لیلۃ القدر کے لیے سارے رمضان میں عبادات بجا لائیں
سب سے پہلے یہ، لیلۃ القدر کی بات چل رہی ہے۔ اس کے متعلق معلوم ہوکہ کب آتی ہے یہ رات، اور کس طرح پتہ چلے کہ یہ رات میسر آگئی ہے۔ اس کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کیاکوئی ایسی علامت ہے جس سے معلوم ہوسکے کہ فلاں رات اس رمضان میں لیلۃ القدر تھی؟اس کا جواب یہ ہے کہ بعض احادیث میں یہ آتاہے کہ کچھ بجلی چمکتی ہے، ہوا ہوتی ہے اور ترشّح ہوتاہے، ایک نور آسمان کی طرف جاتا یاآتا نظر آتاہے۔ مگر اوّل الذکر علامات ضروری نہیں۔ گو اکثر ایسا تجربہ کیا گیاہے کہ ایسا ہوتاہے اور آخری علامت نُور دیکھنے کی صلحاء کے تجربہ میں آئی ہے۔ یہ ایک کشفی نظارہ ہے، ظاہر علامت نہیں جسے ہرایک شخص دیکھ سکے۔ خودمَیں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے لیکن جو کچھ مَیں نے دیکھاہے دوسروں نے نہیں دیکھا۔ اصل طریقہ یہی ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ سے سارے رمضان میں دعائیں کرتا رہے اور اخلاص سے روزے رکھے، پھر اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں اس پر لیلۃ القدر کا اظہار کر دیتاہے۔ (تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۳۲۹) حدیث میں آتاہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایاکہ جس نے ماہ رمضان کے شروع سے آخر تک تمام نمازیں باجماعت ادا کیں تو اس نے لیلۃ القدر کا بہت بڑا حصہ پا لیا۔ گویا صرف آخری دنوں میں تلاش نہ کریں بلکہ سارے رمضان میں پوری عبادات بجا لائیں۔…توایک بات تو یہ واضح ہو ئی ان حدیثوں سے کہ یہی نہیں ہے کہ سارا رمضان تو نہ روزوں کی طرف توجہ دی، نہ قرآن پڑھنے کی طرف توجہ ہوئی، نہ نمازوں کے قیام کی طرف توجہ ہوئی، اور آخر ی عشرہ شروع ہوا تو ان سب عبادات کی طرف توجہ پیدا ہوگئی۔ نہیں۔ بلکہ رمضان کے شروع سے ہی ان عبادات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ جو برائیاں پائی جاتی ہیں ان کو چھوڑنے کی طرف توجہ، بھائی بہنوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں، میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں، ساس بہوایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں۔ توشروع رمضان سے ہی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ ہو تو یہ نیکیاں بجا لائیں گے تو تب ہی جہنم کے دروازے بند ہوں گے اور جنت کے دروازے کھلے ہوں گے۔ نہیں تو گواللہ تعالیٰ نے تو جہنم کے دروازے بند کردئے لیکن ان نیکیوں کو نہ کرنے سے زبردستی یہ برائیاں کرکے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادانہ کرکے دھکے سے جہنم کے دروازے کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔ تو یہ حقوق العباد اور حقوق اللہ ادا کریں گے جن کا ذکر دوسری حدیثوں میں بھی آتاہے تو پھر ان آخری راتوں کی برکات سے بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ کیونکہ سرسری عبادات سے یا عارضی طورپہ آخری دس دن کی عبادات سے یہ اعلیٰ معیار جو ہیں وہ حاصل نہیں ہو سکتے۔ بلکہ آنحضرتﷺ کے اسؤہ حسنہ کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍نومبر ۲۰۰۳ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۹؍جنوری ۲۰۰۴ء)