لیلۃ القدر کی تلاش (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۹؍اپریل ۱۹۲۶ء)
۱۹۲۶ء میں حضؓور نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔اس میں آپؓ نے لیلۃ القدر کے مضمون پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے متعلق جو غلط باتیں عوام میں رائج ہیں ان کا رد فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے ۔ (ادارہ)
تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
یہ رمضان کا آخری عشرہ ہے اور اس آخری عشرہ کے متعلق رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اس کے اندر ایک ایسی رات ہے جس میں اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں خاص طور پر سنتا ہے۔ اس رات میں اس کے بندے جو کچھ طلب کرتے ہیں وہ دیتا ہے۔اور جو چاہتے ہیں وہ پورا کرتا ہے۔ اور آپ نے اس کے متعلق فرمایا ہے رمضان کے آخری عشرہ میں اسے تلاش کرو۔(بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر)گوجیسا کہ میں پہلے کئی دفعہ بتا چکا ہوں یہ ضروری نہیں کہ آخری عشرہ میں ہی وہ رات آئے۔ لیکن رسول کریمﷺ کے کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے اور بعد میں آنے والے صلحاء اور اولیاء اﷲ کے تجربہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ
یہ رات بالعموم آخری عشرہ رمضان میں آتی ہے۔
اس رات کی برکات بہت سے اولیاء نے خود مشاہدہ کی ہیں اور اپنی روحانی آنکھوں سے اُن انوار کو آسمان سے اترتے دیکھا ہے جو انوار ایک دم میں تاریک دن کو نورانی بنا دیتے ہیں اور متفکر انسان کو تمام دنیا میں سب سے زیادہ خوش کر دیتے ہیں۔ یہ تو ایک منٹ کے لئے بھی کبھی خیال نہیں کیا جا سکتا کہ رسول کریم ﷺ کا منشاء یہ ہے کہ اس گھڑی میں جو رمضان کے آخری عشرہ کی کسی رات میں آتی ہے جو آدمی جو کچھ بھی مانگے وہ اُسے مل جاتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو پھر دین کے معاملہ میں امن و امان اٹھ جاتا ہے۔ اور لیلۃ القدر اس دعائے گنج العرش کی طرح رہ جاتی ہے جس کے متعلق جاہلوں میں یہ خیال پھیلا ہوا ہے کہ وہ ایسی دعا ہے جس سے انسان جو چاہے حاصل کر سکتا اور ہر قسم کی تکلیف سے بچ سکتا ہے۔ اور پھر ایسی دعا کا پتا بھی چور کے ذریعہ لگا ہے نہ کسی ولی اور بزرگ کے ذریعہ۔کہتے ہیں ایک چو ر تھا جس نے کئی خون کئے۔ بادشاہ نے اس کے قتل کا حکم دیا لیکن جب جلّاد اُسے قتل کرنے لگے اور اس کی گردن پر کئی تلواروں کے وار کئے تو اسے ذرا بھی گزند نہ پہنچی اور ذرا بھی گردن نہ کٹی۔ اس پر بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ تلواریں اس کی گردن نہیں کاٹ سکتیں۔ بادشاہ نے کہا اگر اس کی گردن ایسی ہی ہے کہ تلواروں سے نہیں کٹ سکتی تو اسے پھانسی دے دو۔ لیکن جب پھانسی پر چڑھایا گیا تو پھانسی بھی اس پر کوئی اثر نہ کر سکی۔ اس کی اطلاع بادشاہ کو دی گئی تو اس نے کہا کہ اچھا آگ میں ڈال دو مگر آگ نے بھی اس کا کچھ نہ بگاڑا۔پھر کہا گیا اسے اونچے پہاڑ سے گرا دو۔ لیکن پہاڑ سے گرانے پر وہ اس طرح لڑھکتا ہوا نیچے آپہنچا گویا کھیل رہا ہے۔ پھر کہا گیا اسے وزنی پتھر باندھ کر پانی میں پھینک دو۔ لیکن جب پھینکا گیا تو وہ پانی پر اس طرح تیرنے لگا جس طرح کارک تیرتا ہے۔آخر بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلا کر کہا کہ ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے تمہیں چور سمجھ کر سزا دینی چاہی۔ تم تو بڑے باکرامت انسان ہو۔ اس نے کہا ہوں تو میں چور ہی مگر بات یہ ہے کہ میں ایک ایسی دعا جانتا ہوں کہ جتنے انبیاء گزر چکے ہیں اُن کی نیکیوں کے برابر نیکیاں ایک دفعہ اس کے پڑھنے سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ اِسی طرح خواہ کوئی کتنے گناہ کرے ایک دفعہ پڑھ لینے سے سب دُو ر ہو جاتے ہیں اور کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ میں وہ دعا پڑھا کرتا ہوں۔تو نادانوں کی یہ دعا نکالی ہوئی ہے۔
اگر لیلۃ القدر بھی اسی کی طرح ہو کہ خواہ کوئی ڈاکہ ڈالے، چوری کرے، قتل کرے، انبیاء کو گالیاں دے، شریعت کے کسی حکم پر عمل نہ کرے۔لیکن اس رات دعا مانگ لے تو انبیاء کی دعائیں رد ہو جائیں مگر اس کی دعا رد نہ ہوگی۔ تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ پھر کسی کو نیک اعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً ایک شخص اس رات یہ دعا مانگ لے کہ میں جو چاہوں کروں لیکن جاؤں جنت کے سب سے اعلیٰ مقام میں اور اعلیٰ درجہ میں اور یہ دعا ضرور قبول ہونی ہے۔ تو پھر خواہ وہ کچھ کرے جنت میں ہی جائے گا۔ مگر یہ بات اسلام کی تعلیم اور اسلام کے مغز کے قطعاً خلاف ہے۔ پس رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اس رات میں ایک خاص گھڑی ہوتی ہے جب کہ برکات نازل ہوتی ہیں۔ اور خصوصاً جمعہ کی رات کو اس سے بڑا تعلق ہے تو ا س کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اس گھڑی میں خواہ کوئی دعا کی جائے خدا تعالیٰ کو ضرور منظور کرنی پڑتی ہے اور وہ اسے رد نہیں کر سکتا۔ بلکہ
اس کے لئے کچھ حد بندی کرنی پڑے گی جس کے ماتحت اُس وقت دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
اب یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ حد بندیاں کیا ہیں۔ وہی ہیں جو شفاعت کے متعلق ہیں۔ یعنی ایک ایسا شخص جو کوئی ایسی چیز مانگتا ہے جو خد اتعالیٰ کے قانون کے ماتحت دی جا سکتی ہے لیکن بعض عارضی روکیں پیدا ہو گئی ہیں جو امکانِ قدرت سے تعلق نہیں رکھتیں یا اس انسان کے درجہ سے تعلق نہیں رکھتیں۔ وہ ایسے موقع پر مانگے گا تو اسے مل جائے گی۔ ورنہ اگر اس کا یہ مطلب ہوکہ خواہ کوئی کچھ کرے جو دعا بھی اُس وقت مانگے وہی قبول ہو جائے گی تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص رمضان کے پہلے بیس روزے نہ رکھے،نہ نمازیں پڑھے، نہ کوئی اَور نیک کام کرے لیکن جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو تو مغرب کی نماز کے بعد سے لے کر صبح کی نماز تک دعا مانگتا رہے۔ اور دن کو سوجائے نہ ظہر کی نماز پڑھے نہ عصر کی۔ پھر رات کو یہ دعا مانگنا شروع کردے کہ میں جو چاہوں کرتا رہوں مجھ سے کوئی باز پُرس نہ ہو اور میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر جنت میں رکھا جاؤں یہ ہرگز مفہوم نہیں ہو سکتا اُن حدیثوں کا جو لیلۃ القدر کے متعلق آئی ہیں۔
دعا وہی سنی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت قبول ہونی ممکن ہو مگر عارضی روکوں کی وجہ سے قبول نہ ہو سکتی ہو۔
اور یہ درست ہے کہ انبیاء کی ایسی دعائیں کبھی رد نہیں ہوتیں۔ ان کی وہی دعائیں نامنظور ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے قانون یا خاص تقدیر کے مقابلہ میں آپڑتی ہیں اور انبیاء کو اس کا پتانہیں ہوتا۔ ورنہ جو ایسی نہیں ہوتیں وہ قبول کی جاتی ہیں اور کبھی رد نہیں کی جاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات انبیاء کے منہ سے نکلے ہوئے فقرے اس صفائی کے ساتھ پورے ہو جاتے ہیں کہ لوگ خیال کر لیتے ہیں انہیں بھی قانونِ قدرت پر تصرف حاصل ہے۔ لیکن وہ اہم امور جو خاص قدرتوں کے ماتحت ہوتے ہیں اور جن کے متعلق خدا تعالیٰ کا قانون اَور رنگ میں جاری ہوتا ہے ان کے متعلق نہ صرف یہ کہ انبیاء کے منہ سے نکلی ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتیں بلکہ مہینوں اور سالوں اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں تو بھی منظور نہیں ہوتیں۔ بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ انبیاء اور اپنے مقربین کی دعائیں ان کی محبت اور پیار کی وجہ سے سنتا ہے۔ مگر محبت اور پیار کی وجہ سے خدائی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دعائیں جو اس کے قانونِ قدرت یا خاص تقدیر کے خلا ف ہوں انہیں قبول نہیں کرتا۔
پس رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی بعض حدبندیوں کے ماتحت آئے گا۔ اور جب یہ بات تسلیم کی جائے گی تو
یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس عشرہ میں آنے والی خاص گھڑی سے وہی فائدہ اٹھائے گا جس کے دوسرے اعمال بھی اچھے ہوں گے اور جو دوسرے ایام میں بھی اپنے اندر صلاحیت رکھتا ہو گا۔ یعنی وہی اس سے فائدہ اٹھائے گا جو اپنے اعمال کی رُو سے اس کا مستحق ہو گا۔
پھر یہ حد بندی لگانے پر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ
لیلۃالقدر ہر انسان کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ اُس کے لئے ہے جو خود اسے اپنے لئے پیدا کرتا ہے۔
یہ نہیں کہ اس عشرہ میں وہ خاص گھڑی اس لئے رکھ دی گئی ہے کہ جو چاہے اس سے فائدہ اٹھا لے۔ بلکہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے اعمال کے لحاظ سے اس کے مستحق ہوتے ہیں اُن کے لئے یہ بنائی جاتی ہے۔ پس یہ بات خوب اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ لیلۃ القدر اس رات میں پیدا نہیں کی جاتی جس کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ بلکہ پچھلے سال اور پچھلے مہینے اُسے بناتے ہیں۔
جس کے پچھلے اعمال اعلیٰ ہوں گے۔ اُسی کے لئے لیلۃ القدر ہوگی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃ القدر میں یہ اشارہ ہے کہ جس کے ابتدائی ایام نیکی میں گزرتے ہیں اس کے انتہائی ایام میں بھی خدا تعالیٰ کی تائید اس کے شاملِ حال ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ رمضان کے ابتدائی ایام میں جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اُس کے لئے آخری ایام میں ایسا وقت آتا ہے کہ خدا اُس کے لئے فضل نازل کرنے کا خاص موقع رکھتا ہے۔ پس لیلۃ القدر میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر انسان اپنی زندگی کی ابتدائی گھڑیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا میں صَرف کرے تو اس کی انتہائی گھڑیاں خدا تعالیٰ خود اپنی رضا میں صَرف کر ا لے گا۔ اگر کوئی شخص اپنے طاقت کے ایام میں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس وقت جب کہ بڑھاپے کی وجہ سے اور کمزور ہو جانے کے باعث خدا تعالیٰ کی خاطر جسمانی اور مالی قربانی نہ کر سکے گا خدا تعالیٰ خود اُس سے کرا لے گا۔
پس
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں جس لیلۃ القدر کا ذکر کیا گیا ہے وہ دراصل انسان کے انجام کی طرف اشارہ ہے۔
اگر ایک انسان نے متواتر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کی، اُس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی تو جب اُس پر ایسا زمانہ آئے گا جب وہ اپنی ناطاقتی کی وجہ سے خدمتِ دین میں حصہ نہ لے سکے گا تو خدا تعالیٰ خاص طور پر اُس کی مدد فرمائے گا اور اس کی باتوں میں وہ اثر پیدا کر دے گا جو دوسروں کے کاموں میں بھی نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس نے اپنی ساری عمر خداتعالیٰ کی رضا کے حصول میں خرچ کر دی۔ اور دوسرے ابھی امتحان میں ہیں۔ نہ معلوم ان کا کیا نتیجہ ہو۔ پس لیلۃ القدر اس طر ف اشارہ کرتی ہے کہ ایک انسان جس نے اپنی ساری عمر خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کے دین کی خدمت میں صرف کردی وہ کمزور ہوجانے کی وجہ سے جب جہاد کے لئے نہیں جا سکے گا یا مالی قربانی نہیں کر سکے گا۔ اُس وقت اُس کے دل میں جو نیک ارادے پیدا ہو ں گے اُن کا ہی اس کو اتنا ثواب ملے گا جو جوانوں کو ان کے کاموں کا نہیں ملے گا۔ کیونکہ ان کی زندگی کی تو ابھی ابتداء ہوئی ہے۔ اور وہ اپنی زندگی اور قویٰ خرچ کرکے انتہاء کو پہنچ چکا ہے۔
پس لیلۃ القدر پیدا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں کام کرنے والوں کے انجام کی خوبی کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ مگر دوسری طرف اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کا انجام اچھا نہیں ہوتا تو معلوم ہوا اس کی ابتداء بھی اچھی نہ تھی۔اور اس کی ابتدائی خدمات نیک نیتی اور خلوص پر مبنی نہ تھیں۔
پس لیلۃ القدر سے یہ سبق مل سکتے ہیں۔اول یہ کہ جو انسان خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ابتداء سے کام کرے گا اُس کا انتہاء اچھا ہوگا۔ اور دوم یہ کہ اگر کسی کے لئے لیلۃ القدر کی حالت پیدا نہیں ہوتی تو معلوم ہوا گو اُس کا پہلا زمانہ بظاہر اچھا معلوم ہوتا تھا اور وہ اچھے کام کرتا نظر آتا تھا مگر اس میں کچھ ایسے نقص تھے کہ جن کی وجہ سے اُس کی خدمات قبول نہ ہوئیں اور خدا تعالیٰ نے اس کے اعمال کے تسلسل کو جاری نہ رہنے دیا۔
ان دو سبقوں کے ماتحت دوستوں کو صرف رمضان میں ہی نہیں اور رمضان کے آخری عشرہ میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی لیلۃ القدر کو تلاش کرنا چاہئے۔ اور اپنی زندگی کے آخری عشرہ کے لئے ایسے سامان مہیا کرنے چاہئیں کہ انہیں لیلۃ القدر کے فیوض حاصل ہو سکیں۔
اور ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی زندگی کے پہلے ایام میں تو کام کریں لیکن انجام کے وقت جب ان میں کام کرنے کی طاقت نہ رہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ مدد حاصل نہ ہو جو اپنے محبوب بندوں کو دیتا اور جو پنشن کے طور پر اس کی طرف سے ملتی ہے۔ اُس وقت وہ اپنا خاص فضل نازل کرے اور اپنی برکات کا وارث بنائے۔
یہی سبق ہے جو خدا تعالیٰ لیلۃ القدر سے مومنوں کو دیتا ہے اور اس کے حاصل کرنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم رمضان کی لیلۃ القدر سے بھی فائدہ اٹھائیں اور انسان کی زندگی کی جو لیلۃ القدر ہوتی ہے اُس سے بھی مستفیض ہوں۔ ہم خدا تعالیٰ کی گود میں ہوں اور ہمارا آخری انجام اِسی طرح ہو جس طرح لیلۃ القدر کے متعلق وعدہ کیا گیا ہے۔
(الفضل ۱۳؍ اپریل ۱۹۲۶ء)