ولَعَلَّکمْ تَشْکُرُوْنَ
حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرۃ آیت ۱۸۶؍ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تین احکام دیئے ہیں اور تین ہی حکمتیں بیان فرمائی ہیں تین احکام تو یہ دیئے کہ (۱) مہینہ کے روزے رکھو (۲) رمضان میں رکھو (۳) مریض اور مسافر کو ان دنوں میں رخصت ہے۔ اس کے مقابل میں تین ہی حکمتیں بیان فرمائی (۱) کہا تھا کہ ایک مہینہ کے روزے رکھو اس کے لئے فرمایا کہ اگر ہم روزے مقرر نہ کرتے تو لوگ کم و بیش رکھتے اور اس طرح وہ تعداد پوری نہ ہوتی جو روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے (۲) کہا تھا کہ رمضان میں روزے رکھو۔ اس پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ رمضان کو کیوں مقرر کیا ہے جس مہینہ میں کوئی چاہتا رکھ لیتا اس لئے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کا نزول یاد آکر خداتعالیٰ کو یاد کرنے کا جوش پیدا کرتا ہے اور اس مبارک مہینہ میں خداتعالیٰ کی عبادت اور ذکرِ الٰہی کی طرف تمہیں زیادہ توجہ پید ا ہوگئی۔ (۳) کہا تھا کہ بعض کے لئے رخصت ہے۔ اس لئے وجہ یہ بتائی کہ ان آسانیوں کو دیکھ کر خداتعالیٰ کو ہمارا کتنا خیال ہے اس نے ہمارے فائدہ کے لئے حکم دیا۔ اور اس میں بھی ہمارے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ یہ عِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مقابلہ میں فرمایا کہ یہ تخفیف اور سہولت اس لئے ہے کہ تم خداتعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اس کی محبت سے اپنے سینہ و دل کو منور کرو۔ اسی طرح لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ رمضان ہم نے اس لئے اُتارا ہے کہ تم شکر گذار بنو۔ یعنی ہر تکبیر کے بعد شکر کرو کہ خدا نے اپنی تکبیر کی توفیق دی اور پھر اس بات کا شکر کرو کہ خداتعالیٰ نے اپنے شکر کی توفیق دی۔ اور پھر شکر کی توفیق ملنے پر شکر کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے شکر کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائیگا کہ انسان ہر وقت اس کے دروازہ پر گِرا رہے گا اور اس غلام کی طرح ہو جائے جو کسی صورت میں بھی اپنے آقا کو نہیں چھوڑتا۔
(تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۱۹۷ ایڈیشن ۲۰۲۳ء)