1894ء کے گرہن، رسول اللہﷺ کی عظیم الشان پیشگوئی کے مصداق
(اولین تاریخ اشاعت: الفضل ۳؍جولائی ۲۰۲۰ء)
سورج کو گرہن لگنا ایک قدرتی قانون ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی ملتا ہے:
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ
جب سورج کو ڈھانپ لیا جائے گا
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں جس دن (آپ کے صاحب زادے) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو سورج گرہن لگا۔ لوگوں نے کہا: ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللّٰہ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَّلَا لِحَيَاتِهِ۔ فَإِذَا رَأْيْتُمُوْهَا فَافْزَعُوْا لِلصَّلَوٰةِ۔(صحیح مسلم کتاب الکسوف)
’’بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کے مرنے جینے سے ان کو گرہن نہیں لگتا پس جب تم ان نشانیوں کو دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘
قانون قدرت میں سورج گرہن یا چاند گرہن دیگرآسمانی نشانوں مثلاً شہب ثاقبہ وغیرہ کی طرح انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اور ان سماوی نشانات پر خداتعالیٰ کے علاوہ کسی کو کچھ قدرت نہیں۔ البتہ خداتعالیٰ بسا اوقات اپنے روحانی قانون کی بالادستی اوراپنے مقربین کی صداقت کے ثبوت میں ان آسمانی نشانوں کو بطوردلیل بھی پیش کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اس بابت بھی واضح ذکر ملتا ہے کہ کفار آسمانی نشان کا مطالبہ کرتے تھے۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ یہ آسمانی نشان کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔
کچھ اسی قسم کے نشان کا وعدہ اللہ کے اس نبی آخر الزمان وخاتم النبیینﷺ نے بھی فرمایا تھا اور اپنےمہدی کی آمد کے ساتھ مشروط قراردیا تھا۔ بلکہ خدا کے اس فرستادے نے تو اس مہدی کو ’’ہمارا مہدی‘‘ کہہ کر پکارا۔ چنانچہ اس پیشگوئی میں چاند اورسورج کو رمضان کے مہینہ میں گرہن لگنے کا ذکر تھا کہ چاند کو رمضان کی اول راتوں میں گرہن لگے گا جبکہ سورج کو اس کے کچھ دن بعد رمضان کے آخری ایام میں۔
قارئین! رسول کریمﷺ کی اس پیشگوئی کے موافق بعینہ اسی طرح 1894ء کے رمضان میں اس پیشگوئی کا ظہور ہوا۔ چنانچہ 1894ء کا رمضان 9 مارچ سے شروع ہوا اور 7؍اپریل کو اختتام پذیر ہوا۔ پیشگوئی کے مطابق مؤرخہ 21 مارچ 1894ء (13 رمضان المبارک 1311ھ) کو چاند کو گرہن لگا۔ جبکہ اسی رمضان کی 28 ویں تاریخ یعنی 6؍اپریل 1894ء کو سورج گرہن لگا۔
اس پیشگوئی کے ظہور کے وقت جبکہ ہر صاحب علم کومعلوم تھا کہ یہ نشان صرف امام مہدی سے مختص کیا گیا، لوگوں کی کیا کیفیت تھی اس بابت مولانا اعظم اکسیر صاحب (مرحوم) نے انتہائی خوبصورت انداز میں یوں روشنی ڈالی ہے:
’’چودہ صدیوں کے دوران اس نشان آسمانی کو دیکھنے کی تمنا پرورش پاتی رہی۔آخر 1894ء بمطابق 1311ھ کے ماہ رمضان کی 13کو چاند گرہن لگا۔چاند گرہن لگنے کے بعد نظریں آسمان کی طرف اٹھ رہی تھیں۔اب سورج کو بھی اس پیشگوئی کے مطابق گرہن لگے گا۔قادیان کے افق پراس نشان کی تکمیل دیکھنے کے لیے روحیں مضطرب تھیں۔ مدعی مہدویت حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور آپ کے رفقاء مصروف دعا تھے اور ظہور نشان کے منتظر۔یہ روح پرور فضا اتنی دلکش تھی کہ دور دور سے پروانوں کو کھینچ رہی تھی۔اس بے مثال جذب و کشش کی ایک ایمان افروز داستان ریاست ٹونک کے وزیر اعظم مرزا عبدالرحیم کی اولاد میں سے دو بھائیوں اور ان کے ایک دوست کی ہے۔بھائیوں میں سے مرزا ایوب بیگ صاحب چیفس کالج لاہور میں سائنس کے استاد تھے۔ان کے بھائی مرزا یعقوب بیگ صاحب میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ۔جبکہ مرزا ایوب بیگ صاحب کے ایک محلہ دار اور ہم جماعت مولوی عبد العلی صاحب آف کلانور ان کے ساتھی تھے۔‘‘
(قادیان سےسورج گرہن کا نظارہ از اعظم اکسیر /روزنامہ الفضل ربوہ مؤرخہ 18 جنوری 1994ء )
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ خود اپنا واقعہ اور جستجو کا احوال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
”رمضان کے مہینے میں چاند اور سُورج کو گرہن لگنے کی پیشگوئی دار قطنی وغیرہ احادیث میں بطور علامت مہدی بیان ہوئی ہے۔ مارچ 1894ء میں پہلے چاند ماہ رمضان میں گہنایا۔ جب اسی رمضان میں سورج کو گرہن لگنے کے دن قریب آئے تو دونوں بھائی اس ارادہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ یہ نشان دیکھیں، اور کسوف کی نماز ادا کریں۔ ہفتہ کی شام کو لاہور سے روانہ ہوکر قریباً گیارہ بجے رات بٹالہ پہنچے۔ اگلے دن علی الصبح (06؍اپریل 1894ء کو) گرہن لگنا تھا۔آندھی چل رہی تھی۔ بادل گرجتے اور بجلی چمکتی تھی۔ ہوا مخالف تھی،اور مٹی آنکھوں میں پڑتی تھی۔ قدم اچھی طرح نہیں اُٹھتے تھے۔ اور راستہ صرف بجلی کے چمکنے سےنظرآتا تھا۔ ساتھ آپ کے اہل وطن دوست مولوی عبدالعلی صاحب بھی تھے۔سب نے ارادہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو راتوں رات قادیان پہنچنا ہے۔ چنانچہ تینوں نے راستہ میں کھڑے ہوکر نہایت تضرع سے دعا کی کہ اے اللہ جو زمین و آسمان کا قادر مطلق خدا ہے! ہم تیرے عاجز بندے ہیں،تیرے مسیحؑ کی زیارت کے لیے جاتے ہیں،اور ہم پیدل سفر کررہے ہیں،سردی ہے، تو ہی ہم پر رحم فرما،ہمارے لیے راستہ آسا ن کردے،اوراس بادِ مخالف کو دور کر! ابھی آخری لفظ دعا کا منہ میں ہی تھا کہ ہوا نے رُخ بدلا اور بجائے سامنے کے پشت کی طرف چلنے لگی اور ممد سفر بن گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہوا میں اڑے جارہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں نہر پر پہنچ گئے۔ اس جگہ کچھ بوندا باندی شروع ہوئی۔ نہر کے پاس ایک کوٹھا تھا اس میں داخل ہوگئے۔ ان ایام میں گورداسپور کے ضلع کی اکثر سڑکوں پر ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی تھیں۔ دیا سلائی جلا کر دیکھا تو کوٹھا خالی تھا، اور اس میں دو اُپلے اور ایک موٹی اینٹ پڑی تھی۔ ہر ایک نے ایک ایک سرہانے رکھی اور زمین پر سو گئے۔ کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو ستارے نکلے ہوئے تھے اور آسمان صاف تھا،اور بادل اور آندھی کا نام و نشان نہ تھا۔ چنانچہ پھر روانہ ہوئے اور سحری حضرتؑ کے دستر خوان پر کھائی۔‘‘
(اصحاب احمد ازملک صلاح الدین ایم اےجلد1صفحہ92)
قادیان میں سورج گرہن کا نظارہ اور نماز کسوف کی ادائیگی
سنت نبویﷺ کے مطابق نماز کسوف کا اہتمام ہوا۔ حضرت مہدی موعودؑ کے ارشاد پر یہ اہتمام مسجدمبارک کی چھت پر کیا گیا۔مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے نماز پڑھائی تھی۔ اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رو رہے تھے۔
(سیرت المہدی روایت نمبر 1042/از نواب محمد علی خان صاحب)
(گرہن کے نظارہ کے وقت) کئی دوستوں نے شیشے پر سیاہی لگائی ہوئی تھی جس میں سے وہ گرہن دیکھنے میں مشغول تھے۔ ابھی خفیف سی سیاہی شیشے پر شروع ہوئی تھی کہ حضرت مہدی موعودؑ کو کسی نے بتایا کہ سورج گرہن لگ گیا ہے۔
آپؑ نے اس شیشے میں دیکھا تو نہایت خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی۔ حضور نے اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ اس گرہن کو ہم نے تو دیکھ لیا ہے مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائے گا۔ اور اس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہو جائے گا! حضور نے کئی مرتبہ اس تأسف کا اظہار کیا۔
اللہ اللہ! خدا کے پیاروں کو کس قدر دوسروں کے ایمان کی فکر ہوتی ہے۔ایک طرف آسمانی نشان کی تصدیق فرما رہے ہیں دوسری طرف اس کے خفیف ہونے کے باعث لوگوں کے ایمان کی فکر!! اسی کیفیت قلبی کے سبب آپ دعائیں کیا کرتے۔
وہ لگا دے آگ میرے دل میں ملت کے لیے
شعلے پہنچیں جس کے ہر دم آسماں تک بیشمار
ایک طرف مہدی موعودؑکی توجہ نشان کو خفیف دیکھ کر دعا کی طرف مبذول ہو رہی تھی،دوسری طرف آسمانی آقا کی نظر اپنے پیارے کے دل پر تھی۔ اچانک وہ خفیف سا نشان بڑھنا شروع ہوگیا۔ حتیٰ کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہوگیا۔ اس پر حضور نے فرمایا:
’’ ہم نے آج خواب میں پیاز دیکھا تھا۔ اس کی تعبیر غم ہوتی ہے۔سو شروع میں سیاہی کے خفیف رہنے سے ظہور میں آیا۔‘‘
(قادیان سےسورج گرہن کا نظارہ از اعظم اکسیر/روزنامہ الفضل ربوہ مؤرخہ 18 جنوری 1994ء )
موعود خسوف وکسوف پر غیروں کی آراء
قارئین! اس پیشگوئی کے پورا ہوجانے کے بعد جہاں کئی سعید روحوں کو آغوش احمدیت میں آنے کی توفیق ملی وہیں مسلمان علماء اور مشائخ نے حسب سابق ، اپنی عادت کے موافق اس سماوی نشان کا بھی انکار کردیا اوراس کو مختلف زاویوں سے باطل ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی۔ بعض اخبارات نے بھی اسی کیفیت کا اظہار کیا۔ چنانچہ سراج الاخبار جہلم 30؍اپریل 1894ء کی اشاعت میں بعنوان ’’رمضان 1311ھ کے خسوف وکسوف کی نسبت اسلامی خیالات‘‘ کے تحت ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت کرتا ہے جس کا کچھ حصہ شامل کیا جاتا ہے:
’’اس میں کچھ شک نہیں کہ ابتدائے اسلام سے قیامت آنے سے پہلے امام مہدی کے مبعوث ہونے کی خبر صحیح احادیث میں بکثرت دی گئی ہے۔ جس کے ظہور کے لیے منجملہ دیگر بہت سی علامات کے ایک بڑی علامت یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ ماہ رمضان کے ایک ہی مہینہ میں چاند وسورج دونوں کو گرہن ہوگا۔ چونکہ اس سال کے ماہ رمضان کی تیرہویں رات کو چاند گرہن اور28ویں کو سورج گرہن ہوا ہے اس لیے اکثرمسلمانوں کے خیالات اس پیشگوئی کی طرف رجوع ہوئے ہیں جن میں سے بعض جلد باز صاحب تو جن کوخث وسمین اورکھرے کھوٹے کی کچھ تمیز نہیں ہے بلا سوچے سمجھے یہی یقین کر بیٹھے ہیں کہ یہ خسوف وکسوف سچ مچ وہی ہیں جن کے امام مہدی کے ظہور کی علامت میں بطور پیشگوئی خبر دی گئی ہے۔اور انہوں نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ محض سادہ لوحی سے اپنے زعم باطل اور گمان فاسدہ میں مرزا صاحب قادیانی کو امام مہدی بھی تسلیم کرلیا ہے۔ لیکن اکثرصاحب بصیرت اور وسیع معلومات کے طبقہ کے لوگ جن کو کتب احادیث اور رسائل آثارمحشر وغیرہ سے اکثرمشاغلت ومدارست رہتی ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ خسوف وکسوف نہیں جو امام مہدی کے ظہور کی علامت ہیں۔ چنانچہ پیسہ اخبار لاہور مطبوعہ 23 مارچ 1894ء میں ایک صاحب عتیق اللہ نامی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ یہ گرہن تین وجہ سے وہ گرہن نہیں جو امام مہدی کے ظہور کی علامات ہیں۔ اوّل یہ کہ یہ دونوں گرہن صرف آسٹریلیا، چین، اور ہندوستان میں محسوس ہوئے ہیں۔عرب، روم، شام، ایران، افغانستان، افریقہ،امریکہ، یورپ وغیرہ میں نظر نہیں آیا۔ حالانکہ موعود گرہن کل روئے زمین پر نظر آنا چاہیے تھا۔ دوم وہ گرہن غیرمعمولی تاریخوں میں واقع ہوں گے۔ اور حال کے گرہن معمولی تواریخ یعنی 13ویں اور 28 ویں تاریخ کو ہوئے ہیں۔ سوم اگرچہ اس وقت تک ظہور امام مہدی سے پہلے اکثر علامات صغریٰ کامل طورپرظاہر ہوگئی ہیں مگربعض آثارعظیمہ ابھی باقی ہیں۔چنانچہ تمام عالم میں سوائے حرمین شریفین کے نصرانی عملداری ہوجانا اور سلطان روم کا نصاریٰ کے ہاتھ مشروط طور پر شہید ہونا اورملک شام پر نصرانی قبضہ ہونا، مسلمانوں کا کمال مغلوب ومظلوم ہوجانا، قحط سالی اور ظلم وجورکا پیدا ہونا کہ کہیں پتہ نہ ملا۔ اگرچہ ان سب کی ابتداء ہے مگر ان توجیہوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی وہ زمانہ نہیں آیا۔ اور نہیں معلوم کہ اسوقت تک زمانہ میں کتنے انقلاب ہوں اور کتنی حکومتیں بدلیں‘‘
جہاں تک اس گرہن پر اس اعتراض کا تعلق ہے کہ یہ عالمی گرہن کیوں نہ تھا، تو سائنسی تحقیقات کی رو سے کوئی بھی گرہن ٹائم زونز کی قید کی وجہ سے عالمی نہیں ہوسکتا۔ البتہ ایک سے زیادہ ممالک میں ضرور دیکھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ موجودہ ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 1894ء کا یہ گرہن تقریباً 35 سے زائد ممالک میں دیکھا گیا تھا۔ موجودہ علاقائی تقسیم کے لحاظ سے جن ممالک میں یہ دیکھا گیا تھا ان کے نام یہ ہیں:
افغانستان، آرمینیا، آذربائیجان، بحرین، بنگلہ دیش، بیلاروس، بھوٹان، برونائی، کمبوڈیا، چائنہ، ایسٹونیا، فن لینڈ، جارجیا، انڈونیشیا، ایران، عراق، جاپان، قازقستان، جنوبی کوریا، شمالی کوریا، کویت، قرغزستان، ملائیشیا، منگولیا، میانمار، نیپال، ناروے، عمان، ،فلپائن، قطر، روس، سعودی عرب، سنگاپور، سری لنکا، سویڈن، شام، تائیوان، تاجکستان، تھائی لینڈ، ترکی، عرب امارات، امریکہ، ازبکستان (تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ ہو )
اس گرہن کے اگلے سال یعنی 1895ء میں مارچ کے مہینہ میں 11 مارچ اور 26 مارچ کو یہی گرہن دوبارہ بھی لگے تھے۔ البتہ اس دفعہ ان کو مشرق کی نسبت مغربی ممالک بالخصوص امریکہ وغیرہ میں زیادہ دیکھا گیا تھا۔ اور قادیان سے یہ نظر نہیں آسکے تھے۔ جن ممالک میں یہ گرہن دیکھا گیا وہ یہ ہیں: کینیڈا، فرانس، گرین لینڈ، آئس لینڈ، آئر لینڈ، ناروے، پرتگال، سپین اور برطانیہ وغیرہ (تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ ہو )
البتہ یہ امر قابل غور ہے کہ ان دونوں تاریخوں میں اگرچہ یہ قادیان سے نظر تو نہیں آرہے تھے مگر رمضان کی تاریخیں 13 رمضان 1312ھ اور28رمضان 1312ھ تھی۔ اور اس دوسرے گرہن سے اس حدیث کے الفاظ بھی پورے ہوتے ہیں جس میں یہ اشارہ ہے کہ سورج کو 2 دفعہ رمضان میں گرہن لگے گا۔چنانچہ اسی کی تفصیل حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خود اپنے الفاظ میں حقیقة الوحی صفحہ 202 پر بیان فرمائی ہے۔
اسی طرح پیسہ اخبار کی 23 مارچ 1894ء کی اشاعت میں کسوف سے متعلق آرٹیکل کے چھپنے کے بعد مسلسل کئی شماروں میں اسی موضوع پر بحث چلتی ہے کہ آیا یہ وہی موعود کسوف وخسوف ہے یا کوئی اور۔ چنانچہ پیسہ اخبار18 مئی 1894ء کو بھی ایک اور مضمون بنام ’’معمولی خسوف وکسوف رمضانی اور دس پندرہ روپیہ کا انعام‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ البتہ کسی ایک مضمون میں بھی مہدی کے ظہور کے بارے میں حتمی طور پر نہ تو کسی لکھنے والے نے لکھا، البتہ اعتراض ضرور کیا کہ یہ گرہن موعود گرہن نہ تھا۔
سراج الاخبار 28 مئی 1894ء کی ایک اور اشاعت میں اسی خسوف کی بابت ایک طویل مضمون بنام ’’مہدی آخرالزمان اور رمضان1311ھ کا خسوف وکسوف‘‘ کے آخر میں لکھا ہے:
’’لہٰذا اس رمضان مبارک کا کسوف وخسوف حضرت امام علیہ السلا م کے ظہور کی علامت نہیں۔ اب رہا یہ امر کہ کب ظہور ہوگا اس کا یہ جواب ہے کہ حضرت امام کے ظہور کے واسطے کوئی سن شارع علیہ السلام نے مقرر نہیں فرمایا۔اورجوکچھ علماء محققین کی تحقیق ہے اس سے یہی ثابت ہے کہ جب تک قسطنطنیہ اور بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں نہیں تب تک آپ کا ظہورنہیں ہوگا۔ راقم ایک محقق‘‘۔
حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:
’’1894ء میں جب سورج گرہن اور چاند گرہن ہوا۔ اس وقت میں لاہور میں مولوی حافظ عبدالمنان صاحب سے ترمذی شریف پڑھتا تھا۔ علماء کی پریشانی اورگھبراہٹ نے میرے دل پر اثر کیا۔گو علماء لوگوں کو طفل تسلیاں دے رہے تھے۔مگر دل میں سخت خائف تھے کہ اس سچے نشان کی وجہ سے لوگوں کا بڑی تیزی سے حضرت اقد س کی طرف رجوع ہوگا۔ ان دنوں حافظ محمدصاحب لکھوکے والے پتھری کا آپریشن کروانے کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے۔میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان سے جب عوام نے دریافت کیا کہ یہ نشان آپ نے اپنی کتاب ’’احوال الآخرہ‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے۔ اور مدعی (حضرت مرزا صاحب) بھی موجود ہیں اوراس نشان کو اپنا مؤید قرار دے رہے ہیں۔ آپ اس بارہ میں کیا مسلک اختیارفرماتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں بیماراور سخت کمزور ہوں صحت کی درستی کے بعد کچھ کہہ سکوں گا۔ البتہ اپنے لڑکے عبدالرحمٰن محی الدین کو حضرت مرزا صاحب کی مخالفت سے روکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے رازعجیب ہوتے ہیں لیکن وہ زندہ نہ رہ سکے۔ اور جلد ہی راہی ملک عدم ہوگئے۔ ان باتوں سے گو میرادل حضرت اقدس کی سچائی کے بارہ میں مطمئن ہوچکا تھا۔ لیکن علم حدیث کی تکمیل کی خاطرامرتسر چلا گیا۔اور وہاں دوتین سال رہ کر دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کرکے میں دارالامان میں حاضر ہو کر حضرت اقدس ؑکی بیعت سے مشرف ہوا۔‘‘
(اصحاب احمد از ملک صلاح الدین جلد10 صفحہ178 روایت حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ)
اس گرہن کی نوعیت کیا تھی؟
اس بابت مکرم حافظ صالح محمد الہ دین صاحب اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں:
’’گرہنوں کے اقسام ہوتے ہیں بعض گرہن خفیف ہوتے ہیں اوربعض نمایاں ہوتے ہیں۔
Professor J.A.Mitchell نے اپنی کتاب
Eclipses of the sun (Columbia University New York , 5th Ed 1951))
کے صفحہ 53 میں سورج گرہن کی 4 اقسام کا ذکر کیا ہے:
Partial
Partial گرہن میں سورج کا کچھ حصہ تاریک ہوتا ہے۔
Annular
Annularگرہن میں سورج کا درمیانی حصہ تاریک ہوتا ہے لیکن اطراف کا حصہ تاریک نہیں ہوتا۔
Annular-Total
Annular-Totalگرہن میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے Annular اورTotalکے درمیان کی قسم ہے۔ یہ تیسری قسم کا گرہن سب سے زیادہ نایاب ہے۔
Total
Totalگرہن میں سورج تمام کا تمام تاریک ہوجاتا ہے۔
Professor Mitchell نے ماضی کے گرہنوں کا جائزہ لینے سے یہ استنباط کیا ہے کہ اوسط صدی میں 237 سورج گرہن ہوئے جن میں سے صرف 10 ہزار اس تیسری قسم کے تھے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ (مذکورہ بالا) 28؍رمضان المبارک 1311ھ کا گرہن اس تیسری قسم کا تھا اس لیے وہ عام سورج گرہن سے مختلف تھا۔‘‘
(امام مہدی کی صداقت کے دو عظیم الشان نشان چانداورسورج گرہن صفحہ 17، 18)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا اظہار
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب نورالحق حصہ دوم میں اس کسوف وخسوف کے نشان کی بابت تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ آپؑ نے فرمایا:
الیومَ یومٌ فیہ حصحصَ صدقُنا
قد مات کلُّ مکذِّبٍ فتّانِ
آج وہ دن ہے جس میں ہمارا صدق ظاہر ہوگیا اور ہر ایک مکذب فتنہ انگیز مر گیا
الیومَ یبکی کلُّ أہل بصیرۃٍ
متذکِّرًا لمراحم الرحمٰنِ
آج ہریک اہل بصیرت رو رہا ہے اور رونے کا سبب خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو یاد کرنا ہے
ومصدِّقًا أنوارَ نبأ نبیِّنا
ومعظِّمًا لمواہب المنّانِ
اور دوسرے یہ سبب کہ رونے والے آنحضرت صلعم کی پیشگوئی کی تصدیق کرتے ہیں اور بخشائیش محسن حقیقی کی عظمت کا تصور کر رہے ہیں
الیوم کلُّ مبایع ذی فطنۃ
ازداد إیمانا علٰی إیمانِ
آج ہریک دانا بیعت کرنےوالا اپنے ایمان میں ایسا زیادہ ہو گیا کہ گویا نیا ایمان پایا
الیوم من عادی رأی خُسرانَہ
والتاحَ مقعدُہ من النّیرانِ
آج ہریک دشمن نے اپنا نقصان دیکھ لیا اور اس کا آگ میں ٹھکانا ہونا ظاہر ہوگیا
(نورالحق روحانی خزائن جلد 8: صفحہ 218)
حضورؑ اس نشان کو دیکھ کرنہ ماننے والوں کی بابت فرماتے ہیں:
’’یہ مولوی جب تک یہ واقع نہ ہوا تھا مہدی کی علامتوں میں بڑے زور شور سے منبروں پر چڑھ چڑھ کر اس کو بیان کرتے تھے لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے اپنے وقت پراس نشان کو ظاہر کر دیا تو میری مخالفت کے لیے یہ خدا تعالیٰ کے اس جلیل الشان نشان کی بے حرمتی کرتے ہیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک پیشگوئی کی توہین کرتے ہوئے حدیثوں کو جھوٹا قرار دیتے ہیں!!! افسوس‘‘
(ملفوظات جلد 2 صفحہ101)
پھر فرمایا: ہم تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ لوگ راہ پر آویں۔اور ہماری مخالفت کر کے تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے،کیونکہ اﷲ تعالیٰ خود اپنی تائید کر رہا ہے۔پر نالہ کا پانی تو ایک اینٹ سے بند کر سکتے ہیں،مگر آسمان کا کون بند کر سکتا ہے۔یہ خدا کے کام ہیں۔چراغ کو تو پھونک مار کر بجھادیتے ہیں۔مگر چاند سورج کو تو کوئی پھونک مار کر بجھاوے۔خدا کے کام اونچے ہیں۔انسان کی وہاں پیش رفت نہیں جاتی۔وہاں نہ غبارہ جاوے اور نہ ریل۔یہ بھی عظمتِ الٰہی ہے۔تعالیٰ شانہٗ کا مصداق ہے۔آسمانی امور اونچے ہیں۔وہ تو آگے ہی آگے جاتے ہیں۔
(ملفوظات جلد 2 صفحہ174)
ایک اور جگہ آپ ؑ نے فرمایا:
’’…ایک کسوف وخسوف کا نشان تھا۔جب تک کہ یہ کسوف وخسوف کا نشان نہیں ہوا تھا یہ مولوی جو اَب میری مخالفت کی وجہ سے رسولﷺ کی بھی تکذیب کررہے ہیں اس کی سچائی کے قائل تھے اور یہ نشان بتاتے تھے کہ مسیح ومہدی کا یہ نشان ہوگا کہ رمضان کے مہینہ میں سورج اور چاند کو گرہن ہوگا۔ لیکن جب یہ نشان میرے دعویٰ کی صداقت کی شہادت کے لیے پُورا ہو گیا تو پھر جس منہ سے اقرار کیا کرتے تھے اسی منہ سے انکار کرنے والے ٹھہرے۔کسی نے تو سرے سے اس حدیث ہی کا انکار کردیا اور کسی نے اپنی کم سمجھی اور نادانی سے یہ کہدیا کہ چاند کی پہلی تاریخ کو گرہن ہونا چاہیئے حالانکہ پہلی رات کا چاند تو خود گرہن ہی ہوتا ہے اور علاوہ بریں حدیث میں تو قمر کا لفظ ہے جو پہلی رات کے چاند پر بولا ہی نہیں جاتا۔
( ملفوظات جلد 3صفحہ83)
فرمایا: ’’سورج اور چاند کو رمضان میں گرہن لگنا کیا یہ میری اپنی طاقت میں تھا کہ مَیں اپنے وقت میں کر لیتا اور جس طرح پر آنحضرتﷺ نے اس کو سچے مہدی کا نشان قرار دیا تھا اور خدا تعالیٰ نے اس نشان کو میرے دعویٰ کے وقت پورا کر دیا اگر مَیں اس کی طرف سے نہیں تھا تو کیا خدا تعالیٰ نے خود دنیا کو گمراہ کیا ؟اس کا سوچ کر جواب دینا چاہیئے کہ میرے انکار کا اثر کہاں تک پڑتا ہے آنحضرتﷺ کی تکذیب اور پھر خدا تعالیٰ کی تکذیب لازم آتی ہے اسی طرح پر اس قدر نشانات ہیں کہ ان کی تعداد دو چار نہیں بلکہ ہزاروں لا کھو ں تک ہے تم کس کس کا انکار کرتے جاؤگے؟‘‘
(ملفوظات جلد 4صفحہ36)
سول اینڈ ملٹری گزٹ اور پائنیر اخبار میں ذکر
ہندوستان کے نامی گرامی انگریزی اخبارات سول اینڈ ملٹری گزٹ اورپائنیر اخبارنے بھی اس گرہن کی خبر شائع کی۔ چنانچہ حضورؑ نے اس خبر کےشائع ہونے کا ذکریوں فرمایا:
’’ثم کفاک فی شہادتہ ما طُبع فی الجریدتین المشہورتین المقبولتین۔ أعنی الجریدۃ الإنکلیزیۃ بانیر، وسِوِل مِلِتری کَزِت، المشاعتین فی مارج سنۃ۱۸۹۴ء والمشتہرتین فہو أن ہذا الکسوف الواقع فی ۶؍ إبریل سنۃ ۱۸۹۴ء متفرّد بطرائفہ، ولم یُرَ مثلہ من قبل فی کوائفہ، وأشکالہ عجیبۃ وأوضاعہ غریبۃ، وہو خارق للعادۃ ومخالف للمعمول والسنّۃ۔‘‘
ترجمہ: پھر تجھے اس بارہ میں وہ خبرکفایت کرتی ہے جو دو مشہور اور مقبول اخباریعنی پانیر اور سول ملٹری گزٹ میں لکھی گئی ہے اور وہ دونوں پرچے مارچ 1894ءکے مہینہ میں شائع ہوئے ہیں۔ اور ان کی گواہیوں کی تفصیل یہ ہے کہ ان دونوں پرچوں میں لکھا ہے کہ یہ کسوف اپنےعجائبات میں متفرد اور غیر معمولی ہے یعنی وہ ایک ایسا کسوف ہے جو اس کی نظیر پہلے نہیں دیکھی گئی اور اس کی شکلیں عجیب ہیں اور اس کی وضعیں غریب ہیں اور وہ خارق عادت اور مخالف معمول اور سنت ہے۔
(نورالحق حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 214)
سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اس خبر کو ان الفاظ میں شائع کیا تھا:
The eclipse was perfectly observed at Lahore yesterday between 7:30 and 9:30 A.M while it lasted the sun light was so much reduced as to remind one of the pleasant sunshine only of an English summer day.
[The Civil and Military Gazette 7 April: 1894]
حضرت مصلح موعودؓ نے اس گرہن کی بابت فرمایا:
’’سورج اور چاند کے فی الواقع اندھیرا ہو جانے اور ستاروں کے گر جانے سے تو دنیا ہی تباہ ہوجاتی ہے اور مسیحؑ کا نزول اور نیکو کاروں کا دنیا کی میراث لینا بالکل ناممکن ہوجاتا ہے۔ پس ضرور ہے کہ جس طرح آسمانی نوشتوں کا قاعدہ ہے اس پیشگوئی کے الفاظ کے نیچے کوئی اور مطلب پوشیدہ ہو اور وہ یہی ہے کہ اس زمانہ میں سورج اور چاند کو گرہن لگے گا اور آسمان سے کثرت سے شہب گریں گےکہ وہ بھی عُرف عام میں ستارے ہی کہلاتے ہیں اور مذہبی لیڈروں کا اثر اپنے مقتداؤں پر سے کم ہوجائے گا کہ مذہبی علم ادب میں آسمانی طاقتوں سے مذہبی رہنما مراد ہوتے ہیں۔
بیشک یہ علامتیں بظاہر معمولی ہوتی ہیں کیونکہ اور چاند کو تو ہمیشہ گرہن لگتا ہی ہے اور شہب بھی ہمیشہ ہی گرتے ہیں اور مذہبی رہنماؤں کا اثر بھی بارہا کم ہوچکا ہے مگر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں بہت بڑی علامتیں ہیں کیونکہ گو انجیل میں جو حضرت مسیح ؑ سے ایک لمبا زمانہ بعد لکھی گئی ہے اس پیشگوئی کی تمام تفصیل کا پتہ نہیں لگتا لیکن اسلامی روایات میں اس زمانہ کے سورج اور چاند گرہن کی نسبت ایک شرط بتائی گئی ہے جو مسیح ؑ کے زمانہ کے گرہن کو ایک خصوصیت بخشتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ گرہن چاند کے مہینوں میں سے رمضان میں لگیں گے اور چاند گرہن تو تیرہویں کو لگے گا اور سورج گرہن اٹھائیسویں کو اور یہ نشان جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے کسی مدعی رسالت کے زمانہ میں ظاہر نہیں ہوا۔ لیکن اس زمانہ میں جبکہ مسیح ؑ کی آمد کی دوسری علامات پوری ہوگئی ہیں یہ بھی پوری ہوگئی ہے اور 1894ء کے رمضان بعینہٖ اسی طرح ہوا۔یعنی تیرہویں شب کو چاند گرہن ہوا اور اٹھائیسویں کو سورج گرہن ہوا اور نہایت مکمل گرہن ہوئے جو اپنے کمال کے لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتے تھے۔‘‘
(تحفہ شہزادہ ویلز انوارالعلوم جلد6 صفحہ270-271)
گرہن دیکھنے والوں کی تعداد
اس موعود نشان کو جہاں مسیح محمدی کے متبعین نے دیکھا اور ازدیاد ایمان کا باعث ہوا وہیں کئی لاکھ دیگر غیر مسلموں نے بھی اس نشان کو دیکھا۔ چنانچہ اخبارعام اس سورج گرہن کو دیکھنے والوں کی بابت 13 اپریل 1894ءکو لکھتا ہے کہ:
’’حالیہ سورج گرہن کو دیکھنے کے لیے ایک اندازہ کے مطابق تقریبا 6 سے 8 لاکھ افراد تھانیسر میں اکٹھے ہوئے۔ البتہ ان افراد کے ساتھ محکمہ ریلوے کا سلوک انتہائی غیر مناسب رہا اور پینے کا پانی تک میسر نہ کیا جاسکا۔‘‘
اسی طرح اخبارسنگھ سہا نے امرتسر نے اپنی 22 اپریل 1894ء کی اشاعت میں لکھا کہ:
’’اس گرہن کو دیکھنے کی غرض سے تھانیسر(ہریانہ) آنے والے ہزاروں ہندوؤں کے ساتھ محکمہ ریلوے نے انتہائی ناروا سلوک برتا ہے۔‘‘
آسماں بارد نشاں الوقت میگوید زمین
ایں دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند
ماشااللہ بہت مفید ،علمی اور تحقیقی مضمون ہے۔ قدیم اخبارات کے عکس شامل کرنے سے تحریر کا حسن دوبالا ہو گیا ہے۔