الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترمہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ امۃالکافی صاحبہ نے اپنے مشاہدات کے حوالے سے اپنی ساس محترمہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی سیرت قلمبند کی ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میری ساس کا نام محمودہ بیگم صاحبہ تھا۔ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی بیٹی تھیں،گھر میںمودیؔ کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ بچپن میں اباحضورؓ یعنی حضرت مصلح موعودؓ پیار سے اُن کو کہتے: ’’تم بھی مودی، مَیں بھی مودی،تم میٹرک پاس۔ مَیں میٹرک فیل۔‘‘ جب یہ فقرہ وہ سنتیں تو شرم سے حالت خراب ہوجاتی۔ ہمیں یہ بات بتاتے ہوئے بھی اس قدر شرمندگی اور ندامت کا احساس ہوتا تھا کہ چہرے پر سرخی چھلک جاتی تھی ۔ (دراصل یہ ایک بزرگ کا ایک بچے کے ساتھ لاڈاور پیار کا انداز ہی توتھا۔)
خالہ مودی کے بارہ میں سب سے اچھی اور سچی رائے اور دعا تو اُن کی اپنی امی کی یہ نظم ہے جو درّعدن میں شامل ہے:
’’لو جائو تم کو سایۂ رحمت نصیب ہو‘‘
اس نظم کا ہر شعر اُن کی ذات میں پورا اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے اِس دعا کا لفظ لفظ آپ کی سیرت ہوجائے۔
ہر انسان کا سب سے پہلا روپ بیٹی یا بیٹے کا ہوتا ہے۔ میںنے قریباً اٹھائیس سال اُن کے ساتھ گزارے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہوکہ اپنے ابّامیاں اورامی جان کی یاد نہ اُن کو آئی ہواورخاص طورپر ابا میاں سے تو گویا عشق تھا۔ ان کی بزرگ شخصیت اور خوبیوں میں وہ ہمیشہ رطب اللّسان رہتی تھیں۔ جب ہم نے MTA لجنہ پاکستا ن کے لیے ابتدائی چودہ ممبرات کے بارے میں پروگرام بنانے تھے تو حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے پروگرام کے لیے خالہ سے ریہرسل مجھے کروانی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مجھے سمجھانا پڑتا تھا کہ ہم بڑی اُمی کے بارے میں پروگرام بنارہے ہیں، ابّا میاں پر نہیں۔ لیکن جتنی دفعہ بھی ریہرسل کرتے ، بڑی مشکل سے خالہ کو کنٹرول کرنا پڑتا تھا کہ موضوع کے اندر رہیں اور پھر ساتھ کے ساتھ مَیں ڈانٹ بھی کھاتی جاتی تھی کیونکہ مجھے علم تھا کہ وہ بےساختہ اس عادت سے مجبور ہیں۔
بیٹی کے بعد بہن کا روپ بھی ہم نے دیکھا۔ اپنی بڑی بہنوں (حضرت سیّدہ بُو زینب بیگم صاحبہؓ اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ) اور سب بھائی (جہاں سگے سوتیلے کا کوئی تصور نہ تھا اور گھروں میںیہ الفاظ کہنے اور بولنے کی اجازت تک نہ تھی۔) سب کے لیے آپ محبت ہی محبت تھیں۔ دراصل ماں کے پیٹ سے ہی نوع انسانی کی ہمدردی، پیار اور محبت یہ سب کچھ ان کی گھٹی میں داخل تھا۔ اس لیے خواہ کوئی چالاک بن کران سے رقم یا کچھ بٹورنے کے لیے خوشامدانہ چال چلے اور اِن کو پتا بھی چل جائے لیکن محبت اور نوع انسانی کی تکلیف کااحسا س اس قدر حاوی تھا کہ فوراً لپک کر تکلیف کو دُور کرنے کی کوشش شروع کردیتی تھیں۔
آپ بہت اچھی بیوی تھیں۔ ماموں (صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمدصاحب) آپ کی بے انتہا خوبیوں کی وجہ سے بھی اپنی بیوی کے عاشق تھے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی بےحد عزت اور محبت کرتے دیکھا۔ ماموںبھی گھر کی بعض ذمہ داریوں میں بھرپور شامل تھے۔ دراصل خالہ کو لمباعرصہ ’پِتہ‘ کی تکلیف رہی جس کی وجہ سے بعض بوجھل کام وہ نہ کرسکتی تھیںورنہ پہلے وقتوں میں وہی تو سب کچھ کرتی تھیںبلکہ یہ بات ہمیشہ میں نے اُن سے سن رکھی تھی کہ جب ربوہ آباد ہوا تو یہاں آنے والا خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا پہلا گھرانہ ماموں اور خالہ ہی کا تھا۔ کچے گھروںوالے ربوہ کا ابتدائی زمانہ، وہ غربت اور تنگدستی کا زمانہ خالہ کوخوب یاد تھا اوراُس دَور کو بہت زیادہ یاد بھی کرتی تھیں۔ اگرچہ ہجرت سے قبل قادیان میں بڑے اچھے حالات تھے لیکن رتن باغ کے واقعات اور پھر ابتدائی ربوہ کے زمانے کو جب بجلی نہ تھی ، پانی کی شدید دِقت تھی اور جو پانی تھا وہ انتہائی نمکین ، کچی مٹی اور کچے گھر، سردیوں کی شدت اور گرمیوں کی تمازت۔ سب کچھ بہت اچھی طرح سے یاد تھے اور بہت یا دآتے تھے۔ اکثر بتاتیں کہ وہ دن بہت مزے کے تھے ۔ آج کا صاف ستھرا ربوہ، خوبصورت دلکش جماعتی عمارات،ا چھے گھر صاف سڑکیں اور جگہ جگہ بکھری شادابی دیکھ کر اپنے رب کریم کے اس معجزے ’ربوہ‘ کو دن بدن آباد ہوتا دیکھ کر دل بےساختہ اپنے اس عظیم محسن کی یادسے بھر جاتا ہے جس کی شبانہ روز کوششوں اور دعائوں کے طفیل ہم اس پُرامن پیاری بستی میں سکون واطمینان سے رہتے ہیںیعنی حضرت مصلح موعودؓ جو اس صحرا میں خیمہ زن ہوئے اور جن کی اُولوالعزمی نے یہ جہاں آباد کیا۔
خالہ مُودی کہا کرتی تھیں کہ زندگی کے سب رشتے (یادوں میں) وقت کے ساتھ کچھ نہ کچھ بھولتے جاتے ہیں لیکن ایک ایسی ہستی ہے جو کسی لمحے،کسی آن بھول نہیں پاتی یعنی بڑے ماموں جانؓ (حضرت مصلح موعودؓ)۔ ان کے احسانات کا بہت ہی تذکرہ کرتی رہتی تھیں اور یہی حال ماموںمنور کا بھی تھا۔ ہمیشہ بڑوں کا تذکرہ انتہائی ادب اور محبت کے ساتھ احسن پیرائے میںکیا کرتے۔
خالہ کی ایک منفرد سی خوبی کبھی کبھار عجیب بھی لگتی تھی۔ گھر چونکہ بہت بڑا تھااور بغیر ملازمین کے گزارا مشکل تھا۔ چنانچہ ملازمین کی کافی تعداد گھر میں ہوتی تھی اور ملازمین سے کچھ نہ کچھ غلط ہونا ہی ہوتا تھا۔ ماموں کو ان پر غصہ آجاتا کہ باوجود سمجھانے کے بار بار وہی غلطی کررہا ہے یا کررہی ہے لیکن ’بو مودی‘ (مالیر کوٹلہ میں بی بی کو ’بو‘ کہتے ہیں) فوراً ملازم کی حمایت کے لیے تیار۔ملازم کی صفائیاں اس قدر مہارت اور چابک دستی سے پیش کرتی تھیں کہ اندر ہی اندر دل میں سخت ہنسی آرہی ہوتی مگر چھوٹے ہونے کے ناطے ہنس نہیں سکتے ،بول نہیں سکتے۔ بس میاں بیوی کی بحث ہوئی تو ملازم کی جان چھوٹی اور معاملہ ختم۔ امن کی فضا قائم ہوجاتی مگر خالہ پر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی تھی کہ کس عمدہ طریق سے ملازمین کا دفاع کرکے حالات کو قابو میں کرلیتی تھیں۔
بحیثیت ماں آپ ایک بہت ہمدرد، شفیق اور مہربان والدہ تھیں۔ بچوںکے بغیر بتائے ان کی تکالیف کا چہروں سے اندازہ لگا کر بتاد ینے والی ماں تھیں۔ دکھ، درد تکلیف میں سب سے زیادہ احساس کرنے والی ہستی تھیں اور یہی روپ بحیثیت ساس کے اُن میں اسی طرح کا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتاجاتا ہے ،میں خود بڑی ہوتی جاتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔
بڑا بننا۔ بڑی قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ گلے شکوے نہ کرنا دوسروں کی لاپروائیوں کو درگزر کرنا ، کچھ نہ جتانا یہی سب کچھ تو بڑے پن کا مقام ہوتا ہے۔ ہرایک سے ہروقت انتہائی خندہ پیشانی سے ملنا۔ چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا اور مہما ن کی ہمیشہ خاطر مد ارات کی فکر۔ خالہ، ماموں کے ڈریسنگ روم کی ایک الماری میں ہمیشہ گولیوں(ٹافیوں) کے پیکٹ منگواکر رکھے جاتے تھے جو مہمان بچوں کو بھی دی جاتی تھیں اور اپنے گھر کے بچوں کا شام کا ٹائم FIX تھاکہ جس میں بچے کھیلنے سے پہلے آکر لے کر جاتے اور میرے بچے تو چونکہ ساتھ ہی رہتے تھے۔ اِن کے ساتھ بہت لاڈ اور پیار کا تعلق تھا۔ جہاں تربیت میں ایک ذرہ برابرکمی کوتاہی نہ کرتی تھیں وہاں لاڈپیار میں ہر طرح کے ان کے ارمان پورے کرتیں۔ ذرا کسی بچے کو بخار ہے یا طبیعت خراب ہے تو اپنے پاس بلاکر لٹا لیتیں اور سارے ناز نخرے برداشت کرتیں۔ جب میرے بچے چھوٹے تھے اور ہمارے کمرے میں ٹی وی بھی نہ تھا تو کسی شرارت پر یا پڑھائی نہ کرنے پر میری ایک ہی سزا ہوتی تھی کہ اب تم T.V دیکھنے اُمی جان کے گھر نہیں جائوگے۔ توبس اُسی دن یا چند گھنٹوں بعد مجھ سے پوچھتیں کہ’’تم یہ سز ابچوں کو نہیں بلکہ مجھے دیتی ہو۔ میرے گھر رونق نہیں رہتی۔‘‘
جب سے MTA پر لائیو خطبات کا سلسلہ شروع ہوا تو باقاعدگی سے اہتمام کرتیں۔ سموسے اور جلیبیاں منگواتیں اور چھوٹے بچے اس کے لالچ اور شوق میں باقاعدگی سے خطبہ سنتے۔ خلافت سے تعلق اور وفا تو آپ کے خون کا حصہ تھا۔ ایک مرتبہ کھانے کے میز پر کوئی بات ہورہی تھی کہ خالہ نے بےحد سرسری انداز میں کسی اَور شخص کی کوئی بات خلیفۂ وقت کے بارے میںبتائی۔ اس پر میرے میاں انتہائی غصہ کی حالت میں کہنے لگے کہ خلافت کے بارے میں کسی کی بھی کوئی بات کبھی بھی برداشت نہ کروں گا۔ میں نے دبے لفظوں میں اِن کو بتانا چاہاکہ وہ تو کسی اَور کی بات بتارہی ہیں۔ لیکن اِن کا غصہ تھم نہیں رہاتھا۔ یہ اٹھ کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد خالہ نے مجھے گلے لگاکر پیار کیا کہ آج میرے دل میں ٹھنڈ پڑگئی ہے کہ میرے بچے کے دل میں خلافت کی اس قدر محبت اور احترام ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جب منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے تو کسی نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ یہ تو آپ کی عمر کے لحاظ سے بہت ہی چھوٹے ہیں اب اِن کو خط میں کیسے مخاطب کریں گی؟ تو فرمانے لگیں کہ میں لکھوں گی: میرے پیارے سیدی بیٹے!۔
جماعت کی بےحد غیرت تھی۔ کسی نے ایک مرتبہ کسی اَور فرقے کی تنظیمی صلاحیتوں کی مبالغہ آمیز تعریف کی تو سن کر زیادہ دیربرداشت نہ کرپائیں اور بے ساختہ کہا ’’پھر جائو! تم بھی اُس میں شامل ہوجائو۔‘‘ یہ جواب اُن کے لیے اس قدر Shocking تھا کہ وہ ہکّا بکاّ خاموش ہوکر جلدی سے وہاں سے چل دیے اور دوبارہ کبھی ایسی بات نہ دہرائی۔
خالہ نے زندگی کے آخری دنوں تک اپنے کمرے کی کھڑکی سے اپنے بیٹوں اور پوتوں کو مسجد میں نمازوں کے لیے آتے جاتے دیکھ کر ہمیشہ الحمدللہ کہا اور بےحد خدا کا شکر ادا کیا کرتیں کہ بچے مسجد سے وابستہ ہیں۔
لجنہ اماءاللہ کے زیر انتظام مختلف پروگراموں میں میری ڈیوٹی کے دوران مکمل طورپر میرے بچوں اور میاں کا اِس طرح خیال رکھتیں کہ مجھے دِنوں اِن کی خبر ہی نہ ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ تربیتی کلاس کے شام کے ’’ملاقات پروگرام‘‘ میں خالہ کو ہم نے مہمان کے طورپر بلایا ہواتھا۔ ایک بچی نے اُن سے پوچھا کہ آپ کیسی سا س ہیں کہ سارا دن آپ کی بہو یہاں ہوتی ہیں اور آپ بُر ا نہیں مناتیں ؟ آپ نے یہ جواب دیا کہ ’’اگر یہ دین کی خدمت نہ کررہی ہوتی تو پھر برا محسوس کرتی۔ دین کی خدمت کررہی ہے اس وجہ سے خوشی سے اس کے بچوں کا خیال رکھتی ہوں۔‘‘
(باقی آئندہ سوموار کے شمارہ میں ان شاءاللہ)
………٭………٭………٭………