روزہ اور اس کے طبی فوائد
وَاَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ (البقرۃ:۱۸۵)اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:ہر چیز کی ایک زکوٰۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی الصوم،زکاۃ الجسد)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جب روزے فرض ہوئے اور ارکانِ اسلام میں روزوں کو تیسرا رکن قرار دیا گیا تو اس وقت دنیاوی علوم اور انسانی عقل و شعور اس امر سے بالکل بے بہرہ تھے کہ کیا روزے کے جسمانی فوائد پر سائنسی تحقیقات کی جا سکتی ہیں؟قرآن مجیدکا یہ ارشاد کہ روزہ رکھنا انسان کے لیے فائدہ مند چیز ہے اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے اورساتھ ہی وحیٴ قرآن کے من جانب اللہ ہونے پر ایک قطعی دلیل ہے۔
روزہ بے شک ایک مقدس عبادت اور مذہبی فریضہ ہے اور اس کا اجر وثواب خدا تعالیٰ کی طرف سےہی ہے۔لیکن روزہ رکھنا محض مذہبی فریضہ نہیں بلکہ یہ روزہ دار کو جسمانی و روحانی فوائد بھی عطا کرتا ہے۔ روزے میں خصوصاً انسان کے لیےایسی زبردست حکمت عملی نظر آتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بطور تحفہ اپنے بندوں کو عطا فرمایااور وہ حکمت عملی روزہ رکھنے میں انسان کے لیے جسمانی و روحانی فوائد ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۱۱کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ انبیاء کے جس قدر اوامر ہیں اگر انسان ان پر چلے تو وہ دنیا میں بلحاظ طب بھی آرام سے رہتا ہے کوئی خطر ناک موذی مرض اوامر الٰہی کے اتباع سے پیدا نہیں ہوتی۔(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ ۳۱۱)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ روزے کئی قسم کے امراض سے نجات دلانے کا موجب بن جاتے ہیں۔آج کل کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہےکہ بڑھاپا، ضعف آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہو جاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہوتی ہے …تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھکان اور کمزوری وغیرہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے ہی سے پیدا ہوتی ہے اور روزہ اس کے لیے مفید ہے۔میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں۔تو دورانِ رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے۔مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت اور تروتازگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۳۷۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں :اسرائیل میں اس مضمون پر ریسرچ ہوئی اور ان کی نیت بظاہر یہی معلوم ہوتی تھی کہ وہ ثابت کریں کہ مسلمانوں کا یہ جو طریق ہے روزے رکھنے کا یہ ان کے لئےنقصان دہ ہے اور بچوں کو بھی نقصان پہنچتا ہےبڑوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے چنانچہ پوری گہری ریسرچ کی گئی،ایک بڑی ٹیم نے اس پہ کام کیا اور یہ بھی پیشِ نظر تھا کہ روزے کے دنوں میں تو بعض لوگ پہلے سے بھی بڑھ کر کھاتے ہیں اور زیادہ کھانے کے نتیجہ میں اور بیچ میں افاقہ رہنے کے نتیجے میں ایسا نقصان ان کو پہنچ سکتا ہے کہ پھر وہ بعد میں سنبھل نہ سکیں۔ جو ریسرچ کا ماحصل تھا۔اس نے ان کو حیران کر دیابالکل برعکس نتیجہ نکلا۔جس چیز کی تلاش میں تھے اس کی بجائے یہ کہنے پر مجبور ہو گئےکہ جتنی تحقیق کی گئی ہےاس کے نتیجے میں رمضان کے مہینے کے بعد انسان بہتر صحت کے ساتھ باہر نکلتا ہے،کمزور ہو کے نہیں نکلتا۔ہر پہلو سے اس کے جائزے لیے گئے۔کولیسڑول لیول کے لحاظ سےجائزے لیے گئے۔میٹابولزم کی ratiosکے آپس میں توازن کے لحاظ سے لئے گئےغرضیکہ باقاعدہ ریسرچ کا جو حق ہے۔وہ ادا کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلاہے۔ پس آنحضرت ﷺ نے چودہ سو سال پہلے بات فرمائی،دیکھیں کیسی صحت کے ساتھ وہ بات فرمائی،کتنی سچی بات فرمائی صُومُوا تَصِحُّوْا روزے رکھا کروصحت اچھی ہو جائے گی۔ (خطبات طاہر جلد۱۵ صفحہ۷۵)
روزہ سےہمارے جسم کا اندرون صاف ہوتا ہے،بلڈپریشراور شوگر کنٹرول کرنے میں مدد ملتی نیز روزہ جسم میں کولیسٹرول کی سطح کو متوازن کرنے میں مدد کرتا اور اسی طرح معدے،جگر،گردے کی بہت سی تکالیف سے چھٹکارا حاصل کرنے کا باعث بنتا ہے۔جس کی وجہ سے ہمارا جسم صحت و تندرستی کے سفر کی طرف دوبارہ لوٹتا ہےاور جسمانی نظام میں بہتری کے ساتھ ساتھ روزہ شفا یابی کا بھی موجب بنتا ہے۔ بعض ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق روزہ سے حاصل ہونے والے بعض طبی فوائد مختصراً ذیل میں پیش خدمت ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ روزہ طویل العمری کی کلید ہے۔
یادداشت میں بہتری
کنگز کالج لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف سائیکاٹری (نفسیات)، سائیکالوجی اینڈ نیورو سائنس کی ایک نئی تحقیق کے مطابق روزہ دماغی قوت کو بڑھانے کےساتھ یادداشت کو بھی بہتر بناتا ہے اور نئے ’ہیپوکیمپل‘نیوران پیدا کرتا ہےجو اعصابی امراض سے بچانے میں مدد کرتے ہیں۔اس کے علاوہ روزہ ڈیمنشیا اور الزائمر جیسی خطرناک بیماریوں کو روکنے کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔
روزہ اور نظامِ دورانِ خون
ترکی کے معروف اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی روزے سے نظام دوران خون (Circulatory System)پر مرتب ہونے والے فائدہ مند اثرات کے حوالےسےکہتے ہیں کہ روزے کا سب سے اہم اثر اس پہلو سے ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجہوں میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے۔جب کہ دوسری طرف روزہ میں بطور خاص افطار کے وقت تک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے، اور شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔گویا موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جن میں شریانوں کی دیواروں کی سختی نمایاں ترین ہے،سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے۔(قرآنی آیات اور سائنسی حقائق صفحہ۱۰۵تا۱۰۶)
جسم کی زہریلی چربی میں کمی
یونیورسٹی آف سڈنی کے ایک جائزے سے معلوم ہوا کہ جن کا وزن زیادہ ہوتا ہے یا جو موٹاپے کا شکار ہوتے ہیںرمضان کے دوران ان لوگوں کے جسم میں چربی کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے۔
جس طرح جگر کی چربی ذیابیطس کا خطرہ بڑھاتی ہے بالکل اسی طرح پٹھوں اور پینکریاز (لبلبہ) میں چربی ہونے سے کینسر جیسے امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔ تاہم دن بھر روزہ رکھنے سے جسم کی زہریلی چربی میں کمی آتی ہے اور انسان صحت مند رہتا ہے۔چونکہ روزے میں میٹابولزم میں تیزی، بھوک اور ہارمونز متوازن ہوتے ہیں اس لیے روزہ ان لوگوں کے لیے خاص طور پر مفید سمجھا جاتا ہے جو وزن کم کرنا چاہتے ہیں۔
مدافعتی نظام میں بہتری اور ٹیومر سے بچاؤ
جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر والٹر لونگو کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے آئی جی ایف ۔ ون کی سطح میں کمی آتی ہے اور جسم مرمت موڈ میں آ جاتا ہے اور مرمت کرنے والے کئی جین جسم میں متحرک ہو جاتے ہیں۔
نیز صرف تین دن لگاتار روزے کی حالت میں رہنے سے جسم کا مدافعتی نظام پورے کاپورا نیا ہو سکتا ہے۔کیونکہ روزہ سے جسم کو خون کے نئے سفید خلیات بنانے کی توفیق ملتی ہے۔
مزید یہ کہا کہ طویل روزوں کی حالت میں جسم میں ایک اینزائم پی کے اے (PKA) کی کمی واقع ہوتی ہے جس کا تعلق بزرگی یا سرطان کے ٹیومر کی افزائش کا سبب بننے والے ہارمون سے ہے۔جبکہ اسٹیم سیلز تخلیق نو کا مرحلہ تبھی شروع کر سکتا ہے جب پی کے اے جین کا بٹن سوئچڈ آف ہو۔ بنیادی طور پر روزہ اسٹیم سیلز کو OK کا سگنل بھیجتا ہے کہ وہ ری سائیکلنگ کا عمل شروع کرے اور پورے مدافعتی نظام کی مرمت کر کے اسے پھر سے نیا بنادے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں جسم کو مدافعتی نظام کے نقصان دہ، ناکارہ اور غیر فعال حصوں سے بھی چھٹکارہ مل جاتا ہے۔
امراض قلب،کینسر اور ذیابیطس سے بچاؤ
روزہ رکھنے سے دل کے امراض اور کینسر کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے امراض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔نیز جسم میں انسولین کی حساسیت بہترہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نظام ہاضمہ میں بہت بہتری پیدا ہوتی ہے اور بدن میں استحالہ (میٹابولزم) کا عمل بھی بہترہوتا ہے۔
شکاگو کی الونوا یونیورسٹی کی ڈاکٹر کرسٹا ویراڈی نے دو قسم کے موٹے مریضوں پر ایک دن کے بعد ایک دن روزہ کا فارمولا اپنایا اور اس کے اثرات کو انہوں نے اس طرح بیان کیا کہ اگر آپ اپنے روزے کے دنوں کی پابندی کریں تو آپ کو دل کی بیماریوں کا خطرہ نہیں رہتا…بہر حال انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ حاملہ عورتیں اور ذیابیطس کے مریض اس میں احتیاط رکھیں اور اعتدال سب سے اچھا راستہ ہو خواہ کھانے میں ہو یا روزہ رکھنے میں ہو۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ماہرین کے مطابق اگر ایک ماہ میں پانچ دفعہ فاقے کی کیفیت سے گزرا جائے یا خوراک میں موجود کیلوریز کی مقدار آدھی کردی جائے تو اس سے کینسر، ذیابیطس اور دیگر موذی امراض کا خطرہ کم کیا جاسکتاہے۔
ماہرین نے رضاکاروں کو تین ماہ تک اس پروگرام پرعمل کرانے کے بعد ان کا جائزہ لیا تو ان میں امراض قلب، کینسراورعمررسیدگی کے اثرات کم دیکھے گئے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام ہاضمہ کو آرام دینے سے بدن میں کئی اہم تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو کئی بیماریوں سے بچاتی ہیں۔(DAWNنیوز،VOA،BBCاردونیوز)
روزہ اور آٹو فیجی
آٹو فیجی اصل میں یونانی لفظ آٹو یعنی خود کار اور فیجی کا مطلب کھاناسے مل کر بنا ہے۔ اس کے لغوی معنی خود خوری یا خود کو کھانے کے عمل کے ہیں۔ یہ ہمارے جسم کا ایک خودحفاظتی قدرتی نظام ہے۔ جو جسم کی اندرونی صفائی اور ری سائیکلنگ کا عمل ہے۔
جاپانی ماہر حیاتیات ڈاکٹر یوشینوری(Yoshinori Ohsumi)صاحب نے آٹو فیجی کا نظریہ ۱۹۸۸ء میں دریافت کیا اورسالہا سال کی انتھک محنت کے بعد پیش کردہ نظریہ آٹوفیجی ثابت کرنےپر۲۰۱۶ء میں آپ کو طب کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ جب انسان کم از کم بارہ گھنٹہ یا اس سے زیادہ دیر تک بھوکا رہتا یا فاقہ(Fasting)کرتا ہے، تو جسم کے خلیوں میں پُراسرار تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ جب ان خلیوں کو باہر سے کوئی خوراک نہیں ملتی، تو وہ خود ہی ایسے خلیوں کو کھانا شروع کردیتے ہیں، جو گلے سڑے، خراب اور صحت کے لیے خطرے کا باعث ہوں۔ یعنی انسانی خلیات کا نظام متحرک ہونے کی صورت میں پرانے اور غیر ضروری خلیات کو ختم کرکے ایسے نئے خلیات پیدا ہوتے ہیں جو زندگی کا عمل جاری و ساری رکھنے میں مددگارثابت ہوتے ہیں۔
اسے عام فہم زبان میں (self-eating) اور سائنسی اصطلاح میں Autophagyکا نام دیا گیا ہے۔(الفضل ۱۴؍اپریل۲۰۲۲ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کم کھانا اور بھوک برداشت کرنا بھی تزکیۂ نفس کے واسطے ضروری ہے۔ اس سے کشفی طاقت بڑھتی ہے۔ انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا۔ بالکل ابدی زندگی کا خیال چھوڑد ینا اپنے اوپرقہرالٰہی کا نازل کرناہے۔ مگر روزہ دار کو خیال رکھنا چاہئے کہ روزے سے صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوکا رہے بلکہ خدا کے ذکرمیں بہت مشغول رہناچاہئے۔ بدنصیب ہے وہ شخص جس کو جسمانی روٹی ملی مگر اُس نے روحانی روٹی کی پرواہ نہیں کی۔ جسمانی روٹی سے جسم کو قوت ملتی ہے ایسا ہی روحانی روٹی روح کوقائم ر کھتی ہے اور اس سے روحانی قویٰ تیز ہوتے ہیں۔ خداسے فیضیاب ہونا چاہو کہ تمام دروازے اس کی توفیق سے کھلتے ہیں۔ (ماخوذ از تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲۰۔ ۲۱)
آج جدید طبی سائنس چودہ سو برس بعد اس حقیقت اور راز سے آشنا ہورہی ہے۔عام مشاہدہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر طبی طور پہ درست طریقے سے روزے رکھے جائیں تو انسان صرف تیس دن میں صحت کی دولت کو حاصل کر لیتا ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے جسم کے تمام اعضاء کو نیکیوں پر مامور کردیں اورکثرت کے ساتھ عبادت اور نوافل کی طرف توجہ کریں۔ ہم قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ استغفار، درود اور دیگر دعاؤں سے اپنی زبانیں تر رکھیں اورا پنے اوقات بھی خدمت دین میں صرف کرنے چاہئیں،کیونکہ یہ مہینہ جو سید الشھورہے یعنی سب مہینوں کا سردار ہے اور اس کی ایک رات ہزار راتوں سے بہتر ہےاوریہ روحانیت کا موسم بہار ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رمضان کی حقیقی روحانی و جسمانی برکات سے مستفید اور فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین