بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۷۴)
٭…کیا ملائکہ آسمان پر اپنے مقررہ مقام چھوڑتے ہیں؟
٭…بہت سے احمدی وفات شدگان کے نام پر تحریک جدید، وقف جدید یا دیگر مالی تحریکات میں چندہ دیتے ہیں۔ اس کی شرعی حیثیت کیاہے؟
سوال: پاکستان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے کہ’’ملائکہ آسمان میں اپنا مقررہ مقام نہیں چھوڑتے۔‘‘جبکہ احادیث مبارکہ میں صبح شام ملائکہ کے زمین پر نزول کا ذکر ہے۔ اس اشکال کو کیسے رفع کیا جائے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍جنوری ۲۰۲۳ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب: ملائکہ کے آسمان پر اپنا مقررہ مقام نہ چھوڑنے اور اس کے ساتھ ساتھ ملائکہ کے زمین پر نزول کرنے اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو نیکی کی تحریک کرنے کے مسئلہ کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مختلف تصانیف میں بیان فرمائی ہے۔
آئینہ کمالات اسلام جس کے حوالہ سے آپ نے سوال کیا ہے،اس میں بھی حضور علیہ السلام نے اپنے ہم عصر علماءمولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی نذیر حسین دہلوی کے اس عقیدہ کہ ملائکہ اپنے اصلی وجود کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور اپنے اصلی وجود کے ساتھ ہی آسمان پر چڑھتے ہیں کاردّ کرتے ہوئے اس مسئلہ کو خوب وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ جس میں آپ کے سوال کا جواب بھی موجود ہے، شاید آپ نے اس پر غور نہیں کیا۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ اعتراض درحقیقت اُن کے عقیدہ مذکورہ بالا سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف تو یہ لوگ بموجب آیت وَمَا مِنَّاۤ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعۡلُوۡمٌ(الصافات:۱۶۵)یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت جبرائیل اور عزرائیل یعنی ملک الموت کا مقام آسمان پر مقرر ہے جس مقام سے وہ نہ ایک بالشت نیچے اُتر سکتے ہیں نہ ایک بالشت اُوپر چڑھ سکتے ہیں اور پھر باوجود اس کے اُن کا زمین پراپنے اصلی وجود کے ساتھ آنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں اور ایسا ہی پھر آسمان پر اُن کا اپنے اصلی وجود کے ساتھ چڑھ جانا بھی اپنے زعم میں یقینی اعتقاد رکھتے ہیں اور اگر کوئی اصلی وجود کے ساتھ اترنے یا چڑھنے سے انکار کرے تو وہ اُن کے نزدیک کافر ہے ان عجیب مسلمانوں کے عقیدہ کو یہ بلا لازم پڑی ہوئی ہے کہ وہ اعتدالی نظام جس کا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں یعنی بد قرین کے مقابل پر نیک قرین کا دائمی طور پر انسان کے ساتھ رہنا ایسے اعتقاد سے بالکل درہم برہم ہو جاتا ہے اور صرف شیطان ہی دائمی مصاحب انسان کا رہ جاتا ہے کیونکہ اگر فرشتہ روح القدس کسی پر مسافر کی طرح نازل بھی ہوا تو بموجب ان کے عقیدہ کے ایک دم یا کسی اور بہت تھوڑے عرصہ کے لیے آیا اور پھر اپنے اصلی وطن آسمان کی طرف پرواز کر گیا اور انسان کو گو وہ کیسا ہی نیک ہو شیطان کی صحبت میں چھوڑ گیا۔ کیا یہ ایسا اعتقاد نہیں جس سے اِسلام کو سخت دھبہ لگے کیا خداوند کریم و رحیم کی نسبت یہ تجویز کرنا جائز ہے کہ وہ انسان کی تباہی کو بہ نسبت اُس کے ہدایت پانے کے زیادہ چاہتا ہے نعوذ باللہ ہرگز نہیں نابینا آدمی قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھتا نہیں اس لئے اپنی نادانی کا الزام اس پر لگا دیتا ہے۔ یہ تمام بلائیں جن سے نکلنا کسی طور سے ان علماء کے لیے ممکن نہیں اسی وجہ سے ان کو پیش آ گئیں کہ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ملایک اپنے اصلی وجود کے ساتھ زمین پر نازل ہوتے ہیں اور پھر یہ بھی ضروری عقیدہ تھا کہ وہ بلا توقف آسمان پر چڑھ بھی جاتے ہیں۔ اِن دونوں غلط عقیدوں کے لحاظ سے یہ لوگ اِس شکنجہ میں آ گئے کہ اپنے لئے یہ تیسرا عقیدہ بھی تراش لیا کہ بئس القرین کے مقابل پر کوئی ایسا نعم القرین انسان کو نہیں دیا گیا جو ہر وقت اس کے ساتھ ہی رہے۔ پس اِس عقیدہ کے تراشنے سے قرآنی تعلیم پر اُنہوں نے سخت تہمت لگائی اور بد اندیش مخالفوں کوحملہ کرنے کا موقعہ دے دیا۔ اگر یہ لوگ اِس بات کو قبول کر لیتے کہ کوئی فرشتہ بذاتِ خود ہرگزنازل نہیں ہوتا بلکہ اپنے ظلّی وجود سے نازل ہوتا ہے جس کے تمثّل کی اس کو طاقت دی گئی ہے جیسا کہ دحیہ کلبی کی شکل پر حضرت جبرائیل متمثل ہو کر ظاہر ہوتے تھے اور جیسا کہ حضرت مریم کے لیے فرشتہ متمثل ہوا تو کوئی اعتراض پیدا نہ ہوتا اور دوام نعم القرین پر کوئی شخص جرح نہ کر سکتا اور تعجب تو یہ ہے کہ ایسا خیال کرنے میں قرآنِ کریم اور احادیث صحیحہ سے بالکل یہ لوگ مخالف ہیں قرآن کریم ایک طرف تو ملایک کے قرار اور اثبات کی جگہ آسمان کو قرار دے رہا ہے اور ایک طرف یہ بھی بڑے زور سے بیان فرما رہا ہے کہ روح القدس کامل مومنوں کو تائید کے لیے دائمی طور پر عطا کیا جاتا ہے اوراُن سے الگ نہیں ہوتا گو ہر یک شخص اپنے فطرتی نور کی وجہ سے کچھ نہ کچھ روح القدس کی چمک اپنے اندر رکھتا ہے مگر وہ چمک عام لوگوں میں شیطانی ظلمت کے نیچے آ جاتی اورایسی دب جاتی ہے کہ گویا اُس کا کچھ بھی وجود نہیں۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵صفحہ ۹۳تا ۹۷)
اپنی عربی تصنیف حمامۃ البشریٰ میں ملائکہ کے آسمان پر اپنے مقررہ مقام پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے اذن سے دنیا میں نزول کرنے کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:ہم قرآن کریم میں ایک بھی آیت ایسی نہیں پاتےجو اس با ت کی طرف اشارہ کرتی ہوکہ فرشتے اپنے مقامات کو کسی وقت چھوڑ دیتے ہیں بلکہ قرآن کریم اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ وہ ان مقامات کو جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم کیا ہے نہیں چھوڑتےاور اس کے باوجودوہ زمین پر اترتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے زمین والوں سے ملاقات کرتے ہیں اور مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ کبھی تو وہ انبیاء کے لیے بنی آدم کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی وہ نور کی طرح نظر آتے ہیں اور کبھی ان کو اہل کشف بچوں اور بے ریش نوجوانوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے زمین میں ان کے اصلی وجودوں کے علاوہ نئے وجود اپنی لطیف اور محیط قدرت سے پیدا کردیتا ہےاور اس کے ساتھ ہی آسمانوں میں بھی ان کے اجسام ہوتے ہیں اور وہ ان سماوی اجسام سے علیحدہ نہیں ہوتےاور اپنے مقامات سے نہیں ہٹتےاور انبیاء پر اور دوسرے سب لوگوں کی طرف جن کی طرف وہ بھیجے جاتے ہیں، نازل ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے اصل مقامات کو نہیں چھوڑتے اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے۔ (ترجمہ از عربی عبارت حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد ۷صفحہ۲۷۳)
پس خلاصہ کلام یہ کہ ملائکہ اپنے اصل وجود کے ساتھ آسمان پر اپنے مقررہ مقام پر بھی قائم رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بنا پر اور اسی کے اذن سے اپنے ظلی وجودوں کے ساتھ دنیا میں بھی نازل ہوتے ہیں۔
سوال: پاکستان سے ہی ایک اَور دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ بہت سے احمدی احباب تحریک جدید اور وقف جدید کی مد میں آنحضرتﷺ کے نام پر،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر یا وفات شدگان کے نام پر مالی چندہ دیتے ہیں تو اس مالی چندہ کی شرعی حیثیت کیاہے؟ یہ بھی ویسا ہی نہیں ہے جس طرح غیر احمدی اپنے مرحومین کو ثواب پہنچانے کے لیے نذرو نیاز اور صدقہ کرتے ہیں، دیگیں چڑھاتے ہیں، فاتحہ خوانی کرتے ہیں، چالیسواں مناتے ہیں، عرس مناتے ہیں۔ یعنی جب متوفیٰ کا عمل ہی ختم ہو گیا، اعمال نامہ ہی بند ہو گیا اور مزید نیک عمل ممکن ہی نہیں تو ورثاء کا ان کے نام پر دیا گیا مالی چندہ کیسے فائدہ پہنچائے گا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍جنوری ۲۰۲۳ء میں ان امور کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَاۤ اٰتٰٮکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ وَمَا نَہٰٮکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا(الحشر:۸)یعنی یہ رسول جو کچھ تمہیں علم و معرفت عطا کرے وہ لے لو اور جس سے منع کرے وہ چھوڑ دو۔
جہاں تک وفات شدگان کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنے اور دینی مالی تحریکات میں ان کی طرف سے حصہ لینے کا تعلق ہے تو یہ امر آنحضورﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے کئی صحابہ کو ان کے پیاروں کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنے اور بعض ایسی نیکیاں بجالانے کی اجازت عطا فرمائی جن کا وہ وفات یافتگان اپنی زندگی میں ارادہ کر چکے تھے، لیکن کسی مجبوری کی بنا پر اسے بجا نہ لا سکے۔
لہٰذا وفات یافتگان کی طرف سے بعض نیکیاں بجالانے پر وفات کے بعد بھی ان فوت شدہ لوگوں کو ثواب پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب انسان مر جاتا ہے تو تین چیزوں کے علاوہ اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے ایک صدقہ جاریہ ۔ دوسرا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ اور تیسرا نیک بخت اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔ (صحیح مسلم کتاب الوصیۃ بَاب مَا يَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنْ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ)
اسی طرح حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ سات چیزیں ایسی ہیں جن کا اجر بندہ کے لیے جاری رہتا ہے اس حال میں کہ وہ مرنے کے بعد اپنی قبر میں ہوتا ہے۔ جس نے علم سکھایا یا نہر کھدوائی یا کنواں کھدوا یا یاکھجور کا درخت لگایا یا مسجد تعمیر کی یا قرآن شریف ترکہ میں چھوڑا یا ایسی اولاد چھوڑی جو اس کی وفات کے بعد اس کے لیے استغفار کرے۔ (شعب الایمان للبیہقی، الاختيار في صدقة التطوع باب سبعة يجري للعبد أجرهن وهو في قبره بعد موته)
کسی فوت شدہ عزیز کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنے کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ کی والدہ کا انتقال ہوا جبکہ وہ ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور میں اس وقت موجود نہیں تھا۔ اگر میں ان کی طرف سے کوئی چیز خیرات کروں تو کیا انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ ہاں!اس پر حضرت سعدؓ نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ میری والدہ کی طرف سے خیرات ہے۔(صحیح بخاری کتاب الوصایا بَاب إِذَا قَالَ أَرْضِي أَوْ بُسْتَانِي صَدَقَةٌ لِلّٰهِ عَنْ أُمِّي فَهُوَ جَائِزٌ وَإِنْ لَمْ يُبَيِّنْ لِمَنْ ذَالِكَ)
علاوہ ازیں بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ حضورﷺ نے سوال کرنے والے کو اس کے وفات یافتہ عزیز کی طرف سے حج کرنے کا اور روزے رکھنے کا بھی ارشاد فرمایا۔ (صحیح بخاری کتاب الحج بَاب الْحَجِّ وَالنُّذُورِ عَنْ الْمَيِّتِ وَالرَّجُلُ يَحُجُّ عَنْ الْمَرْأَةِ۔ کتاب الایمان والنذور بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ نَذْرٌ۔صحیح مسلم کتاب الصیام بَاب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنْ الْمَيِّتِ)
وفات یافتگان کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:میّت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتا ہے۔ لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریمﷺ اور صحابہؓ سے ثابت نہیں ہے۔ اس کی بجائے دعا ہے جو میّت کے حق میں کرنی چاہئے۔ میّت کے حق میں صدقہ خیرات اور دعا کا کرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے۔ لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگا دیتاہے۔(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ۴۰۵۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فوت شدہ افراد کی طرف سے نیک اعمال بجا لانے کے بارے میں فرماتے ہیں:انسان کو چاہیے کہ اپنے ماں باپ (یہ بھی میں نے اپنے ملک کی زبان کے مطابق کہدیا۔ ورنہ باپ کاحق اوّل ہے اس لئے باپ ماں کہنا چاہیے) سے بہت ہی نیک سلوک کرے۔ تم میں سے جس کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خدمت کرے اور جس کے ایک یا دونوں وفات پا گئے ہیں وہ ان کے لیے دعا کرے۔ صدقہ دے اور خیرات کرے۔
ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مردہ کو کوئی ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا۔ وہ جھوٹے ہیں۔ ان کو غلطی لگی ہے۔ میرے نزدیک دعا ،استغفار، صدقہ، خیرات بلکہ حج، زکوٰۃ، روزے یہ سب کچھ پہنچتا ہے۔ میرا یہی عقیدہ ہے اور بڑا مضبوط عقیدہ ہے۔(اخبار الفضل قادیان دارالامان جلد۱، نمبر۲۵، مورخہ ۳؍دسمبر۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵)
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد ان کی طرف سے قربانی کیاکرتے تھے اور چندہ بھی دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں:’’حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات پر ۴۲سال کا عرصہ گزر چکا ہےمگر میں ہر قربانی کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔تحریک جدید ۱۹۳۴ءسے شروع ہے اور اب ۱۹۵۶ءہے۔ گویا اس پر ۲۲سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔شاید حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اولاد خود بھی اس میں حصہ نہ لیتی ہو لیکن میں ہر سال آپ کی طرف سے چندہ دیتا ہوں تا کہ آپ کی روح کو بھی اس کا ثواب پہنچے۔پھر جب میں حج پر گیا تو اس وقت بھی میں نے آپ کی طرف سےقربانی کی تھی اور اب تک ہر عیدکے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا چلا آیا ہوں۔(مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع۱۹۵۶ء میں خطابات،انوار العلوم جلد ۲۵ صفحہ ۴۶۸)
اس مسئلہ کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف یہ ہے کہ فوت شدہ کی طرف سے چندہ دیا جاسکتا ہے اور ایسی نیکیاں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہےوفات کے بعد بھی ان کو کرنے سے وفات یافتہ کو ان کا فائدہ پہنچتا ہے۔ چنانچہ ایک سوال کے جواب میں آپؒ فرماتے ہیں:کسی مرنے والے کی وہ نیکیاں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہےان کی ادائیگی جاری رکھی جا سکتی ہے۔وہ نیکیاں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہےوہ منقطع ہو جاتی ہیں۔جس شخص نے اللہ سے جتنا تعلق رکھااس کا حساب مرنے کے ساتھ بند ہے اور وہ نیکیاں جو عوام الناس کو فائدہ پہنچانے کے لیے وہ کیا کرتا تھا وہ جاری رہتی ہیں۔ اس لئے اس کے نام پر صدقہ جاریہ دینا، اس کے نام پر اگر وہ خدمت دین کیا کرتا تھا،وہ بھی بنی نوع انسان کے فائدہ سے تعلق رکھنے والا معاملہ ہے، چندے دیتا تھاان کو جاری رکھنا،تو دراصل وہ بعض ایسے بارڈر لائن ہیں جو حقوق اللہ لگتے ہیں لیکن دراصل حقوق العباد سے بڑا گہرا تعلق ہے۔اس لئے چندوں کو بھی جماعت احمدیہ کے مسلک کے مطابق انہیں چیزوں میں شامل کر لیا گیا ہے جوانفاق فی سبیل اللہ ہیں اور براہ راست حقوق اللہ کے اندر نہیں بلکہ حقوق العباد اور ان دونوں کے درمیان آتی ہیں۔ تو صدقہ خیرات ہے۔ لیکن کوئی ایسی نیکی اس کی طرف سے نہیں کی جا سکتی، کرے تو شوق سے کرے مگر اس کا فائدہ نہیں ہو گا، جس کو اس کی موت نے منقطع کیا ہو اور وہ خود(نہ۔ناقل) کرتا رہا ہو۔ ایک آدمی غریبوں کا ہمدرد نہیں ہے، ان کے اموال لوٹتا رہا ہے اور مرنے کے بعد آپ اس کی طرف سےغریبوں کی خدمت شروع کر دیں تووہ آپ کی خدمت ہے ، جو کرنے والا ہے اس کے کھاتہ میں جائے گا لیکن اُس(مرنے والے۔ ناقل) کے کھاتہ میں نہیں جائے گا۔اس لئے بنیادی اصول یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص خدمت خلق کرتا کرتا فوت ہو جائے اوراس کی تمنائیں آگے بڑھی ہوں اور موت اسے قطع کردے، ان کو جاری کرنا یہ سنت ابرار ہے، یہ ثابت ہے کہ ان کی نیکیوں کا فائدہ ان کو پہنچے گا۔ اور بعض دفعہ ان کی اطلاع بھی اللہ تعالیٰ ان کو دیتا ہے۔ (اردو ملاقات، سوال و جواب سیشن نمبر ۴۱، ریکارڈڈ مورخہ ۲۳؍جون ۱۹۹۵ء سوال نمبر ۱)
پس کسی وفات یافتہ کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا، چندے وغیرہ دینا یا کسی ایسی نیکی کو اس کی طرف سے بجا لانا جس کا اس نے ارادہ کیا تھا اور وہ اسے بجا لانا چاہتا تھا لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے یا موت کے آ جانے کی وجہ سے وہ اسے ادا نہ کرسکا، ایسی نیکی کو اس وفات یافتہ کی طرف سے بجا لاناجائز ہے۔ لیکن جن کاموں کو آنحضورﷺ نے نہ خود کیا اور نہ صحابہ کو کرنے کا ارشاد فرمایا، ان سے ہمیں بھی کلیۃً اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ کسی ایسے کام کوجاری کرنے کی کوشش کرنا جو قرآن، سنت اور احادیث سے ثابت نہیں، وہ بدعت کے زمرہ میں آتا ہےجس کے بارے میں حضورﷺ نے بہت سخت انذار فرمایا ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ۔(صحیح بخاری کتاب الصلح بَاب إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ)یعنی جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا نیا کام شامل کیا جو اس کا حصہ نہیں تو وہ قابل ردّ ہو گا۔