سکرین پر پڑھنے کے نقصانات
مطالعہ بلاشبہ ذہنی تناؤ کو کم کرتا ہے، آپ کے دماغ کو متحرک رکھتا ہے۔ٹیکنالوجی کی دنیا میں سکرین کی ایجادنے ایک غیر معمولی انقلاب برپا کر دیا ہے۔سکاٹ لینڈ کے ایک سائنس دان جان لوگی بیرڈ (John Logie Baird)نے ۱۹۲۶ء میں ٹیلی ویژن ایجاد کر کے دنیا کو پہلی سکرین سے متعارف کروایا، اس کے بعد کمپیوٹر،لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، موبائل فون کی دنیاؤں میں داخل ہو کر حضرت انسان نےگویا اپنے آپ کو سکرین کے سپرد کر دیا۔ جن کی بدولت انسان نے دماغی ورزشوں اور صدہا ریاضتوں سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پالیا۔
ڈیجیٹل میڈیا یعنی سکرین پر پڑھنے کے بعض واضح فوائد بھی ہیں۔ جیسے مہنگی مجلد کتابیں پی ڈی ایف میں کم قیمت پر پڑھی جا سکتی ہیں لیکن کئی تحقیقات کے مطابق اس کے نقصانات بھی کافی ہیں۔اس مضمون میں انہی میں سے بعض کا مختصراً تذکرہ کیا جائے گا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ۳۰؍سے زائد ممالک کے محققین اور سائنسدانوں نے اس بارے میں تحقیق کی ہے اور ناروے کی سٹیوینگر یونیورسٹی کی پروفیسر این مانجین کہتی ہیں:بہت سی چیزیں ہیں جو ہم سمارٹ فونز پر پڑھ سکتے ہیں، جیسے کہ مختصر خبروں کی اپ ڈیٹس۔ لیکن اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہم سکرین پر جو کچھ پڑھتے ہیں وہ کاغذ پر پڑھنے کے مقابلے میں نسبتاً مشکل سے سمجھا جاتا ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کم عمری میں بچوں کو سمارٹ فون دینے کے منفی اثرات کم عمری میں ہی نظر آنے لگتے ہیں۔
Scientific Americanکے مطابق ہمارا دماغ کاغذ کے مقابلے میں سکرین پر پڑھتے وقت زیادہ انرجی استعمال کرتا ہے۔اور یہ یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے کہ ہم سکرین پر طویل عرصے تک کیا پڑھتے ہیں۔
بچوں کو الیکٹرانک گیجٹ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ گیجٹس کے زیادہ استعمال سے آنکھوں پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہیلتھ لائن کی رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست اوہائیو کی ٹولیڈو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کس طرح ٹیکنالوجی سے خارج ہونے والی روشنی آنکھوں میں بیماری پیدا کرسکتی ہے، جس کا نام میکولر ڈیجنریشن ہے جس کے باعث بینائی متاثر ہوسکتی ہے۔موبائل سکرین استعمال کرنے کے لیے آنکھوں کو غیرمحسوس انداز سے سکڑنا پڑتا ہے، جو بچے کی نظر پر بوجھ ڈالتا ہے۔ اپنے مانیٹر کی سکرین پر غور سے دیکھنے سے گریز کریں اور کام کرتے وقت بار بار آنکھ جھپکیں۔
جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سکرین سے نکلنے والی روشنی سے میلاٹونین (Melatonin)کی مقدار متا ثر ہوتی ہے جس سے انسان ڈپریشن کا مریض بن سکتا ہے، اُس کو بھوک نہیں لگتی، نیند اُس کی آنکھوں سے غائب ہو جاتی ہے، اُس کی طبیعت میں چڑچڑاپن اور غصہ بہت زیادہ کرنے لگتا ہے۔ساتھ ساتھ موٹاپے کا بھی شکار ہو جاتا ہے، سکرین کے مسلسل استعمال سے آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں، دردِ سر، نظر کا دھندلا جانا اور آنکھوں میں خارش ہونے لگتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے مسلسل چھ سے سات گھنٹے کسی بھی سکرین مثلاً ٹی وی، موبائل، ٹیبلٹ وغیرہ کے سامنے گزارتے ہیں ان میں موڈ اورمزاج کے مسائل آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سکرین کے زیادہ استعمال سے ماتھے کے بالکل پیچھے جو دماغ کا حصہ ہوتا ہے جس کو prefrontal cortexبولتے ہیں جو ہمیں صحیح اور غلط میں پہچان کرنا سکھاتا ہے، جو فیصلہ لینے میں ہماری مدد کرتا ہے، جو ہمیں ضبط نفس سکھاتا ہے اور جس کے اندر خاص طور پر ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں وہ متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بچے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، ایک دوسرے کو مارتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں، ضد کرتے ہیں ان میں ہمدردی کے جذبات ختم ہوتے نظر آتے ہیں۔ WHOنے اس کو screen behavioral problemsکا نام دیا ہے۔ اس کے علاوہ جو بچے دن کا ایک بڑا حصہ سکرین کےسامنے گزارتے ہیں وہ مختلف قسم کی آنکھوں کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جس میں cataracts اور myopiaسر فہرست ہیں۔ cataractsمیں ہر چیز دھندلی نظر آتی ہے اور myopiaمیں دُور اور نزدیک کی نظر کمزور ہوجاتی ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق جو بچے سکرین کی لت میں مبتلا رہتے ہیں اُن میں پنسل پکڑنے کی صلاحیت بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔
ہاتھوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل اور کمپیوٹر استعمال کرنے والے افراد میں ’’ٹینڈینیٹس آف تھمب‘‘ کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ ہڈی اور پٹھوں کی ایک بیماری ہے جس میں انگوٹھے اور انگلیوں کا سُن ہونا اور سوزش لاحق ہوجاتی ہے۔ اسی طرح دیگر امراض میں امراضِ قلب، سٹروک، ذیابیطس اور کولیسٹرول سرِفہرست ہیں۔