عبادت، اعلیٰ اخلاق اور جھگڑوں سے بچنا (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)
اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کو عابد بننے اور اعلیٰ اخلاق اپنانے کی طرف بہت توجہ دلائی ہے کیونکہ ان کے بغیر ایک ایمان کا دعویٰ کرنے والا مومن نہیں کہلا سکتا۔ جہاں مومن کی یہ نشانی ہے کہ وہ عبادت کرنے والا ہو وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لغو باتوں سے اعراض کرنے والا ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص مومن بھی ہو اور پھر اس سے بداخلاقیاں بھی سرزد ہو رہی ہوں۔ عموماً بداخلاق انسان اس وقت ہوتا ہے جب اس میں تکبر ہو۔ اسی لئے رحمان خدا کے بندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا (الفرقان: 64) یعنی زمین پر وہ نہایت عاجزی سے چلنے والے ہیں۔ اور جس انسان میں عاجزی ہو وہ نہ صرف جھگڑوں اور فسادوں سے بچتا ہے بلکہ صُلح جوئی کی طرف رجحان رکھتا ہے اور دوسرے اعلیٰ اخلاق بھی اس میں پائے جاتے ہیں۔ اور جب اعلیٰ اخلاق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا بھی پیش نظر ہو اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اعلیٰ اخلاق کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو پھر ہی یہ کیفیت جو ہے وہ حقیقی مومن کی کیفیت ہوتی ہے۔ گویا حقیقی مومن عابد اور عاجز ہوتا ہے۔
ہاں یہ بھی صحیح ہے کہ ہر انسان کی استعدادیں مختلف ہیں۔ جسمانی حالت مختلف ہے۔ بعض عارضی حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جو روک بن جاتے ہیں۔ اس لئے ہر شخص ہر وقت اور ہر حالت میں اپنے اخلاقی معیار کو ایک طرح نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح اپنی روحانی ترقی کے لئے بھی اپنی عبادتوں اور اپنی نمازوں کے وہ معیار نہیں رکھ سکتا جو ایک مومن سے متوقع ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مومنین کو حالات کے مطابق سہولتیں بھی مہیا فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ضرورت سے زیادہ بوجھ انسان پر نہیں ڈالتا۔ یا انسان کی حالت اور صلاحیت سے زیادہ بوجھ اس پر نہیں ڈالتا۔ پس یہ کہنا کہ بعض کام ایسے ہیں جو انسان کے لئے ناممکن ہیں اس لئے کئے نہیں جا سکتے۔ یہ بات کم از کم دین اسلام کے بارے میں غلط ہے۔ یہ صحیح نہیں۔ نمازوں کے بارے میں جب اللہ تعالیٰ مومن کو کہتا ہے کہ یہ تم پر فرض ہیں انہیں ادا کرو تو ساتھ ہی بہت سی سہولتیں بھی دے دیں۔ مثلاً جو کسی وجہ سے کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے کہہ دیا کہ بیٹھ کر پڑھ لو۔ اور جو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا بعض بیماریوں کی وجہ سے، کمزوری کی وجہ سے کیونکہ بیٹھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے تو اسے کہہ دیا کہ لیٹ کر پڑھ لو۔ پھر لیٹنے میں بھی کوئی شرط نہیں ہے کہ کسی خاص انداز میں لیٹنا ہے۔ جس طرح انسان لیٹا ہوا ہے وہیں نماز پڑھ سکتا ہے۔ بیمار ہے کمزور ہے، سفر یا اور کوئی وقتی مجبوری ہے تو کہہ دیا کہ قصر کر لو، جمع کر لو۔ پس کوئی شخص اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ نماز پڑھنا اس کے لئے ممکن نہیں بلکہ ایسے لوگ جو اس قسم کے کام کرتے ہوں جن میں بظاہر ان کے کپڑے گندے ہوئے ہوں ان کو بھی یہی حکم ہے کہ اگر صاف کپڑے نہیں ہیں تو جیسے بھی پہنے ہوئے ہیں ان میں ہی نماز پڑھ لو لیکن نماز ضرور پڑھو۔ اسی طرح اگر پانی نہیں ہے تو پھر وضو کی بجائے تیمم کر لو۔ غرض کہ کوئی عقلمند کسی کا یہ بہانہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ نماز پڑھنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے۔ جب تک ہوش و حواس قائم ہیں نماز پڑھنا ضروری ہے۔ پس نماز کے بارے میں یہ کہنا کہ بعض حالات میں ہمارے لئے ناممکن ہے یہ انتہائی غلط بات ہے۔ بہت سے لوگوں سے پوچھو تو مختلف قسم کے بہانے بناتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ ایسے بہانے کر کے ایمان سے دور ہٹ رہے ہوتے ہیں۔ پس اس طرف ہم میں سے ہر ایک کو توجہ دینی چاہئے۔
آئر لینڈ میں جب میں نے مسجد کے افتتاح پر خطبہ دیا اور عبادتوں کی طرف توجہ دلائی تو امریکہ سے ہمارے ایک مربی صاحب نے لکھا اور پھر بعض اور جگہوں سے بھی خط آئے کہ خطبے کے بعد مسجدوں میں حاضری بڑھ گئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد میں نمازوں پر نہ آنا کسی کی مجبوری کی وجہ سے یا نا ممکنات کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ سُستی تھی اور جب توجہ دلائی گئی تو اثر ہوا لیکن اس اثر کو مستقل قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو ایک مومن کا خاصہ ہے کہ اگر توجہ دلائی جائے تو پھر اس پر عمل کرتا ہے۔ خدام الاحمدیہ اور لجنہ کو خاص طور پر کوشش کرنی چاہئے کہ نوجوانوں میں نمازوں کی پابندی کی عادت ڈالیں۔ اس عمر میں صحت ہوتی ہے اور عبادتوں کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس طرف خاص طور پر توجہ دلائی ہے کہ جوانی اور صحت کی عبادتیں ہی حق ادا کرتے ہوئے ادا کی جا سکتی ہیں۔ بڑھاپے میں تو مختلف عوارض کی وجہ سے انسان وہ حق ادا ہی نہیں کر سکتا جو عبادت کا حق ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد4 صفحہ258، ایڈیشن 1984ء)
بہر حال انسان کو سوچنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض تو طبیعت پر جبر کر کے بھی اگر ادا کرنے پڑیں تو ادا کرنے چاہئیں۔ کجا یہ کہ سہولتوں کے باوجود یہ ادا نہ کئے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب صحت دی ہے تو صحت کا شکرانہ بھی خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے اور یہ حق عبادت سے ادا ہوتا ہے۔ صحت کی حالت کے شکرانے کے طور پر عبادتیں بجا لانے کی ضرورت ہے، نمازوں کی ادائیگی کی ضرورت ہے۔ پس اس طرف توجہ دینے کی ہمیں بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے اس کے بغیر ہمارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ اب میں دوسری بات کی طرف آتا ہوں یعنی اچھے اخلاق۔ اعلیٰ اخلاق رکھنے والوں کا ایک بہت بڑا وصف سچائی کا اظہار ہے اور سچائی پر قائم رہنا ہے۔ ایک مومن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہے اور جھوٹ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر جھوٹ سے انتہائی نفرت ہو۔ لیکن عملاً ہم دنیا میں کیا دیکھتے ہیں کہ مختلف موقعوں پر جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ میرا ارادہ تو نہیں تھا لیکن غلطی سے میرے منہ سے جھوٹ نکل گیا۔ اسائلم کے لئے یہاں درخواستیں دیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں وہ تو میرے منہ سے فلاں بات غلطی سے نکل گئی۔ میرا ارادہ نہیں تھا۔ لیکن اگر عادت نہ ہو تو غلطی سے بھی بات نہیں نکلا کرتی۔