال تک حضرت علیہ السلام کے خوشنویس رہے پیر صاحب نے میرے استفسار کے جواب میں نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ منشی کرم علی صاحب کاتب کی تائید و تصدیق سے لکھا ہے کہ حضرت اقدس کا یہ طریق ہرگز نہ تھا کہ وہ کتاب کا مسودہ تیار کر کے رکھیں بلکہ ساتھ ساتھ تحریر فرماتے تھے۔(مفہوم خط پیر صاحب)۔ ‘‘(حیات احمدجلددوم صفحہ۳۰-۳۴)
خاکسار عاجز نے اس پہلو سے ان سب بزرگان کی تحقیقات اورتصنیفات کامطالعہ کیا۔ اللہ تعالیٰ جزا دے اوران کی روحوں پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے کہ اپنی عمریں حضرت اقدسؑ کے عشق اورمحبت میں فنا کرتے ہوئے ان بزرگان نے زبردست علمی اورتاریخی تحقیقات پر مبنی تصنیفات فرمائی ہیں۔بعدمیں آنے والا کوئی مؤرخ اورمصنف ان کی تصنیفات سے منہ نہیں موڑسکتا……
؎ اے خدا برتُربتِ او ابرِ رحمت ہا ببار
قبل اس کے کہ خاکساراس پرمزیدکچھ لکھے۔حضرت عرفانی صاحب ؓ نے مسودہ نامکمل ہونے کے بارہ میں جوسب سے اہم دلیل دی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت اقدسؑ کاطرزتصنیف یہ تھا کہ مسودہ ساتھ ساتھ لکھاکرتےتھے۔سو ثابت ہواکہ براہین احمدیہ کامسودہ بھی ساتھ ساتھ ہی لکھاجاتاہوگا۔ (باقی آئندہ)