یُحِبُّ اللّٰہُ اَمْ لَا یُحِبُّ قرآن کریم میں بیان فرمودہ اللہ تعالیٰ کی پسند اور ناپسند سے آگاہی
انسان کی تخلیق کا مقصد جہاں خدا تعالیٰ کی عبادت کو ٹھہرایا ہے وہیں اس عبادت کا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا اور محبت کا حصول ہے۔ ہم اس وقت رمضان کے مہینہ سے گزر رہے ہیں جس میں قرآن کریم کے نزول کے آغاز و اختتام، صیام کی فرضیت اور لیلة القدر کے ظہور نے اس مہینہ کو بابرکت بنا دیا ہے۔ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی پسند اور ناپسند سے کھلے طور پر آگاہ فرمایا ہے۔ اور مومنین کے ایمان کی حالتوں سے پسندیدگی اور غیر مومن اور کافروں کی بد حالتوں کا ذکر کر کے ان سے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ ان آیات کے سیاق و سباق میں جائے بغیر صرف ان حالتوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ رمضان المبارک کے دونوں مقاصد ایمان اور احتساب پر عمل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے حصول کے لیے قرآن کریم میں اصول بیان کر دیا ہے کہ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔(آل عمران: ۳۲)تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
یُحِبُّ
اس اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذیل کی آیات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے محبت کے معیار اور کیا ہیں۔ ذیل میں وہ آیات درج ہیں جن میں یُحِبُّکے صیغہ سے خدا تعالیٰ کی پسندیدہ شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَیُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ۔ (البقرة: ۲۲۳)یقیناً اللہ کثرت سے توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے (بھی) محبت کرتا ہے۔(تفسیر صغیر) اللہ ان سے جو اس کی طرف باربار رجوع کرتے ہیں یقیناً محبت کرتا ہے اور (ظاہری و باطنی) صفائی رکھنے والوں سے (بھی یقیناً) محبت کرتا ہے۔
٭…فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ (آل عمران: ۷۷) (التوبہ:۴) اللہ متقیوں سے محبت کرنے والا ہے۔
٭…وَاللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (آل عمران: ۱۳۵، ۱۴۹)(المائدہ:۹۴) (المائدہ:۱۴)اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (تفسیر صغیر) اور اللہ محسنوں سے محبت کرتا ہے۔
٭…وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیۡنَ (آل عمران: ۱۴۷)اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ(آل عمران:۱۶۰)یقیناً اللہ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ (المائدہ:۴۳)(الحجرات:۱۰) (الممتحنہ:۹) یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
٭…وَاللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُطَّہِّرِیۡنَ (التوبہ:۱۰۸)اور اللہ پاک بننے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (تفسیر صغیر) اور اللہ کامل پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ(الصف:۵)یقیناً اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر قتال کرتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
ان آیات میں جن میں واضح محبت کا لفظ موجود ہے، ان کے مطابق اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے مطیع، متطہر، متقی، محسن، صابر، متوکل، انصاف کرنے والے، مطہریعنی پاکبازاور قتال کرنے والے سے محبت کرتا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ بھی فرمائی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے دین سے بے رغبت ہوگا اور اسے چھوڑ دے گا تو جیسے اس کے دل سے خدا کی محبت ختم ہوتی ہےتو خدا تعالیٰ بھی اس کی محبت کو ختم کر دے گا اور ایک اور بہتر قوم کو لے آئے گا جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی ہوگی۔ اور یہاں اور بھی خصوصیات بیان کیں کہ وہ خدا سے محبت رکھتے ہیں، مومنین پر مہربان، کافروں پر سخت، جہاد کرنے والے اورکسی ملامت کا خوف نہیں رکھتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔ (المائدہ:۵۵) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو ضرور اللہ (اس کے بدلے) ایک ایسی قوم لے آئے گاجس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ اُس سے محبت کرتے ہوں۔ مومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے (اور) کافروں پر بہت سخت۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہ رکھتے ہوں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔(تفسیر صغیر)
اے ایماندارو! تم میں سے جو (شخص) اپنے دین سے پھر جائے تو (وہ یاد رکھے) اللہ (اس کی جگہ) جلد (ہی) ایک ایسی قوم لے آئے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ جو مومنوں پر شفقت کرنے والے ہوں گے اور کافروں کے مقابلہ پر سخت،وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے پسند کرتا ہے (یہ فضل اسے) دے دیتا ہے اور اللہ وسعت بخشنے والا (اور) بہت جاننے والا ہے۔
اگر قرآن کریم کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو ایسی کئی آیات سے اور بھی صفات اخذ کی جاسکتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کن صفات کو پسند کرتا ہے۔ اور کن کو نہیں۔
لَا یُحِبُّ
ایسا ہی قرآن کریم میں علاوہ ان امور کے جنہیں نواہی میں شمار کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ اور حرام قرار پاتے ہیں، واضح طور پر درج ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قسم کے لوگوں کو ناپسند کرتا ہے۔ذیل میں وہ آیات در ج ہیں جن میں لَا یُحِبُّ کہہ کر ناپسندیدہ شخصیات کا ذکر کیا گیاہے۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ (البقرة:۱۹۱)یقیناً اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
(اور یاد رکھو) اللہ زیادتی کرنے والوں سے ہر گز محبت نہیں کرتا۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ(المائدہ:۸۸) اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ (الاعراف:۵۶) یقیناً اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اللہ (مقررہ) حدود سے آگے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
٭…وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡفَسَادَ (البقرة:۲۰۶)اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
٭…وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡمٍ (البقرة:۲۷۷)اور اللہ ہر سخت ناشکرے (اور) بہت گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔
اللہ ہر بڑے کافر (اور) بڑے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔
٭…فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ (آل عمران :۳۳)(یاد رکھو کہ) اللہ کافروں سے ہر گز محبت نہیں کرتا۔
٭…اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ (الروم: ۴۶)یقیناً وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
یقیناً منکروں سے محبت نہیں کرتا۔
٭…وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ (آل عمران : ۵۸) (آل عمران: ۱۴۱)اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ خَوَّانًا اَثِیۡمًا (النساء:۱۰۸)یقیناً اللہ سخت خیانت کرنے والے گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔
جو (لوگ) خیانت میں بڑھے ہوئے اور بہت گنہگار ہوں اللہ انہیں پسند نہیں کرتا۔
٭…لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا (النساء: ۱۴۹)اللہ سرِ عام بُری بات کہنے کو پسند نہیں کرتا مگر وہ مستثنیٰ ہے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
اللہ بری بات کے اظہار کو پسند نہیں کرتا۔ ہاں مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو (وہ اس ظلم کا اظہار کر سکتا ہے) اور اللہ بہت سننے والا (اور) خوب جاننے والا ہے۔
٭…وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡمُفۡسِدِیۡنَ(المائدہ:۶۵) اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُفۡسِدِیۡنَ (القصص:۷۸)اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
٭…اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ۔(الانعام:۱۴۲) (الاعراف:۳۲) یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (تفسیر صغیر)
وہ اسراف سے کام لینے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡخَآئِنِیۡنَ (الانفال:۵۹)اللہ خیانت کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
٭…اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡتَکۡبِرِیۡنَ (النحل:۲۴)یقیناً وہ استکبار کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
وہ تکبر کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوۡرٍ (الحج:۳۹)یقیناً اللہ کسی خیانت کرنے والے ناشکرے کو پسند نہیں کرتا۔ (تفسیر صغیر) اللہ یقیناً ہر خیانت کرنے والے (اور) انکار کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡفَرِحِیۡنَ (القصص:۷۷)یقیناً اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اللہ فخر کرنے والوں کو یقیناً پسند نہیں کرتا۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَاً (النساء:۳۷)یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔ (تفسیر صغیر)
(اور) جو متکبر اور اترانے والے ہوں انہیں اللہ ہرگز پسند نہیں کرتا۔
٭…اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ (لقمان: ۱۹)اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور) فخرومباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (تفسیر صغیر) اللہ یقیناً ہر شیخی کرنے والے اور فخر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا۔
٭…وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِ (الحدید:۲۴)اور اللہ کسی تکبر کرنے والے، بڑھ بڑھ کر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (تفسیر صغیر)
اللہ ہر شیخی خورے اکڑ باز کو پسند نہیں کرتا۔
٭…اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ(الشوریٰ: ۴۱)یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
پس مذکورہ بالا صفات کے حامل لوگ خدا تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ قرار پاتے ہیں۔ لیکن فیّاض اور توّاب خدا کا دروازہ ہر مضلّ، ضالّ حتی کہ راندۂ دَرگاہ کے لیے بھی کھلا ہے۔ گناہ سے توبہ خدا تعالیٰ کو پسند ہے اور انسان کی فطرت میں احساس کا مادہ ودیعت کیا گیا ہے۔ انسان ان برائیوں اور ان کے خطرات کو بھانپ کر اپنے ظلم و تعدی اور زیادتیوں کی معافی کے لیے سچے دل سے خداتعالیٰ کے حضور جھکے تو رحمٰن و رحیم خدا توبہ قبول کرتا چلا جاتا ہے۔ مضمون کے آخر پر ایک اور آیت پیش ہے۔
وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَکَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَالۡفُسُوۡقَ وَالۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ۔(الحجرات :۸)اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول موجود ہے۔ اگر وہ تمہاری اکثر باتیں مان لے تو تم ضرور تکلیف میں مبتلا ہوجاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے اور تمہارے لئے کفر اور بداعمالی اور نافرمانی سے سخت کراہت پیدا کردی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں۔ (تفسیر صغیر)
اور جان لو کہ اس وقت اللہ کا رسول تم میں موجود ہےاگر اکثر امور میں وہ تمہاری بات مان لیا کرے تو تم تکلیف میں پڑ جاؤ لیکن اللہ نے تمہاری نگاہ میں ایمان کو پیارا بنایا ہے اور تمہارے دلوں میں اس کو خوبصورت کرکے دکھایا ہے اور تمہاری نگاہ میں کفر اور اطاعت سے نکل جانے اور نافرمانی کرنے کو ناپسندیدہ کرکے دکھایا ہے (جو لوگ اس آیت کے مصداق ہیں) وہی لوگ سیدھے راستہ پر ہیں۔
اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو پیارا بنایا ہے اور اس کی محبت کو ہمارے دلوں میں سجا کر ودیعت کردی ہے۔ اور انکار، اطاعت نہ کرنے اورنافرمانی سے نفرت فطرت میں ڈالی گئی ہے۔ لیکن اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے۔ جو اس سے فائدہ اٹھائیں گے وہی راشد یعنی ہدایت یافتہ ہوں گے۔
اللہ کرے کہ ہم اس رمضان میں خدا تعالیٰ کے حضور پسندیدہ امور کو اپنانے والے ہوں اور ان کاموں سے جو ناپسندیدہ ہیں بچنے والے ہوں۔ آمین
(نوٹ: تفسیر صغیر اور ترجمة القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے تراجم جن میں الفاظ کا واضح فرق ہے دونوں درج کیے گئے ہیں۔ورنہ کسی ایک سے ترجمہ ماخوذ ہے۔)