آنحضورﷺ کے عفو کی ایک مثال
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
فتح مکہ کے بعد آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بن ابوجہل کے قتل کا حکم دیا تھا۔ کیونکہ یہ جنگی مجرم تھا اس لئے قتل کا حکم دیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اور ان کا والدنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے میں سب سے زیادہ شدت اختیار کرنے والے تھے۔ جب عکرمہ کو یہ خبر ملی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دے دیا ہے تو وہ یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی بیوی جو اس کی چچا زاد تھی اور حارث بن ہشام کی بیٹی تھی اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے پیچھے پیچھے گئی۔ اس نے اسے ساحلِ سمندر پر کشتی پر سوار ہونے کا منتظر پایا۔ انتظار میں کھڑا تھا کہ کشتی آئے تو مَیں یہاں سے سوار ہو کر جاؤں۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ عکرمہؓ کو اس کی بیوی نے کشتی میں سوار پایا اور اسے اس مکالمے کے بعد واپس لے آئی کہ اے میرے چچا زاد! مَیں تیرے پاس سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے، سب سے زیادہ نیک سلوک کرنے والے اور لوگوں میں سے سب سے بہتر (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس سے آئی ہوں۔ تم اپنے آپ کو بربادنہ کرو۔ مَیں نے تمہارے لئے امان طلب کر لی ہے۔ واپس آجاؤ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں معاف کر دیں گے۔ کچھ نہیں کہا جائے گا۔ عکرمہ اپنی بیوی کے ساتھ واپس آئے اور کہا اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ! میری بیوی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے مجھے امان دے دی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ درست کہتی ہے۔ آپ کو امان دی گئی ہے۔ اس بات کا سننا تھا کہ عکرمہ نے کہا۔ اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَنَّکَ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ پھر عکرمہ نے شرم کے باعث اپنا سر جھکا لیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عکرمہ! ہر وہ چیز جو میری قدرت میں ہے اگر تم اس میں سے کچھ مجھ سے مانگو تو مَیں تم کو عطا کر دوں گا۔ عکرمہؓ نے کہا۔ مجھے میری وہ تمام زیادتیاں معاف کر دیں جو مَیں آپؐ سے کرتا رہا ہوں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا دی کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِر لِعِکْرَمَۃَ کُلّ عَدَاوَۃٍ عَادَانِیْھَا اَ وْ مَنْطَقٍ تکَلَّمَ بِہ۔ کہ اے اللہ! عکرمہ کو ہر وہ زیادتی جو وہ مجھ سے کرتا رہا ہے بخش دے۔ یا آپؐ نے فرمایا کہ اے اللہ ! عکرمہ میرے بارہ میں جو بھی کہتا رہا ہے وہ اس کو بخش دے۔کیا اس جیسی معافی کی کوئی مثال ہے؟ (السیرۃ الحلبیۃ لعلامہ ابوالفرج نورالدین۔ ذکر فتح مکہ شرفھا اللہ تعالیٰ جلد3 صفحہ 132مطبوعہ بیروت 2002ء)
(خطبہ جمعہ ۱۴؍جنوری ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴؍فروری ۲۰۱۱ء)