حکیم بدرالدین عامل صاحب بھٹہ درویش قادیان
(عبد الرحیم گجر ۔واقف زندگی،قادیان)
درویشان قادیان نے اس مقدس بستی اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زاد بوم کی نہایت پُرآشوب وقت میں نگہبانی کرکے اپنا حق اداکرنے کی بھرپور کوشش کی اور دین کو دنیا پر ہمہ وقت مقدم رکھااور غربت اور تنگی کے حالات کو اپنے اوپر وارد کرکے خدائی فوجداروں کی صورت اختیارکیے رکھی اور کبھی بھی وہ دنیا کی چکاچوند سے متاثر نہ ہوئے بلکہ وہ ایک للہی رنگ میں رنگے گئے اور سادہ زندگی گزاری۔ قادیان کی عظمت اور اس کی حفاظت کی خاطر ہر قربانی دی۔چنانچہ ان کی قربانیاں تاریخ احمدیت میں سنہری حرفوں سے رقم کی جائیں گے اور آئندہ یہ درویشوں کی جماعت اپنی قربانیوں اور اپنی خوبیوں کی وجہ سے نسل درنسل یاد کی جایا کرے گی۔ان کے حالات پڑھ کر انسان عش عش کرتا ہے کہ کس جذبہ اورولولہ سے ان لوگوں نے قادیان کی نگہبانی کی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے گئےاور زندگی کی آخری سانس تک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے کیے گئے عہد کو نبھایا اور اسی پاک سرزمین کی حفاظت کو اپنا مقصود سمجھا اورآخر زندگی کے دن مکمل ہونے کے بعد اسی زمین میں مدفون ہیں۔ ان درویشوں میں سےاب صرف دو بزرگ حیات ہیں، باقی تمام اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے ہیں۔اللّٰھم اغفرلھم وارحمھم وادخلھم الجنۃ۔
ان درویشان میں سے مکرم حکیم بدرالدین عامل صاحب بھٹہ درویش مرحوم کا اس وقت ذکر خیر کرنا چاہتا ہوں ۔مرحوم کے ساتھ خاکسارکا ایک خاص تعلق تھا۔ ان کی خاص شفقت ومحبت کی وجہ سے کچھ عرصہ سےخاکسار کو ان کی یادستارہی تھی اور اندرہی اندر ایک قلق پیدا ہوا جارہا تھا۔ سوچا کہ ان کا مختصر ذکرسپرد قلم کروں تاکہ پڑھنے والے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کریں۔
مکرم حکیم بدرالدین عامل صاحب بھٹہ درویش مرحوم ۱۵؍جون ۱۹۲۷ء کو چک ۴۳۸جی بی لائل پور(حال فیصل آباد پاکستان) میں مکرم چودھری عبد الغنی صاحب بھٹہ ریٹائرڈ آرمی حوالدار میجر اور محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے اور چار بہنوں کے بھائی تھے اوراپنے گھر میں سب کی آنکھ کا تارا تھے۔ تقسیم ہند کے وقت ۱۹۴۷ء میں ۳۱۳نوجوان مردوں کو دارالمسیح کی حفاظت کے لیے اجازت دی گئی جو درویش کہلائے اورمکرم حکیم بدرالدین عامل صاحب بھٹہ کو ان تین سوتیرہ درویشان میں درویش نمبر۷۳کا خطاب ملا۔
مرحوم کی ایک بیٹی ہیں جن کا نام مکرمہ طاہرہ جاوید صاحبہ ہے جو مکرم حافظ محمد انورجاوید صاحب حال مقیم امریکہ سے بیاہی ہوئی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کومرحوم کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرماتارہے۔ آمین
مرحوم کی خوبیوں کاکوئی شمار نہ تھا اور ماشاء اللہ ان کے اخلاق کا ایک خاص اثر دوسرو ں پر پڑتا تھا۔میں نے جو مشاہدہ کیا ہے وہ خلاصۃً یہ ہے کہ موصوف جماعت کے سچے غمخوار اور لوگوں کے ہمدرد،بے لوث خدمت کرنے والے اور ایک وفاشعار بزرگ تھے۔تبلیغ اسلام اور احمدیت ان کی رگ وپے میں ودیعت تھی۔
۱۹۴۷ء کے فسادات کے بعد پنجاب میں مسلمان تھوڑے ہی رہ گئے تھےاور اکثریت ہجرت کرکے پاکستان چلی گئی تھی۔ اسی طرح احمدی آبادی بھی ربوہ منتقل ہوگئی اور یوں داغ ہجرت کا الہام پورا ہوگیا تھا۔
دورِ خلافت ِرابعہ میں پنجاب میں بچےکھچے قلیل مسلمانوں کو جماعت احمدیہ سے جوڑنے کے لیے اوران کی تربیت کے واسطے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مرکز کوخاص ہدایت فرمائی تھی اور ایک مہم کے تحت ان کی تبلیغ وتربیت کے پروگرام بنائے گئے۔
اُس وقت مکرم حکیم بدرالدین عامل بھٹہ صاحب مرحوم لوکل انجمن احمدیہ قادیان میں جنرل سیکرٹری تھے تو ان کے ذمہ بھی یہ کام ہوا۔ان کی زیر نگرانی بھی پنجاب میں تبلیغی کام شروع ہوگیا اور کئی تبلیغی ٹیمیں بنیں ۔ان ٹیموں میں ایک ٹیم مکرم قاری نواب احمد گنگوہی صاحب،مکرم حافظ اسلام الدین صاحب،مکرم مولوی بشیر احمد خادم صاحب مرحوم،مکرم مولوی حفیظ احمد شیخوپوری وغیرہ پر مشتمل تھی۔اس ٹیم کے ذریعہ خاکسار کو تبلیغ ہوئی اور آخر خاکسار نے متاثر ہوکر اور سچائی جان کر احمدیت قبول کرلی اور بیعت کی سعادت پائی۔مکرم قاری نواب احمد گنگوہی صاحب گجر قوم سے تعلق رکھتے تھےیہ بھی ایک سبب بنا کہ خاکسار جلد ان داعیین الی اللہ کی وعظ ودعوت سے متاثر ہوا۔
بیعت کرنے کے بعد خاکسار قادیان آگیا جہاں لنگرخانہ (دارالضیافت )میں رہائش تھی اور مکرم حکیم بدرالدین عامل صاحب بھٹہ مرحوم کی زیر نگرانی میں رہا کرتا تھا۔مضافاتِ قادیان سے اَوربھی بچے تربیت کے لیے آئے ہوئے تھے اوروہ بھی لنگرخانہ میں مقیم تھے۔یہاںہم سب بچوں کو بہت ہی پیار اور محبت اور شفقت سے رکھا گیا۔مرحوم کے علاوہ باقی دوسرے درویشان قادیان کی شفقت بھی ملتی رہی فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔
مکرم حکیم بدرالدین عامل صاحب بھٹہ درویش مرحوم پیشہ کے لحاظ سے ایک حکیم تھےاور طبابت کیا کرتے تھےاور اس سےان کی گزراوقات ہوجاتی تھی۔آپ ہم سب نومبائع بچوں کی اپنی جیب سے تواضع کیا کرتے تھےاورہماری ضرورتوں کا خاص خیال رکھتے تھےاورکوشش کیا کرتے تھے کہ ہمیں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
چونکہ خاکسار کا تعلق گجرفیملی سےتھااس وجہ سے خاکسار کو دودھ پینے کی عادت تھی۔ اس امر کو محسوس کرتے ہوئےمکرم حکیم بدرالدین عامل صاحب درویش مرحوم اپنی جیب سے اخراجات کرکے خاکسار کو کچھ عرصہ دودھ مہیا فرماتے رہے۔ان کی اس ہمدردی کی عادت نےمجھےان کا گرویدہ بنادیا تھا اور خاکسارپر ان کا ایک بہت اچھا اثر تھاجس کی وجہ سے ان کی یاد ہمیشہ تازہ رہتی ہے اور دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیںغریق رحمت فرمائے آمین۔
جیسا کہ میں نے تحریر کیا ہے کہ مرحوم ایک طبیب تھے ۔ مضافات سے لوگ علاج ومعالجہ کے لیے ان کےپاس آتےرہتے تھے۔اسی سے ان کی آمدن ہوتی تھی۔لیکن یہاں ایک خاص بات یہ ہے کہ موصوف کمزوروں کا سہارا تھے،غرباء کا مفت علاج کیا کرتے تھےاور ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کیا کرتے تھے۔چنانچہ ان کا یہ نیک سلوک اور بیماروں کواچھا علاج مہیاکرنےکے ساتھ اپنے حسین اخلاق سے متاثر کرنا ان کی تبلیغی مہم کی کامیابی کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔
خاکسار یہاں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہے کہ جب ہم تربیت حاصل کرنے کی غرض سے لنگرخانہ میں آئے(غالباً ۱۹۸۵ء کی بات ہے ) تو اس وقت لنگرخانہ میں صرف صبح و شام دوٹائم کا کھانا ملتا تھا۔دوپہر کےکھانے کا انتظام نہیں ہوتا تھا۔کیونکہ اس زمانہ میں وسائل محدود تھے۔ مکرم حکیم بدرالدین عامل صاحب بھٹہ درویش مرحوم کے ذریعہ ہم نے انتظامیہ کو درخواست کی کہ دوپہر کو بھی طعام کا کچھ انتظام کیا جائے جس پر ازراہ شفقت یہ انتظام ہوگیا۔اس وقت مکرم وحید الدین شمسؔ صاحب افسر لنگرخانہ ہواکرتے تھے۔الحمد للہ پھر یہ سلسلہ قائم رہا کیونکہ حالات آہستہ آہستہ سازگار ہوتے گئےاور آج تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور دنیا کے کونے کونے سے احمدی زیارت قادیان کی غرض سے آتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعودؑ کالنگرخانہ جاری وساری ہےاور دنیا کےمختلف ملکوں میں اس لنگرخانہ کی شاخیں قائم ہوچکی ہیں اور یوں یہ مائدہ وسیع ہوتاجارہا ہے فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
بیعت کرنے کےکچھ عرصہ بعد خاکسار نےدیہاتی معلمین کےکورس میں داخلہ لے کر معلم کورس کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان سے لمبا عرصہ انڈیا کے مختلف صوبوں میں خدمت دین کرنے کی توفیق ملتی رہی۔چنانچہ خدمت کےدوران تبلیغ کا بھی بہت موقع ملا اور متعدد افراد کو حلقہ بگوش احمدیت کرنے کی سعادت بھی خاکسار کو ملی اور آج ان افراد کے خاندان اورفیملیز احمدیت میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اخلاص ووفا میں یہ لوگ بڑھے ہوئے ہیں ۔
خاکسار کا رشتہ قادیان میں مکرم بدر الدین عامل صاحب مرحوم درویش اور ان کی اہلیہ مکرمہ معراج سلطانہ صاحبہ مرحومہ نے ہی کرایا۔مرحومہ نے بھی خاکسار سےخاص شفقت کا سلوک روا رکھااورایک ماں کی طرح ہی حق اداکیا۔ چنانچہ خاکسار کی شادی مکرم مظہر حسین صاحب صابر ؔمرحوم درویش کی چھوٹی بیٹی سے ہوئی۔اورا للہ تعالیٰ نے دو بچے عطا فرمائے جو دونوں وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں اوردونوں ڈاکٹر بن رہے ہیں ۔خاکسار کے خسرحکیم صاحب مرحوم کے بڑے مداح تھے اور ہمیشہ ان کی خوبیوں اور حسن واحسان کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔
خاکسار جو ایک پسماندہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا اللہ تعالیٰ نے کہاں سے لاکر اس مقدس بستی میں آنے کی سعادت بخشی اور پھر اس بستی کے محافظوں /درویشوں کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقع دیا اور پھر انہی میں رشتہ داری ہوئی اور پھر یہ کہ خدمت دین کا بھی موقع ملا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان درویشوں کی تربت پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور حسب موقع خاکسار مکرم بدرالدین عامل بھٹہ مرحوم درویش کے لیے دعا گو ہے اور قارئین سے بھی ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے درخواست گزار ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پاک تعلیم اور نصائح پر عمل کرتے ہوئےاپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق بخشے اوردرویشان قادیان کی قربانیوں کو یادکرتےہوئےہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ اس مقدس بستی قادیان دارالامان کا حق ادا کرنے والےہوں۔ آمین