حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا بےمثال عَفو و درگُزر
مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستاں میں لکھی ہےکہ ایک بزرگ کو کتے نے کاٹا۔گھر آیاتو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ کھایا ہے۔ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی۔ وہ بولی۔ آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا؟اس نے جواب دیا۔بیٹی! انسان سے کُتپن نہیں ہوتا۔اسی طرح سے انسان کو چاہیے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے۔نہیں تو وہی کُتپن کی مثال صادق آئے گی۔ خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بُری طرح ستایا گیا۔ مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ(الاعراف:۲۰۰) کا ہی خطاب ہوا۔ خود اُس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں۔مگر اس خُلقِ مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا۔ان کے لئے دعا کی۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گاتو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گےاور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرےیا سامنے تباہ ہوئے۔غرض یہ صفت لوّامہ کی ہے جو انسان کش مکش میں بھی اصلاح کرلیتا ہے۔روزمرّہ کی بات ہے۔اگر کوئی جاہل یا اوباش گالی دے یا کوئی شرارت کرے۔جس قدر اس سے اعراض کرو گے اسی قدر عزت بچا لو گے اور جس قدر اس سے مٹھ بھیڑ اور مقابلہ کرو گے تباہ ہو جاؤ گے اور ذلت خرید لو گے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۰۲-۱۰۳، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پاکر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا۔ اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیّت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہوچکا تھا اور بجز ان ازلی ملعونوں کے ہریک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پاکر سب کو لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہا اور اسی عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے۔ ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کرلیا۔
(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۲۸۶-۲۸۷ بقیہ حاشیہ نمبر ۱۱)
دوسری قسم اُن اَخلاق کی جو ایصالِ خیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلا خُلق ان میں سے عفوہے۔ یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا۔ اس میں ایصالِ خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے، سزا دلائی جائے، قید کرایا جائے، جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اس کے حق میں ایصال خیر ہے۔ اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے۔ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: ۱۳۵) جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (الشورىٰ: ۴۱)یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں۔ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقع پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو،کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو یعنی عین عفو کے محل پر ہو نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ۳۵۱)