الْفَقْرُ فَخْرِي
اللہ تبارک و تعالیٰ کا قانون اس زمین و آسمان میں کارفرما ہے۔ انسان جس قدر بھی اس پر غور کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی علوت کے آگے سر بسجود ہوتا چلا جاتا ہے۔ اللہ نے انسان کو تمام راہیں سمجھا دیں، اس کا نفع و نقصان واضح کر دیا، اپنے پاک انبیاء کے ذریعہ دنیا اور آخرت کے حالات کے بارے میں آگاہی بھی دے دی اور پھر بتایا کہ ان پاک وجودوں کی پیروی کرو تو تم فلاح کو پا جاؤ گے۔
دنیا کے موجودہ حالات اور دنیا کے آپس میں گہرے ہمہ وقت روابط نے ایک نئے مسئلہ کو جنم دیا ہے۔ گو اسے نیا تو نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اس کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ فرما چکے ہیں اور ہر دور میں ہی ایک طبقہ اس کا پیرو رہا ہے مگر اس دور میں جس کثرت کے ساتھ اس کی طرف توجہ ہے اس نے اکثریت کو ہی اپنے اندر سمو لیا ہے۔ وہ مسئلہ ہے کثرتِ مال کی حرص اور اس حرص کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو غرباء سے ناروا سلوک ہے کیونکہ ذاتی مال بنانے سے دوسروں کو تکلیف نہیں ہوتی مگر امراء کا غرباء سے ناروا سلوک بعض لوگوں کے لیے ابتلا کا باعث بن جاتا ہے۔ قارئین کے سامنے آنحضرتﷺ کے ارشادات کے ذریعہ اس موضوع کو کھول کر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مال کی حرص کی پیشگوئی
حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ ہمارے پاس آئے۔ان پر ان کی ایک چادر کےسوا کچھ نہ تھا جس پر چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ جب رسول اللہﷺ نے انہیں دیکھا آپؐ رو دیے اس وجہ سے کہ جن نعمتوں میں وہ تھے اور وہ حال جس میں وہ آج تھے۔(کیونکہ آپؓ ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور اس کے بعد اسلام لانے پر انہیں مصائب کا سامنا کرنا پڑا)۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہو گا جب تم میں سے کوئی صبح ایک جوڑا پہنے گا اور شام کو ایک اَور جوڑا پہنے گا اور اس کے سامنے ایک پلیٹ رکھی جائے گی اور دوسری اٹھا لی جائے گی اور تم اپنے گھروں پر پردے ڈالو گے جس طرح کعبہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیایا رسول اللہؐ! ہم اس دن اپنے آج کے دن سے بہتر ہوں گے۔ اور ہم عبادت کے لیے فارغ ہوں گے۔ محنت و مشقت میں ہماری کفایت کی جائے گی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں اپنے اس دن سے تم آج بہتر ہو۔ (سنن ترمذی کتاب صفة القیامة)
گویا بتا دیا کہ آج تم بہتر ہو، مال آنے کے بعد مصروفیات اَور بھی بڑھ جائیں گی، اس لیے موجودہ حالت آئندہ آنے والے دنوں سے بہتر ہے۔ آنحضرت ﷺ فرما چکے تھے کہ آج غربت ہے مگر تم پر دنیا کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔
آپؐ نے فرمایا: پھر تمہیں بشارت ہو اور اسی بات کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے گی۔ بخدا! تمہارے متعلق مجھے محتاجی کا اندیشہ نہیں۔ بلکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں دنیا تمہارے لیے اس طرح کشادہ نہ ہو جائے جس طرح ان لوگوں پر کشادہ ہوئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور پھر تم اس میں اس طرح ایک دوسرے سے بڑھ کر حرص کرنے لگو جس طرح انہوں نے کی اور یہ حرص تمہیں بھی ویسے ہی ہلاک کردے جیسے انہیں ہلاک کیا۔ (صحیح البخاری کتاب الجزیۃ باب الجزیۃ و الموادعة مع اہل الحرب)
جنت کے وارث فقراء
گویا یہ ایک ایسی بات تھی جس کو آنحضرت ﷺ پہلے ہی خدا تعالیٰ سے علم پا کر جان چکے تھے۔ آپؐ جانتے تھے کہ یہ دنیا بہت میٹھی ہے اور یہ مٹھاس ہی ہے جو حشرات الارض کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ مگر آپؐ تو اپنی امت کو دنیاوی وجود نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ جنتوں اور جنت الفردوس کا مکین بنانا چاہتے تھے جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ آپ معراج کی رات جہنم اور جنت کا نظارہ فرما چکے تھے اور چاہتے تھے کہ آپؐ کی امت فردوس کی وارث بنے نہ کہ جہنم کی اتھاہ گہرائیوں کی۔
حضرت ا بن عباسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے جنت میں جھانکا تو میں نے اس کے اکثر باشندوں کوفقراء دیکھا ۔ (سنن الترمذی کتاب صفة جہنم باب ما جاء اکثر اہل النار النساء )
مسند احمد بن حنبل کی حدیث ہے حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان کیا کہ فقیر و محتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے نصف دن قبل جنت میں جائیں گے، اور وہ (نصف دن ) پانچ سو سال کا ہے۔ ( مسند احمد بن حنبل مسند المکثرین من الصحابہ مسند ابی ہریرۃ)
رسول اللہﷺ کا ذاتی نمونہ
اسی لیے آپؐ نے اپنی ذات کے لیے اللہ سے وہی مانگا جس کا انجام اچھا تھا۔ اس کی مثال آسان الفاظ میں یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ ملیریا کی بیماری ایشیا اور افریقہ میں عمومی بات ہے۔ اور ڈاکٹر جانتا ہے کہ جب تک میں مریض کو کڑوی دوا نہیں دوں گا تب تک یہ صحت یاب نہ ہو سکے گا۔ اور یہ کڑوی دوائی اس مریض کی بقا اور آئندہ کے دنوں میں نعمتوں سے خوب مزہ لینے کے واسطے ضروری ہے۔ پس وہ مریض کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ دوا اسی کے فائدہ کے لیے ہے۔ یہی صورتحال آپؐ کی زندگی میں نمایاں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہلَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡہِمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَالۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ ؕ وَمَنۡ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ(الممتحنہ:۷) ترجمہ: ىقىناً تمہارے لیے ان مىں اىک نىک نمونہ ہے ىعنى اُس کے لیے جو اللہ اور ىومِ آخر کى امىد رکھتا ہے اور جو اِعراض کرے تو (جان لے کہ) ىقىناً وہ اللہ ہى ہے جو غنى ہے اور صاحبِ حمد ہے۔ عموما ً اس آیت کے پہلے حصہ کا تو کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے مگر دوسرے حصہ کا کم ہی ذکر سننے میں ملتا ہے۔ آیت کا دوسرا حصہ قابل غور ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اللہ اور ىومِ آخر کى امىد رکھتا ہے یعنی چاہے اس دنیا میں وہ عمل مشکل اور کٹھن ہو مگر وہ اللہ کی رضا اور آخرت کی نجات کا باعث ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے دونوں راستے ایک حاذق طبیب کی طرح بتا دیے ہیں کہ اگر تم ہر عمل میں اپنے نبیﷺ کی پیروی کرو گے تو ابدی زندگی کو پا لو گے اور ان نعمتوں کے وارث ہو گے جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا۔ ( صحیح البخاری کتاب بدء الخلق باب ما جاء فی صفة الجنة)
آیئے آنحضرت ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا الْفَقْرُ فَخْرِي (تحفة الاحوذی جلد۷ صفحہ ۱۷ ) میر ا فخر فقر میں ہے۔ یعنی اللہ کی رضا کا طالب ہوں۔ مجھے دنیا سے کیا لینا۔ سنن الترمذی میں ایک حدیث اس بات کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ آیئے اس کو دیکھ لیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے بیان کیا آنحضرت ﷺ ایک چٹائی پر سوئے، جب اٹھے تو پہلوئے مبارک پر چٹائی کے نشانات تھے، ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! کاش ہم آپ کے لیے کوئی نرم بستر تیار کرلیتے (جس سے بدن مبارک کو راحت پہنچتی)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا واسطہ؟ میری مثال تو دنیا میں ایسی ہے کہ کوئی سوار چلتے چلتے ذرا سی دیر کے لیے کسی درخت کے سایہ میں ٹھہر گیا، پھر تھوڑی دیر بعد چل پڑا اور اس سائے کو چھوڑ گیا۔ (سنن الترمذی، ابواب الزھد، باب ما جاء فی اخذ المال)
پھر حضرت عمرؓ کی بھی اسی تائید میں حدیث ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے بیان کیا ایک مرتبہ مَیں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اوراس وقت آپؐ چٹائی پر تھے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں بیٹھ گیا اور آپؐ ازار پہنے ہوئے تھے اور اس کے علاوہ آپ پر کچھ نہ تھا اور چٹائی نے آپ کے پہلو پر نشان ڈال دیے تھے توکیا دیکھتا ہوں کہ ایک صاع کے برابر تھوڑے سے جَو ہیں اور چمڑا رنگنے کے لیے کیکر کے پتے کمرے کے ایک گوشے میں اور ایک بے رنگی کھال لٹکی ہوئی تھی۔ میری دونوں آنکھیں بے اختیار بہ پڑیں۔ آپؐ نے فرمایا تم کیوں رو تے ہو؟ اے ابن خطاب! میں نے کہایا نبی اللہ !میں کیوں نہ روؤں اس حال میں کہ اس چٹائی نے آپ کے پہلو پر نشان ڈال دیا ہے اور یہ آپ کا چھوٹا سا کمرہ ہے، میں اس میں(کچھ) نہیں دیکھ رہا مگر وہ جو میں دیکھ رہا ہوں جبکہ کسریٰ اور قیصر پھلوں میں اور نہروں میں ہیں اور آپ اللہ کے نبی ہیں اور اس کےخالص اور چنیدہ ہیں اور یہ آپؐ کا خزانہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اے خطاب کے بیٹے! کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ ہمارے لیے آخرت ہو اور ان کے لیے دنیا۔ میں نے عرض کیا ضرور۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزہد باب ضجاع آل محمدﷺ)
پھر ایک اَور حدیث ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: میرے ربّ نے مجھ پر پیش کیا تا کہ وہ میرے لیے مکہ کو سونا بنا دے۔ میں نے عرض کیا نہیں اے میرے ربّ! بلکہ میں ایک دن پیٹ بھر کر کھانا کھاؤں اور ایک دن بھوکا رہوں … جب مجھے بھوک لگے تیری طرف تضرّع کروں اور تجھے یاد کروں۔ اور جب میں سیر ہوں تو تیرا شکر کروں اور تیری حمد کروں۔(سنن الترمذی کتاب الزھد باب ماجاء فی الکفاف و الصبر)
فقر باعثِ رحمت
مال کی قلت کسی طرح بھی بری چیز نہیں۔ اس ضمن میں چند احادیث ذیل میں درج ہیں۔ امام ترمذی لکھتے ہیں حضرت قتادہ بن نعمانؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے دنیا سے بچاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے بچاتا ہے۔(سنن الترمذی کتاب الطب باب ماجاء فی الحمیة)پھر ایک اور روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مغفلؓ نے بیان کیا ایک شخص نے نبیﷺ کی خدمت میں عرض کیا یارسول اللہ ؐ!اللہ کی قسم! یقیناً میں آپؐ سے محبت کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: تم دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو۔ اس نے عرض کی اللہ کی قسم ! میں آپؐ سے محبت کرتا ہوں۔ انہوں نے تین مرتبہ ایساکہا۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو پھر فقر کے لیے ڈھال بنالو۔ کیونکہ جو مجھ سے محبت کرتا ہےفقر اس کی طرف بہتے ہوئے سیلاب سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے۔ ( سنن الترمذی کتاب الزھد باب ماجاء فی فضل الفقر)
پھر امام احمد بن حنبل لکھتے ہیں حضرت محمود بن لبید سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دو چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو ناپسند ہیں: (ایک ہے) موت جبکہ موت مومن کے لیے فتنہ سے بہتر ہے اور (دوسرا)اُسے مال کی قلت ناپسند ہے حالانکہ مال کی قلّت سے حساب بھی کم ہوگا۔(الجامع الصغیر)
یعنی اللہ اپنے کامل علم سے جانتا ہے کہ میرے مومن بندے کے لیے کیا بہتر ہے اسی لیے وہ اس کو ایسے حالات سے گزارتا ہے جس کے نتیجے میں وہ مومن بندہ اگلے جہان کی جنتوں کا وارث ٹھہرتا ہے۔
دنیا سے محبت کی وجہ
پس ان سب روایات سے یہ تو روشن ہو گیا کہ آنحضرتﷺ کا فعل اور عمل کس بات کو ظاہر کر رہا ہے۔ مگر جیسا کہ مضمون کے آغاز میں بتایا کہ انسان طبعی طور پر مال کی حرص رکھتا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ امام النسائی اپنی کتاب میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے جنت اور آگ کو پیدا کیا تو حضرت جبریلؑ کو جنت کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ جنت کو بھی اور جو کچھ بھی میں نے اس میں رہنے والوں کے لیے تیار کیا ہے دیکھو۔ انہوں نے اس کو دیکھا واپس آئے اور عرض کیا کہ تیری عزت کی قسم!جو کوئی بھی اس کے متعلق سنے گا اس میں داخل ہو گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے جنت کے بارے میں حکم دیا اور اس کو ناپسندیدہ چیزوں سے گھیر دیا گیا۔ پھر اللہ نے فرمایا اب اس کی طرف جاؤ اور اس کو دیکھواور جو میں نے اس میں رہنے والوں کے لیے تیار کیا ہے اسے بھی۔ تو جبریل ؑنے اس کو دیکھا کہ وہ تکلیف دہ چیزوں سے گھیر دی گئی تھی۔ انہوں نے عرض کیا کہ تیری عزت کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ اب شاید اس میں کوئی بھی داخل نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا اب جاؤ اور جہنم کو دیکھو اور جو کچھ میں نے اس میں رہنے والوں کے لیے تیار کیا ہے اسے بھی۔ پس جبر یلؑ نے جہنم کو دیکھا تو اس کے بعض حصے بعض پر چڑھے ہوئے تھے۔ وہ واپس آئے اور عرض کیا کہ تیری عزت کی قسم ! اس میں تو کوئی ایک بھی داخل نہیں ہو گا۔ تو اللہ نے جہنم کے بارے میں حکم دیا اور اسے شہوات سے گھیر دیا گیا۔ اور فرمایا دوبارہ جاؤ اور اس کو دیکھو۔ تو انہوں(جبریلؑ) نے اس کو دیکھا تو وہ شہوات سے ڈھانپ دی گئی تھی۔ وہ واپس لوٹے اور عرض کیا کہ تیری عزت کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ اب شاید کوئی بھی بچے گا نہیں مگر اس میں داخل ہو گا۔ (سنن النسائی باب الایمان و النذور باب الحلف بعزة اللّٰہ )پس یہ خدا تعالیٰ کو بھلانے والی خواہشات ہیں جن کی اندھا دھند تقلید کی وجہ سے دنیا جہنم کی طرف دوڑی جا رہی ہے۔ اسی لیے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب مثل الدنیا)
فقراء کی وجہ سے برکات
پھر لوگ اپنی کم علمی کے باعث آپؐ کے پاس آ کر فقراءو مساکین کی شکایت کرتے تھے۔ ایسے مواقع پر بھی آپؐ نے نہایت عمدگی سے بتایا کہ فقر کوئی ناپسندیدہ بات نہیں بلکہ کئی پہلوؤں میں بابرکت ہے۔
حضرت ابو الدرداء ؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا مجھے اپنے ضعیفوں اور کمزوروں میں تلاش کرو، اس لیے کہ تم اپنے ضعیفوں اور کمزوروں کی وجہ سے رزق دیے جاتے ہو اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔(سنن الترمذی کتاب الجھاد باب ما جاء فی الاستفتاح بصعالیک المسلمین )پھر اسی مضمون کی ایک اور حدیث بھی ہے حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا رسول اللہﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے ان دونوں میں سے ایک نبی ﷺ کے پاس آتا اور دوسرا محنت مزدوری کرتا تھا۔ محنت مزدوری کرنے والے نے نبی ﷺکی خدمت میں اپنے بھائی کی شکایت کی توآپؐ نے فرمایا: شاید تمہیں اسی کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الزھد باب ما جاء فی الزھادة فی الدنیا )
پھر جنگوں میں فتح کے بارے میں بھی آپؐ کا ایک ایسا ہی ارشاد ملتا ہے۔ حضرت ابو درداءؓ نے بیان کیا میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سناکہ مجھے کمزوروں میں تلاش کرو بلا شبہ تمہیں تمہارے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ ( سنن أبو داؤد کتاب الھجاد باب فی الانتصار برذل الخیل و الضعفة ) یعنی مالداروں کو، طاقتوروں کو بتایا کہ یہ جنگوں کی فتح مال و اسباب کی بنیاد پر نہ سمجھنا بلکہ یہ فتوحات اذنِ الٰہی اور تائیداتِ الٰہی کا نتیجہ ہیں اور اس میں جتنا حصہ تمہارا ہے اتنا ہی اُن فقراء مساکین کا ہے جو دعاؤں کے ہتھیار سے تمہاری مدد کر رہے ہیں۔
اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ زکوٰة کی ادائیگی کے بارے میں حدیث ہے۔ جو لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ان پر آسمان سے بارش روک دی جاتی ہے۔ اگر زمین پر چرند پرند نہ ہوتے تو ان کو کبھی بارش نہ دی جاتی۔(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب العقوبات)۔ یعنی انسانوں پر رحمت کا نزول ان میں موجود بے زبان جانوروں کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔
آپؐ کی دعا
حضرت ابوسعید خدریؓ نے بیان کیا مساکین سے محبت کیا کرو پس یقینا ً مَیں نے رسول اللہﷺکواپنی دعا میں کہتے ہوئے سنا ہے اللّٰهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِيْنًا وَاحْشُرْنِي فِيْ زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ کہ اے میرے اللہ! مجھے مسکین کے طور پر زندہ رکھنا اور مسکین کے طور پر موت دینا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر کرنا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب مجالسة الفقراء)
پس آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ وَمَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِجَبَّارٍ ۟ فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ (ق:۴۶) ہم اُسے سب سے زىادہ جانتے ہىں جو وہ کہتے ہىں اور تُو ان پر زبردستى اصلاح کرنے والا نگران نہىں ہے پس قرآن کے ذرىعہ اُسے نصىحت کرتا چلا جا جو مىرى تنبىہ سے ڈرتا ہے ) کے تحت اپنے قول و فعل سے عوام کو بتا دیا کہ کونسا راستہ کس طرف لے کرجاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑکے ارشادات
آیئے اب آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق یعنی حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات پر نظر دوڑاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’ایمانی کمزوری نے الٰہی محبت کو ٹھنڈا کر دیا ہے۔ دنیا کی محبت میں لوگ دبے جاتے ہیں اورضرور تھا کہ ایساہی ہوتا کیونکہ حضرت عالی سیّدنا و مولانا صلی اللہ علیہ وسلم بطور پیشگوئی فرماچکے ہیں کہ’’اس اُمّت پر ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں وہ یہودیوں سے سخت درجہ کی مشابہت پیدا کرلے گی اور وہ سارے کام کردکھائے گی جو یہودی کرچکے ہیں یہاں تک کہ اگر یہودی چوہے کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو وہ بھی داخل ہوگی۔ تب فارس کی اصل میں سے ایک ایمان کی تعلیم دینے والا پیدا ہوگا۔ اگر ایمان ثریّا میں معلّق ہوتا تو وہ اُسے اُس جگہ سے بھی پالیتا۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۹)پھر فرماتے ہیں: ’’تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالتِ انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہوجائے سو اس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دعا کرنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ یہ توفیق بخشے۔‘‘ (آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۵۱ )
پھر فرماتے ہیں:’’غرض نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ٹھٹھے کیے جاتے ہیں۔ ان کی خبرگیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے۔ جو لوگ غرباء کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں۔ اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں۔ اور اس خداداد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں۔ ‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۴۳۹، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
پھر فرماتے ہیں:’’وہ برگزیدہ خدا سید الرسل جس نے دنیا کی بادشاہت سے منہ پھیر کر کہا تھا کہ الفَقْرُ فَخْرِیْ یعنی فقر میرا فخر ہے اس کو خدا نے بادشاہت دے دی۔ اس نے کہا تھا کہ میں ایک دن فاقہ چاہتا ہوں اور ایک دن روٹی۔ مگر خدا نے اس کو فقر و فاقہ سے بچایا۔ یہ خاص فضل ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۳۴)
پس ہم احمدی دنیا میں واحد جماعت ہیں جو اوّلین تا آخرین سب انبیاء کو ماننے والے ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے مساکین و فقراء کو قطعاً حقیر نہ جانیں۔ اور ان سے حد درجہ نیکی اور احسان کا سلوک رکھیں کیونکہ آپؐ نے فر مایا ہے تین چیزیں مرنے والے کے ساتھ جاتی ہیں دو واپس لوٹ آتی ہیں اور ایک رہ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے اہل، اس کا مال اور اس کا عمل جاتے ہیں۔ اس کا اہل اور مال تو واپس آجاتے ہیں اور عمل باقی رہ جاتاہے ۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد ) پس مالدار بھی ہوں اور نامہ اعمال میں فقراء سے اچھا سلوک بھی نہ لکھا ہو تو خدا تعالیٰ کے حضور کہیں ہم گناہگار وں کی صف میں نہ لکھے جائیں۔ پس رمضان المبارک کا مہینہ آن پہنچا ہے۔ جہاں اپنی روحانیت کو بڑھانے کی کوشش کریں وہاں اپنے فقراء و مساکین کو بھی نہ بھولیں اور بظاہر نہ دِکھنے والے ان لوگوں کو بھی نہ بھولیں جن کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مساکین وہ ہیں جن کے پاس اتنا مال نہیں ہوتا کہ وہ انہیں غنی کر دے، اوروہ لوگوں سے مانگنے سے شرماتے ہیں اور لوگوں کے پیچھے پڑ کے نہیں مانگتے۔ ( صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب لا یسئلون الناس الحافا)۔ اللہ ہمیں آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑکے ارشادت پر عمل کرنے والا اور ان کی دعاؤں کا وارث بنائے آمین۔
اس مضمون کے لکھنے کا مقصد قارئین کو قطعاً دنیا کی نعمتوں سے متنفر کرنا نہیں۔ اس کا مقصد صرف ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا ہے۔ انشا اللہ آئندہ کبھی اس موضوع پر بحث کی جائے گی کہ اسلام نے رہبانیت اور تارک الدنیا یا مال کمانے کے بارےمیں کیا راہنمائی کی ہے۔