اداریہ: مَیں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر (۱۳۵؍ سال قبل جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد اور تکمیلِ اشاعتِ دین کی بنیاد)
جماعتِ احمدیہ ایک الٰہی جماعت ہے اور اس کی تمام روایات اسلامی اقدار کی آئینہ دار ہیں۔ جیسا کہ اسلام کا ہر حکم اور اس کی طرف سے سکھایا جانے والا ہر طرزِعمل اپنے اندر ایک اعلیٰ مقصد رکھتا ہے اسی طرح جماعتِ احمدیہ جو بھی دن مناتی ہے اس میں گہری حکمت کارفرما نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۳؍ فروری کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، ۱۲؍ جنوری کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ۱۵؍ ستمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے یومِ پیدائش نہیں منائے جاتے البتہ ۲۳؍ مارچ کو یومِ مسیح موعودؑ، ۲۰؍ فروری کو یومِ مصلح موعودؓ اور ۲۷؍ مئی کو یومِ خلافت بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منائے جاتے ہیں اور ان ایام کی مناسبت سے احبابِ جماعت ایک دوسرے کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہیں۔
آج یومِ مسیح موعود ہے۔ آج سے ٹھیک ۱۳۵؍ سال قبل اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کی امت کے بارے میں جو عظیم الشان وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوا اور تکمیلِ اشاعتِ اسلام کے دَور کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر حضرت مسیح موعودؑ نے اعلان فرمایا:
مَیں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
مَیں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار
آج کے دن جہاں احمدی احباب جماعت احمدیہ مسلمہ کے قیام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقاصد کا اعادہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا عہد کریں گے وہاں اس بات کا شکر بھی ادا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں محض اپنے فضل سے مسیح محمدیؐ اور اُس کے بعد قائم ہونے والی خلافت کو قبول کرنے اور اس کے سایۂ عاطفت میں آنے کی توفیق عطا فرمائی۔ امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے سات اغراض و مقاصد اور اس ضمن میں احبابِ جماعت کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا جہاں خوشی اور شکر کا مقام ہے وہاں ہماری ذمہ داریاں بھی بڑھاتا ہے۔ پس ہمیں ان ذمہ داریوں کی پہچان اور ان کی ادائیگیوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہماری ذمہ داریاں ان کاموں کو آگے چلانا ہے جن کی ادائیگی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے۔ تبھی ہم ان لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر نئی زمین اور نیا آسمان بنانے والوں میں شامل ہونا تھا۔ پس ان ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف ہی دیکھنا ہو گا کہ آپ کی بعثت کے مقاصد کیا تھے اور ہم نے ان کو کس حد تک سمجھا ہے اور اپنے پر لاگو کیا ہے۔ اور ان کو آگے پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے یا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور‘‘دوسری بات کہ ’’سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور‘‘۔ پھر یہ کہ ’’دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کردوں۔ چوتھی بات یہ ’’اور روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلاؤں اور‘‘۔ پھر یہ کہ ’’خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ، نہ محض قال سے ان کی کیفیت بیان کروں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک شرک کی آمیزش سے خالی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوّت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے‘‘۔
پس اس اقتباس میں سات بنیادی اور اہم باتیں بیان کی گئی ہیں جو اس زمانے کی ضرورت ہے جس کا خلاصۃً اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا ہے۔ اور جب آپؑ نے یہ فرمایا کہ اس کام کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ کے ماننے والے ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کر کے اسلام کی خوبصورتی اور اس کے زندہ مذہب ہونے کو دنیا کو دکھائیں۔ پس ہمارا پہلا اور سب سے بڑا فرض جو بنتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھیں اور اسے مضبوط کریں۔ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے دین سے تعلق اور محبت اور اخلاص میں بڑھیں۔ دنیا کو بتائیں کہ مسیح موعود کی آمد کے ساتھ مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ ایک مقصد ہے۔ اور اب دنیا کو امّت واحدہ بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ غلامِ صادق ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کے لباس میں بھیجا۔ آپؑ کے مشن کے مطابق اسلام کی خوبصورت تعلیم اور اس کی سچائی ہم نے دنیا پر واضح کرنی ہے اور اس کے لئے ہمیں اپنے عملوں کو بھی نمونہ بنانا ہو گا۔ روحانیت میں بڑھنے کے نمونے بھی ہمیں قائم کرنے ہوں گے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو دُور کرنا ہو گا۔ دنیا کو دکھانا ہو گا کہ وہ خدا آج بھی اُسی طرح دعاؤں کو سنتا ہے اور اپنے خالص بندوں کو، اپنے فرستادوں کو جواب بھی دیتا ہے جس طرح پہلے دیتا تھا۔ اپنے خالص بندوں کے دلوں کی تسلی کے سامان بھی کرتا ہے۔ دنیا کو ہم نے بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد و یگانہ ہے۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے، ختم ہونے والی ہے۔ صرف اُسی کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ پس ہماری بقا اس واحد و یگانہ اور ہمیشہ رہنے والے خدا سے جڑنے میں ہی ہے۔
جب ۲۳؍مارچ کو ہم یوم مسیح موعود مناتے ہیں تو ہمیں ان باتوں کے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ یہ باتیں حضرت مسیح موعود دنیا میں پیدا کرنے آئے تھے اور ہم جو آپ کے ماننے والے ہیں کیا ہم میں یہ باتیں پیدا ہو گئی ہیں یا کیا ہم اس انقلاب کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں!‘‘(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ ۲۵؍مارچ ۲۰۱۶ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضورِ انور کے ارشاد کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے اپنے اندرروحانی انقلاب برپا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو دنیا میں پُرامن اور دلوں کو فتح کرنے والے یعنی حقیقی اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ بنے۔ آمین