والدین کے ساتھ حسن سلوک (حصہ اول)
(فوزیہ شکور۔جرمنی)
خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے بعد انسان کا سب سے بڑا حق اس کے والدین کا ہے۔ یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے ذریعہ ایک فرد اس دنیا میں داخل ہوتا ہے اور یہی وہ وجود ہیں جن کی خدمت اور معروف اطاعت کے ساتھ انسان خدا کی رضا کی جنت میں داخل ہو سکتا ہے۔
ماں گلدستہ حیات کا سب سے دلکش پھول ہے جس کا تصور کرتے ہی ہونٹوں پر مسکراہٹ اور روح میں مٹھاس گھلنے لگتی ہے۔ ماں خدا کی طرف سے انسانیت کے لیے حسین ترین تحفہ ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے۔
باپ انسان کو خلعت وجود بخشتا ہے جس کے ساتھ انسان کا رزق وابستہ ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی اولاد کی خوشیوں کے لیے لٹا دینے کے لیے تیار ہوتا ہے اور جس کی رضامندی میں خدا کی رضامندی ہے۔ کیا ان ماں باپ کا احسان کوئی اتارسکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡہَرۡہُمَا وَقُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا۔ وَاخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَقُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا۔(بنی اسرائیل:۲۴-۲۵) ترجمہ: اور تیرے ربّ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔ اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پَرجُھکا دے اور کہہ کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔
یہ آیت معارف کا بہت بڑا خزانہ ہے اور متعدد مضامین پر بہت عمدگی سے روشنی ڈالتی ہے:
۱۔ والدین کے ساتھ احسان کیسے کیا جائے؟
۲۔ نا پسندیدگی اور کراہت کے باوجود ان کی اطاعت کی جائے
۳۔ والدین کے لیے دعا
حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس آیت میں یہ بھی اشارہ کر دیا کہ انسان بالعموم والدین کی ویسی خدمت نہیں کر سکتا جیسی کہ ماں باپ نے اس کے بچپن میں کی تھی اس لیے فرمایا کہ ہمیشہ دعا کرتے رہنا کہ اے خدا تو ان پر رحم کر تا کہ جو کسر عمل میں رہ جائے دعا سے پوری ہو جائے۔ ’’ک‘‘ کے معنی تشبیہ کے بھی ہوتے ہیں ان معنوں کی رُو سے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کو ویسی ہی خدمت کی ضرورت ہوتی ہے جیسے بچے کو بچپن میں۔ والدین کے لئے یہ دعا اس لئے بھی سکھائی گئی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے گا اسے خود بھی اپنا فرض ادا کرنے کا خیال رہے گا ۔ ( تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۳۲۲ ایڈیشن ۲۰۰۴ء)
والدین کے مقام کے حوالہ سے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں۔ ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گزر گیا اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔ والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم وغم والدین اٹھاتے ہیں۔ جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۲۸۹ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
(باقی آئندہ)