ہر ایک جو زکوٰۃ دینے کے لائق ہےوہ زکوٰۃ دے
ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ( المومنون : ۵) یعنی وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور یہ ایک نتیجہ ہے عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ کا۔کیونکہ جب دنیا سے محبت ٹھنڈی ہو جائے گی تو اس کا لازمی نتیجہ ہو گا کہ وہ خدا کی راہ میں خرچ کریں گے اور خواہ قارون کے خزانے بھی ایسے لوگوں کے پاس جمع ہوں وہ پروا نہیں کریں گے اور خد ا کی راہ میں دینے سے نہیں جھجکیں گے۔ ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتے یہاں تک کہ اُن کی قوم کے بہت سے غریب اور مفلس آدمی تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ ان کی پروا بھی نہیں کرتے حا لانکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر ایک چیز پر زکوٰۃ دینے کا حکم ہے یہاں تک کہ زیور پر بھی۔ہاں جواہرات وغیرہ چیزوں پر نہیں۔ اور جوامیر، نواب اور دولت مند لوگ ہوتے ہیں ان کو حکم ہے کہ وہ شرعی احکام کے بموجب اپنے خزانوں کا حساب کر کے زکوٰۃ دیں لیکن وہ نہیں دیتے۔ اس لئے خدا فرما تا ہے کہ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ(المومنون :۴) کی حالت تو اُن میں تب پیدا ہوگی جب وہ زکوٰۃ بھی دیں گے گویا زکوٰۃ کا دینا لغو سے اعراض کرنے کا ایک نتیجہ ہے۔
(ملفوظات جلد۵صفحہ۴۰۱، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
اپنے روزوں کو خدا کےلئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیںوہ حج کرے۔
(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۱۵)
زکوٰۃ کا نام اسی لئے زکوٰۃ ہے کہ انسان اس کی بجا آوری سے یعنی اپنے مال کو جو اس کو بہت پیارا ہے للہ دینے سے بخل کی پلیدی سے پاک ہو جاتا ہے۔ اورجب بخل کی پلیدی جس سے انسان طبعًا بہت تعلق رکھتا ہے انسان کے اندر سے نکل جاتی ہے تو وہ کسی حد تک پاک بن کر خداسے جو اپنی ذات میں پاک ہے ایک مناسبت پیدا کر لیتا ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۰۳ – ۲۰۴)
افسوس کہ اکثر دولت مند مسلمانوں نے زکوٰۃ دینا بھی چھوڑ دیا اور شریعت اسلامی کا یہ پُرحکمت مسئلہ کہ یُؤْخَذُ مِنَ الْاَغْنِیَاء وَیُرَدُّ اِلَی الْفُقَرَاءِ یونہی معطّل پڑا ہے۔ اگر دولت مند لوگ کسی پر احسان نہ کریں صرف فریضہ زکوٰۃ کے ادا کرنے کی طرف متوجہ ہوں تاہم ہزار ہا روپیہ اسلامی اور قومی ہمدردی کے لئے جمع ہوسکتاہے۔ لیکن مال بخیل آنگاہ از خاک برآید کہ بخیل درخاک رود۔
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۴۱-۵۴۲)