احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
کیابراہین احمدیہ مکمل کتاب ہے؟
اور کیایہ کتاب مکمل لکھی گئی؟ اور بقیہ کتاب کامسودہ کہاں ہے؟
حضرت عرفانی صاحبؓ نے اس ضمن میں جواپنامشاہدہ اور اس کے ساتھ کچھ بزرگان کی گواہی بھی شامل فرمائی ہے۔لیکن خاکسارعرض کرے گا کہ اول تو یہ براہین احمدیہ کے زمانہ کے بہت بعدکامشاہدہ ہے۔کم وبیش ۱۰/۱۵سال بعدکا۔دوم یہ کہ جس زمانے کے مشاہدہ کی بات حضرت عرفانی صاحبؓ ذکرفرمارہے ہیں اس زمانے میں بھی کئی کتب حضوراقدسؑ نے ایک دودن میں بھی تولکھی ہیں۔مثال کے طورپر
ضرورة الامام
’’یہ رسالہ جس کا نام ضرورة الامام ہے صرف ڈیڑھ دن میں طیار ہو کر مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں قیمت دو آنے محصول علاوہ جلد ۷۰۰باہتمام حکیم فضل الدین صاحب بھیروی مالک و مہتمم مطبع مطبوع ہوا۔‘‘(ضرورة الامام ٹائیٹل بار اول،روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ۴۷۱)
پیغام صلح
’’ہندوستان کے دوبڑے مذہب یعنے ہندو ایزم اور اسلام میں مصالحت کرانے کے لئے اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ المسیح الموعود و المہدی المعہود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنی زندگی کے آخری دو تین دنوں میں لکھا اورجو معزز ہندو و مسلمانوں کے ایک عظیم الشان جلسہ میں بمقام پنجاب یو نیورسٹی ہال لاہور بتاریخ ۲۱؍ماہ جون ۱۹۰۸ء پڑھا گیا۔‘‘(پیغام صلح ٹائیٹل بار اول،روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۴۳۷)
اعجاز احمدی
’’الحمد للّٰہ و المنۃ کہ ضمیمہ نزول المسیح جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار ہے حسب استدعا مولوی ثناء اللہ امرتسری کے محض پانچ دن میں ابتدا ۸؍نومبر ۱۹۰۲ء سے طیار ہو کر اس کا نام اعجاز احمدی رکھا گیا۔ ‘‘(اعجاز احمدی ٹائیٹل بار اول،روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱۰۵)
نجم الھدیٰ
’’اور میں نے اس کو جمعرات کے دن شروع کر کے جمعہ کی صبح پورا کر دیا۔‘‘ (نجم الھدیٰ صفحہ۴،روحانی خزائن جلد۱۴صفحہ۱۸)
نشان آسمانی
’’اواخر مئی ۱۸۹۲ء میں آپ نے رسالہ نشان آسمانی جس کا دوسرا نام شہادۃ الملہمین ہے تحریر فرمایا جو جون ۱۸۹۲ء میں شائع ہوا۔‘‘ (تعارف کتب،روحانی خزائن جلد ۴صفحہ xxv)
حجۃ الاسلام
’’حجۃ الاسلام اور سچائی کا اظہار مئی ۱۸۹۳ء میں تالیف فرمائی۔‘‘ (تعارف کتب،روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ v)
استفتاء
’’یہ رسالہ ۱۲؍مئی ۱۸۹۷ء کو لکھا گیا۔‘‘ (تعارف کتب،روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ v)
انوار الاسلام
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے (عبداللہ آتھم کی) ۱۵ ماہ کی میعاد گذرتے ہی ۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو رسالہ انوارالاسلام تحریر فرمایا۔‘‘(تعارف کتب،روحانی خزائن جلد ۹صفحہvi)
تویہ چندایک کتب تھیں جوایک دودن یاایک دوہفتہ میں تیارہوکرشائع بھی ہوگئیں۔
اس لیے یہ کہناکہ حضور اقدسؑ پورامسودہ تیارکیے بغیرہی کتاب پریس میں بھیجناشروع کردیتے تھے کوئی ایسی وزنی دلیل نہیں ہے۔ ہاں یہ بات ہے کہ ۱۸۹۰ء کے بعد جبکہ چاروں طرف سے قلمی محاذ کھلاہواتھااور کہیں اشتہارات،کہیں مکتوبات،کہیں زبانی وعظ ونصائح،کہیں عیسائی مخاطب،کہیں آریہ،کہیں مخالف مسلمان۔تویہاں آپؑ کےقلم کے جوہراس طرح سے سامنے آئے کہ بیک وقت ان سب کوجواب دیے جارہے ہیں اور کتابیں تیارہورہی ہیں۔اوریہ بھی خواہش ہے کہ دِنوں میں کتاب شائع بھی ہوجائے اس لیے آپؑ کے جاںنثارصحابہ ؓبھی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اشاروں کے منتظررہتے۔حضورؑ قلم برداشتہ لکھ رہے ہیں۔ایک کاتب بیٹھا خوش خط لکھ دیتاہے۔کاپی تیارہوتی ہےپروف ہوتاہے اور کبھی اگلے ہی دن اور کبھی ایک ہفتہ بعد اورکبھی دوہفتہ بعدکتاب تیارہوکرشائع بھی ہوجاتی ہے۔ اورکبھی تو پریس سے نامکمل کتاب بھی دوستوں کوبھیج دی جاتی۔تویہ سب امورضرورت کے مطابق تھے نہ کہ عادت اور طریق ہی یہ تھا۔ لیکن جیساکہ آگے چل کرہم کچھ مزیداقتباسات پڑھیں گے کہ براہین احمدیہ کی کتاب اس کیفیت سے الگ تھی۔اس لیے اس کو بعدکے زمانے میں تیارہونے والی کتب پرقیاس نہیں کرناچاہیے۔
دوسری دلیل میں براہین احمدیہ حصہ پنجم کامتن اس بارے میں دلیل نہیں بن سکتاکہ تب تک براہین احمدیہ کی اس پرانی ترتیب اوراس کی اشاعت کا منصوبہ سب ختم ہوچکاتھا۔جیساکہ براہین احمدیہ حصہ چہارم کے آخری صفحات اور پھربعدکے سالوں میں دیگردرجنوں کتب کی اشاعت سے ظاہرہوچکاتھا۔
تیسرا امربطوردلیل کے حضورؑ کی براہین احمدیہ جلداول میں لکھی جانے والی یہ تحریرپیش کی گئی ہے کہ’’ کتاب ہذا بڑی مبسوط کتاب ہے یہاں تک کہ جس کی ضخامت سو جزو سے کچھ زیادہ ہوگی اور تا اختتام وقتاً فوقتاً حواشی لکھنے سے اور بھی بڑھ جائیگی۔‘‘ (براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد اول صفحہ۲)
خاکسارکے نزدیک یہ دلیل نہیں بنتی کیونکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتاہے کہ حواشی بعدمیں لکھے جاسکتے ہیں اور لکھے جائیں گے۔ امرزیربحث حواشی کانہیں ہے بلکہ کتاب کے متن کاہے۔ اسی طرح جوبطورمثال کے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں وہ حواشی کے سلسلہ میں ہیں۔حواشی توزیربحث ہی نہیں بلکہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ خودرقم فرماتے ہیں کہ’’آپؑ کا پکا ارادہ تھا کہ جب اس کے شائع ہونے کا انتظام ہو تو کتاب کو ساتھ ساتھ اور زیادہ مکمل فرماتے جاویں اور اس کے شروع میں ایک مقدمہ لگائیں اور بعض اور تمہیدی باتیں لکھیں اور ساتھ ساتھ ضروری حواشی بھی زائد کرتے جاویں چنانچہ اب جو براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع شدہ موجود ہیں ان کا مقدمہ اور حواشی وغیرہ سب دوران اشاعت کے زمانہ کے ہیں اور اس میں اصل ابتدائی تصنیف کا حصہ بہت ہی تھوڑا آیا ہے یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۲۳)
لیکن حضرت عرفانی صاحبؓ کی اس ساری بحث کے ساتھ ان کے یہ فقرات بہت پُرلطف ہیں جن میں آپؓ اپنی رائے اور تحقیقات درج فرماتے ہیں :’’ بظاہر اس میں اختلاف نظر آتا ہے مگر بالآخر میں نے بتا دیا ہے کہ میری اور صاحبزادہ صاحبؓ کی تحقیقات ایک نقطہ پر آٹھہرتی ہے۔‘‘اسی طرح کچھ آگے چل کرپھرلکھتے ہیں کہ ’’بااین اگر براہین احمدیہ کا مسودہ مکمل آپ نے پہلے لکھ دیا جو بعد میں کسی وجہ سے جل گیا تو اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں۔‘‘(حیات احمدجلددوم صفحہ۳۱-۳۲)
یہ توحیات احمدؑ جلددوم حصہ اول میں درج حضرت عرفانی صاحبؓ کی تحقیقات تھیں اور اس پرکچھ گزارشات! اب خاکساروہ تحقیق پیش خدمت کرنا چاہتا ہے کہ جو حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کی تحقیقات کوہی آگے بڑھانے والی ا وراس کی تائیدمیں مزیددلائل وبراہین ہوں گے۔
بہرحال خاکسار نے اپنے ان بزرگوں کی کتب کودیکھا، پڑھا اوراسی پہلو سے حضرت اقدسؑ کے اشتہارات،مکتوبات اوربراہین احمدیہ کامطالعہ کیا تو خاکسار کی رائے بھی اسی نکتہ پر ٹھہری کہ حضرت اقدسؑ براہین احمدیہ مکمل تصنیف فرماچکے تھے اوروہ مسودہ کم وبیش ۴۸۰۰؍ صفحات پر مشتمل تھا جو کہ ایک صندوق میں محفوظ رکھاہواتھا۔
قبل اس کے کہ اس کے متعلق تفصیلی بحث کی جائے یہاں یہ ذکر بھی کرناضروری ہے کہ خاکسارکی خوش نصیبی ہے کہ خاکسار کو حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ کے ایک صاحبزادے کی ایک لمباعرصہ صحبت میسرآئی یہ عرصہ کم وبیش،یہ صفحات لکھنے تک،اٹھائیس سال کا عرصہ ہوتاہے اوراللہ کا فضل ہے اوراس فضل اورنعمت پر جتنا بھی شکر کیاجائے کم ہے کہ محترم حضرت میر صاحب کی مسلسل بزرگانہ شفقت رہی اورہرطرح کی علمی بلکہ ذاتی راہنمائی بھی میسررہی۔سیرت النبیﷺ [خاکساراس موضوع پربھی ایک کتاب لکھ رہاہے] اورسیرت حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے متعلق ہربات جو ذہن میں آتی خاکسار ان کی خدمت میں حاضرہوجاتا، گھرہویا دفتر،سفرہویا حضر،آپ سے تفصیلی بحث ہوتی،تبادلۂ خیالات ہوتا اورحضرت میرصاحب بڑی فیاضی کے ساتھ اپنی وقیع رائے سے نوازتے،راہنمائی فرماتے۔ براہین احمدیہ کے مکمل تصنیف کیے جانے کے متعلق بھی متعدد مرتبہ گفت وشنید ہوتی رہی اورجو پوائنٹ بھی ملتا اوردلیل نظرآتی وہ پیش کرتا توخاکسارنے دیکھا کہ حضرت میرصاحب بھی اس یقین پر قائم تھے کہ حضرت اقدسؑ یہ تمام مسودہ تیارفرماچکے تھے۔بلکہ بڑے اشتیاق اورجوش وجذبہ سے ایک دو بارفرمایا کہ ….قادیان جائیں گے تو میں آپ کو وہ دیواردکھاؤں گا کہ میراتودل کہتا ہے کہ اسے اگر گرایاجائے تو کیامعلوم کہ اس کے پیچھے سے مسودات مل جائیں جن میں براہین احمدیہ کا بھی پورامسودہ ہو۔نہ جانے کوئی غیبی اشارہ تھا یا حضرت اقدسؑ سے حددرجہ کی محبت واشتیاق کا عالم تھا لیکن وہ کہایہی کرتے تھے۔ہاں ایک بار ایسا بھی ہواکہ قادیان میں ہی ان سے عرض کیا گیا کہ میرصاحب !وہ دیوار کہاں ہوگی!! مسکراکے ٹال گئے اورفرمانے لگے کہ میں نے حضرت میاں وسیم احمدصاحب سے بات کی ہے وہ میراخیال ہی تھا اورحسب عادت طُرح دے گئے۔