حضرت اسماعیل علیہ السلام
دادی جان آپ نے پچھلی دفعہ حضرت مریمؑ کی کہانی تو سنائی تھی اور وقفِ نو سے تعلق سمجھ میں آیا تھا۔ لیکن حضرت اسماعیلؑ کا وقفِ نو کی تحریک سے کیا تعلق ہے؟ احمد نے بستر میں لیٹتے ہی پوچھا۔
گڑیا بیٹا آپ اس سوال کا جواب دیں۔ دادی جان نے سوال گڑیا کی جانب موڑ دیا۔
حضرت اسماعیلؑ کی کہانی میں آپ نے بتایا تھا کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کی کہا کہ انہیں خواب آئی ہےکہ وہ ان کی قربانی کر رہے ہیں تو وہ فوراً تیار ہو گئے اور ان کی عمر اس وقت کھیلنے کودنے کی ہی تھی۔ یعنی بچے ہی تھے۔ گڑیا نے جواب دیا۔
جی ہاں۔ دادی جان نے کہا۔ یہ تو بہت بڑی قربانی کا جذبہ تھا لیکن حضرت اسماعیلؑ کی اصل قربانی تو ان کے پیدا ہوتے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ میں یہ قصہ آپ کو سناتی ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ کہاں کے رہنے والے تھے بھلا؟
عراق کے شہر اُور (Ur) کے۔ احمد نے ایک سانس میں جواب دیا۔
دادی جان: جی بالکل۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے بعد حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ اس بچہ اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہؑ کو جنوب میں وادیٔ بَکَّہ میں چھوڑ آئیں۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں خانہ کعبہ موجود تھااور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس گھر کی تعمیرِ نو ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے نبیﷺ کی آمد کی تیاریاں شروع ہو جائیں۔
محمود: یہ بکہ اور مکہ ایک ہی ہیں کیا؟
دادی جان: جی ہاں! یہ پرانا نام ہے۔اس وقت یہ ایک صحرا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ ان دونوں کو لے کر ایک لمبے سفر کے بعد اس جگہ پہنچے جہاں آجکل خانہ کعبہ ہے۔ پھر آپؑ نے ان دونوں کو دو پہاڑیوں کے درمیان ایک گھاٹی میں چھوڑ دیا جن کا نام بعد میں صفا و مروہ پڑ گیا۔ جب وہ واپس جانے لگے تو حضرت ہاجرہؑ نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے صرف آسمان کی طرف اشارہ کر دیا۔ حضرت ہاجرہؑ بھی ایک مخلص مومنہ تھیں۔ انہوں نے حضرت ابراہیمؑ سے اور سوال نہ کیا اور خاموش ہو گئیں۔ ان کے پاس زادِ راہ تو تھوڑے دنوں کا تھا۔ خصوصاً جب پانی ختم ہوا تو تب حضرت ہاجرہؑ پریشان ہوئیں۔ بچے نے پیاس سے رونا اور چلانا شروع کر دیا۔ حضرت ہاجرہؑ اس وقت بہت پریشان ہوئیں۔
اس پریشانی کے عالَم میں انہوں نے ان دونوں پہاڑیوں پر باری باری چڑھ کر اِدھر اُدھر نظر دوڑائی کہ شاید کوئی گزرتا قافلہ انہیں نظر آ جائے۔ لیکن وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔
محمود: دادی جان سعودی عرب میں تو ویسے بھی بہت گرمی ہوتی ہے۔ پھر پانی کیسے ملا انہیں؟
دادی جان: اسی پریشانی کے عالم میں کبھی وہ ایک پہاڑی پر جاتیںاور واپس آکر بچے کو دیکھتیں او رپھر دوسری پہاڑی پر جاتیں۔ انہوں نے ان دونوں پہاڑیوں کے سات چکر لگائے۔ جب تھک ہار کر واپس حضرت اسماعیلؑ کے پاس آئیں تو دیکھا کہ پیاس کی شدت سے وہ روتے روتے جہاں ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں زمین میں سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ۔ حضرت ہاجرہؑ نے اس پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور انہیں پانی پلایا اور خود بھی پیا۔ اب چشمہ اتنی زورسے بہنے لگا کہ حضرت ہاجرہ ؑنے اس کے اردگرد پتھر لگائے اور کہا کہ زَمْ زَمْ یعنی رک جا !رک جا! زَم زَم کے ایک اور معنی بھی ہیں بہت سارا پانی۔ تو وہاں بہت سار ا پانی اکٹھا ہو گیا تھا۔
احمد: پانی کا انتظام تو ہو گیا۔ کھانے کا انتظام کیسے ہوا؟
دادی جان: مکہ کے قریب سے ہی تجارتی کاروانوں کی گزر گاہ تھی۔ جب چشمہ پھوٹ پڑا تو وہاں پانی پینے والے پرندے بھی آنے لگے۔ یمن کے قبیلہ جُرہم کے ایک گزرتے قافلے نے صحرا میں ایسا پرندہ دیکھا تو حیران ہوئے اور اس کے پیچھے پیچھے وہاں آکر پانی اور قیام کی اجازت چاہی۔ اور پانی کے بدلے انہوںنے کھانا فراہم کیا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ قافلوں کی گزرگاہ بن گیا اور پانی کے لیے ان کا ایک پڑاؤیاسٹاپ ہوگیا۔ وہ پانی بھرتے اور یہاں رہنے والے لوگوں کو غذا فراہم کرتے۔ اور قبیلہ جُرْہَم نے وہاں مستقل قیام بھی کر لیا۔ حضرت اسماعیلؑ جب بڑے ہوئے تو اسی قبیلہ میں ان کی شادی ہوئی۔
دادی جان سانس لے کر گویا ہوئیں: حضرت ابراہیمؑ نے بھی اس وقت دعا کی تھی کہ ’’اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے معزز گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں جس میں کوئی کھیتی نہیں ہوتی لا بسایا ہے اے میرے رب! (میں نے ایسا اس لئے کیا ہے) تا وہ عمدگی سے نماز ادا کریں۔ پس تُو لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے اور انہیں مختلف پھلوں سے رزق دیتا رہ تا کہ وہ (ہمیشہ تیرا) شکر کرتے رہیں۔‘‘ (سورت ابراہیم:38)۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور اب تک اس علاقہ میں دنیا بھر سےہر طرح کے پھل آتےہیں۔
گڑیا: دادی جان میرے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ حضرت مریمؑ اور ان کی والدہ اور حضرت اسماعیلؑ اور ان کی والدہ دونوں نے اپنے بچوں کے ساتھ بچپن سے ہی خدا کے پیار اور شفقت کا سلوک دیکھا۔
دادی جان: جی ہاں! اسی لیے انہوں نے اپنےبچوں کی احسن رنگ میں تربیت کے سامان کیے اور ان کے کھانے پینے کی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے لے لی۔
احمد:اس واقعہ کا وقفِ نو سے کیا تعلق ہے؟ مجھے ابھی بھی سمجھ نہیں لگی۔
دادی جان: اس کہانی کا بھی وقفِ نو سے تعلق ہے واقفینِ نو کو اور ان کے والدین کو خدا تعالیٰ کی خاطر ہر وقت ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔اگر خدا کی خاطر ایسا کریں گے تو خدا خود بھی بچوں کی تربیت کے سامان کرے گا اور دنیاوی آسائش بھی عطا کرے گا۔
محمود: دادی جان کیا حضرت ابراہیمؑ کبھی ان کے پاس واپس نہیں آئے؟
گڑیا: آئے تھے۔جب ہی تو ذبح کرنے والا واقعہ ہوا تھا۔
محمود: اوہ یہ تو مجھے یاد نہیں رہا۔
احمد: اور جب خانہ کعبہ کی تعمیرِ نَوکی تب بھی تو واپس آئے تھے۔
دادی جان : ماشاء اللہ آپ لوگوں نے تو خود ہی اس سوال کا جواب معلوم کر لیا۔ یہ تو معلوم نہیں کہ وہ کتنی بار مکہ تشریف لائے لیکن ان دو کے علاوہ ایک اور بار بھی آئے تھے لیکن حضرت اسماعیلؑ سے ملاقات نہ ہوسکی وہ کہیں اور سفر پر تھے اورآپؑ ان کی زوجہ سے مل کر واپس چلے گئے تھے۔
گڑیا: دادی جان!حضرت ابراہیمؑ سے اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی قربانی کیوں لی اور یہ شہر بھی کیوں بسایا؟
دادی جان: جیسا کہ شروع میں بتایا تھا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول کریمﷺ کی خاطر کیا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اب یہاں شہر آباد ہوجائے اور اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مرکز کے طور پر چن لیا۔ یہاں ہی مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے جس کی طرف منہ کر کے تمام مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور یہاں حج بھی کرتے ہیں۔
لیں جی محمود میاں تو سونے لگے۔اب کافی رات ہوچکی ہے۔ ہم بھی سوتے ہیں۔ شب بخیر اوراللہ حافظ