رمضان کی فرضیت، اہمیت اور برکات
خدا تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے بندہ نا تواں پر بے حد فضل فرما کر اس کو اپنے قرب کی راہیں عطا کیں تا وہ گمراہی کے گرداب میں نہ پھنسا رہے۔ چونکہ انسان کا علم اور اس کی طاقت محدود ہے وہ نہیں جانتا کہ وہ کس راہ سے خدا کا فضل اس کی رضا اور محبت حاصل کر سکتا ہے اس لیے خدا نے خود یہ ذمہ داری اٹھائی اور انسان کی راہنمائی کے لیے ہر پُر خطر اور ہدایت سے خالی دور میں اپنے انبیاء کو اس فریضہ کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا اور ان انبیاء کے ذریعہ اپنا پیغام ہم تک پہنچایا۔ آخری کامل پیغام خدا کے کامل نبی محمد مصطفیٰﷺکے ساتھ قرآن کریم کی صورت میں آیا۔ خدا نے قرآن کریم میں جہاں اپنے قرب کے بے حد ذرائع بتائے وہاں ایک ذریعہ یہ بھی بتایا کہ اس کی خاطر بھوک اور پیاس کو برداشت کیا جائے اس جدو جہد کا نام خدا نے صوم رکھا اور فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔(البقرہ:۱۸۴) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقوٰی اختیار کرو۔
اس آیت میں خدا نے مومنوں پر روزوں کو فرض کیا اور بتایا کہ یہ صرف تم پر ہی فرض نہیں بلکہ تم سے پہلے بھی لوگوں پر فرض تھے اور یہ قرب کا ذریعہ انہیں بھی دیا گیا تھا۔ گو کہ پچھلی امتوں کے روزوں کی کیفیت یہ نہ تھی۔
اس جگہ پچھلے مذاہب کے روزوں کا ذکر کرنا بھی فائدے سے خالی نہ ہوگا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پچھلے مذاہب کے روزوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:دنیا کا کوئی باقاعدہ مذہب ایسا نہیں جس میں روزہ کا حکم نہ ملتا ہو بلکہ ہر مذہب میں روزوں کا حکم موجود ہے چنانچہ اس بارہ میں سب سے پہلے ہم یہودی مذہب کو دیکھتے ہیں۔ تورات میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ جب طور پر گئے تو انہوں نے چالیس۴۰ دن رات کا روزہ رکھا اور ان ایام میں انہوں نے کچھ کھایا نہ پیا۔ چنانچہ لکھا ہے ’’سو وہ (یعنی موسیٰ) چالیس۴۰ دن اور چالیس رات وہیں خداوند کے پاس رہا اور نہ روٹی کھائی نہ پانی پیا‘‘ (خروج باب ۳۴آیت ۲۸)
اسی طرح احبار باب ۱۶ آیت ۲۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ساتویں مہینہ دسویں تاریخ کو ایک روزہ رکھنا یہود کے لیے ضروری قرار دیا گیا تھا چنانچہ بنی اسرائیل ہمیشہ یہ روزہ رکھتے رہے اور انبیاء بنی اسرائیل بھی اس کی تاکید کرتے رہے۔
یہودیت کے بعد مسیحیت کو دیکھا جائے تو اس میں بھی روزوں کا ثبوت ملتا ہے چنانچہ حضرت مسیح ؑ کے متعلق انجیل بتاتی ہے کہ انہوں نے چالیس دن رات کا روزہ رکھا۔ متی میں لکھا ہے۔ ’’اور چالیس دن اور رات کا فاقہ کرکے آخراس کو بھوک لگی۔ ‘‘(متی باب ۴ آیت ۲)
اسی طرح حضرت مسیح ؑنے اپنے حواریوں کو ہدایت دی کہ جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تا لوگ ان کو روزہ دار جانیں میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشِیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔ (متی باب ۶ آیت ۱۶ تا ۱۸)
یہودیت اور مسیحیت کے بعد ہندو مذہب کو دیکھا جائے تو ان میں بھی کئی قسم کے برت (روزے)پائے جاتے ہیں اور ہر قسم کے برت کے متعلق الگ الگ شرائط اور قیود ہیں جن کا تفصیلی ذکر ان کی کتاب ’’دھرم سندھو‘‘میں موجودہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا میں بھی ہندو اور جین مت کے روزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور زرتشتی مذہب کے متعلق بھی لکھا ہے کہ زرتشت نے اپنے پیروؤں کو روزے رکھنے کی تلقین کی تھی۔ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا جلد ۹ زیرِ لفظ Fasting ) (تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۳۷۲ تا ۳۷۳)
غرض روزہ روحانی ترقی کا ایسا ذریعہ ہے جو تمام مذاہب میں مشترک طور پر نظر آتا ہے۔ روزہ کو عربی زبان میں صوم کہا جاتا ہے جس کی جمع صیام ہے۔ صوم کے لغوی معنی ہیں کسی کام سے رکنا۔ صَامَتِ الرِّيْحُ ہوا تھم گئی۔نیز کہتے ہیں صَامَتِ الشَّمْسُ اِذَا وَقَفَتْ فِي كَبْدِ السَّمَآءِ وَ اَمْسَكَتْ عَنِ الْمَيْسَرِ سَاعَةَ الزَّوَالِ سورج بوقت زوال چلنے سے بظاہر آسمان کے وسط میں رک گیا۔ اس مقام کو جہاں سورج عارضی طور پر ٹھہرا ہوا نظر آتا ہے مَصَام کہتے ہیں۔ کھانے پینے اور بولنے سے رکنے کے معنوں میں حضرت مریم ؑ کا یہ قول قرآن میں وارد ہوا ہے اِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِيًّا (مریم:۲۷) یعنی میں نے رحمان کی خوشنودی کی خاطر روزے کی منت مانی ہے کہ میں کسی انسان سے کوئی بات نہ کروں گی، یعنی چپ کا روزہ اور اصطلاحِ شریعت میں معین وقت کے لئے کھانا پینا اور ازدواجی تعلقات اور بیہودہ کلام سے پرہیز مراد ہے۔
اسی طرح رمضان کا لفظ ہے یہ قرآن کریم میں صرف ایک مرتبہ آیا جس کا ذکر سورت بقرہ میں ان الفاظ میں ہے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ (البقرة :۱۸۶) رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔
رمضان کے معنی بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’رمضسورج کی تپش کو کہتے ہیں۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا اس لیے رمضان کہلایا۔ میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے،کیونکہ عرب کے لیے یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ روحانی رمضسے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارتِ دینی ہوتی ہے۔ رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں، جس سے پتھر گرم ہو جاتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۱۳۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
ماہ ِرمضان اور قرآن کریم
ماہ رمضان کا قرآن کریم سے ایک گہرا تعلق ہے اس تعلق کا ذکر ہمیں قرآن کریم کی اسی آیت سے ملتا ہے جس کا ذکر ہوچکا فرمایا: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ۔ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کے کئی معنی ہیں جن کی وجہ سے رمضان اور قرآن کا حسین تعلق اور بھی آشکار ہو جاتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کے معنی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اوّل اس جگہ فی تعلیلیہ ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم اتارا گیا ہے یعنی رمضان المبارک کے روزوں کی اس قدر اہمیت ہے کہ ان کے بارے میں قرآن کریم میں خاص طور پر احکام نازل کیے گئے ہیں۔ اور جس حکم کے بارے میں قرآنی وحی نازل ہو اس کے متعلق ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کتنا اہم اور ضروری ہوگا۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا چنانچہ حدیثوں سے صاف طور پر ثابت ہے کہ قرآن کریم کا نزول رمضان کے مہینہ میں شروع ہوا اور گو تاریخ کی تعیین میں اختلاف ہے لیکن محدثین عام طور پر ۲۴؍تاریخ کی روایت کو مقدم بتاتے ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ زرقانی دونوں نے اس روایت کو ترجیح دی ہے کہ قرآن کریم رمضان کی ۲۴؍تاریخ کو اترنا شروع ہوا تھا۔
تیسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ رمضان میں پورا قرآن اتارا گیا۔ جیسے احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے مرض الموت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اِنَّ جِبْرِیْلَ کَانَ یُعَارِضُنِی الْقُرْآنَ فِی کُلِّ سَنَةٍ مَرَّۃً وَ اِنَّهٗ عَارَضَنِىْ الْاٰنَ مَرَّتَيْنِ یعنی جبریل ہر سال رمضان کے مہینہ میں تمام قرآن کریم کا میرے ساتھ ایک دور کیا کرتے تھے، مگر اس سال انہوں نے دو دفعہ دَور کیا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رمضان کہ علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی قرآن نازل ہوا مگر رمضان المبارک کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں جس حد تک قرآن کریم نازل ہوچکا ہوتا تھا جبریل اس کا رسول کریمﷺ کے ساتھ مل کر دور کیا کرتے تھے۔ گویا دوسرے الفاظ میں دوبارہ تمام قرآن کریم آپؐ پر نازل کیا جاتا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۳۹۴، ۳۹۵)
رمضان کی اہمیت احادیث کی روشنی میں
حضرت ابومسعود غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان شروع ہونے کے بعد ایک روز حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کا علم ہوتا تو میری امت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ اس پر بنو خزاعہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ہمیں رمضان کے فضائل سے آگاہ کریں چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: یقیناً جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزین کیا جاتا ہے۔ پس جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الٰہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں۔
رمضان ایک واحد ایسی عبادت ہے جس کی جزا خود خدا ہے۔ الصِّیَامُ لِیْ وَ أَنا أَجْزِیْ بِهِ یعنی روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا اسی طرح ایک جگہ رسول کریمﷺ نے رمضان کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے فرمایا: اِذَا جَاءَ رَمَضَانُ، فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ یعنی جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
الادب المفرد میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت درج ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ منبر پر چڑھے۔ جب پہلی سیڑھی پر چڑھے تو فرمایا آمین۔ جب دوسری سیڑھی پر چڑھے تو فرمایا آمین۔ تیسری سیڑھی چڑھے تو فرمایا آمین۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم نے آپؐ کو تین بار آمین کہتے سنا ہے اس کی کیا وجہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا جب میں پہلی سیڑھی پہ چڑھا تو جبریلؑ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ وہ بدنصیب ہو جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور وہ گزر گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی تو میں نے کہا آمین۔ پھر فرمایا وہ بندہ بدنصیب ہو جس نے اپنے والدین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پایا اور وہ (اس کی نافرمانی کی وجہ سے) اسے جنت میں نہ لے جا سکے تو میں نے کہا آمین۔ پھر فرمایا کہ بد نصیب ہے وہ بندہ جس کے پاس آپﷺ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپﷺ پر درود نہ بھیجا تو میں نے کہا کہ آمین۔
اس حدیث سے رمضان کی اہمیت کا اندازہ اور اس ماہ میں بخشش کے سامان کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے اسی بخشش کے پیش نظر ایک جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھے گا اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
روزہ کی حقیقت
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ روزے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے نفس پر قابو حاصل ہوتا ہے اور انسان متقی بن جاتا ہے انسان کو جو ضرورتیں پیش آتی ہیں ان میں سے بعض تو شخصی ہوتی ہیں اور بعض نوعی اور بقائے نسل کی۔ شخصی ضرورتوں میں جیسے کھانا پینا ہے اور نوعی ضرورت جیسے نسل کے لئے بیوی سے تعلق۔ ان دونوں قسم کی طبعی ضرورتوں پر قابو حاصل کرنے کی راہ روزہ سکھاتا ہے اور اس کی حقیقت یہی ہے کہ انسان متقی بننا سیکھ لیوے۔
رمضان شریف کے مہینہ کی بڑی بھاری تعلیم یہ ہے کہ کیسی ہی شدید ضرورت ہی کیوں نہ ہو مگر خدا کا ماننے والا خدا ہی کی رضا کے لئے ان سب پر پانی پھیر دیتا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ قرآن شریف روزہ کی حقیقت اور فلاسفی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ(سورہ بقرہ:۱۸۴) روزہ تمہارے واسطے ہے کہ تقویٰ سیکھنے کی تم کو عادت پڑ جاوے۔ ایک روزہ دار خدا کے لئے ان تمام چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے جن کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے اور ان کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے، صرف اس لئے کہ اس وقت میرے مولیٰ کی اجازت نہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پھر وہی شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کی شریعت نے مطلق اجازت نہیں دی اور وہ حرام کھاوے پیوے اور بدکاری میں شہوت کو پورا کرے۔ (حقائق الفرقان جلد ۱ صفحہ ۳۰۲-۳۰۳)
روزہ کے نتیجے میں روحانی اور جسمانی فوائد
روزے صرف روحانی فائدہ ہی نہیں بلکہ جسمانی فائدہ بھی دیتے ہیں، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر دو فوائد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آجکل کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھاپا یا ضعف آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہو جاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہوتی ہے۔ بعض نادان تو اس خیال میں اس حد ترقی کر گئے ہیں کہ کہتے ہیں جس دن ہم زائد مواد کو فنا کرنے میں کامیاب ہو گئے اس دن موت بھی دنیا سے اٹھ جائے گی۔ یہ خیال اگرچہ احمقانہ ہے تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھکان اور کمزوری وغیرہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے ہی سےپیدا ہوتی ہے اور روزہ اس کے لئے بہت مفید ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں تو دوران رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت اور تر و تازگی کا احساس ہونے لگتا ہے …مگر روحانی لحاظ سے اس کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جو لوگ روزے رکھتے ہیں خدا تعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے۔ اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد خدا تعالیٰ نے دعاؤں کی قبولیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعاؤں کو سنتا ہوں۔ پس روزے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۳۷۵، ایڈیشن ۲۰۰۴ء)
روزوں سے اس رنگ میں بھی روحانی ترقی ہوتی ہے کہ جب انسان خدا کے لئے کھانا پینا ترک کرتا ہے تواس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے لئے اس کی راہ میں مرنے کو تیار ہے اور جب وہ اپنی بیوی سے مخصوص تعلقات قطع کرتا ہے تو اس بات پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے لیے اپنی نسل کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہے اور جب وہ روزوں میں ان دونوں قسم کے نمونے پیش کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی لقا کا مستحق ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تعلق قائم ہونے اور روحانیت کے مضبوط ہو جانے کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے گمراہی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رمضان کے فیض سے حقیقی طور پر مستفیض فرمائے اور اپنے قرب کی راہیں ہمیں عطا کرتا چلا جائے آمین۔