حیات الآخرة (مصنفہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ)
تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط۴۸)
فاضل مصنف نے اپنی اس کتاب میں قرآن کریم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم کردہ علم الکلام اور من جانب اللہ عطا ہونے والے خاص علم سے روشنی پاکر حیات آخرت پر باحوالہ اور اصولی مواد مہیا فرمایا ہے
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے اور پرورش رعیہ ضلع سیالکوٹ میں ہوئی جہاں آپ کے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ ہسپتال کے انچارج تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۰۱ء میں احمدیت قبول کی۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے پانچویں جماعت تک تعلیم نارووال مشن ہائی سکول میں حاصل کی اور ۱۹۰۳ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی چھٹی جماعت میں داخل ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر ۱۴ سال تھی۔ اُنہی دنوں آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اور پھر حضورؑ کے وصال تک حضورؑ کی پاک صحبت سے فیض پانے کا موقع ملا۔
مئی ۱۹۶۷ء کو۷۸ سال کی عمر میں حضرت شاہ صاحبؓ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی، جنازہ کو کندھا دیا اور قبر تیار ہونے پر دعا کرائی۔
فاضل مصنف اپنی اس کتاب ’’حیات الآخرۃ‘‘ کے پیش لفظ میں بتاتے ہیں کہ
’’فلسفہ یونانیاں را خواندہ
فلسفہ ایمانیاں راہم بخواں!
جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء میں میری تقریر کے لیے حیات آخرت کا مضمون تجویز کیا گیا تھا جو ۴۵ منٹ کی تھی۔ایڈیٹر صاحب الفضل نے اسے شائع کرنے کے لیے مسودہ مجھ سے لیا لیکن محترم سید حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے ان سے وہ مسودہ لے لیا اور فرمایا کہ ان کے دیکھے بغیر یہ شائع نہیں ہوگا۔آپ نے اس مسودہ کو ملاحظہ فرمایا اور مجھ سے بااصرار چاہا کہ جن باتوں کو میں نے اختصار سے بیان کیا ہے انہیں پوری تفصیل سے بیان کیا جائے کیونکہ جس طریقہ استدلال سے حیات آخرت کے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے اس میں جدت ہے اور ان کے نزدیک وہ بہت ہی اہمیت رکھتی ہے خصوصا ًوہ حصہ استدلال جس کا تعلق عالمِ ملکوت اور حیات آخرت سے ہے ۔
اس اہم کتاب پر نگاہ ڈالیں تو اس میں بیان ہونے والے مضامین کی جھلکیاں کچھ یوں ہیں: عقیدہ حیات آخرت کے بارے میں بنیادی اصل کیا ہے۔ انسانی پیدائش کی علت غائی کیا ہے۔ حیات آخرت کے متعلق مذاہب عالم میں کن امور پر اتفاق ہے۔ انسانی پیدائش کی غرض کی تکمیل کے لیے کیا الٰہی تدبیرنظر آتی ہے۔ منکرین حیاتِ آخرت کے انکار کی اصل وجہ کیا ہے۔ انسانی پیدائش کے ترکیبِ عناصر کی نوعیت کیا ہے اور تقاضائے فطرت کے پورا ہونے میں بڑی روک کون سی ہے۔ انسانی زندگی کی قدر و قیمت کا اندازہ کن امور سے لگایا جاسکتا ہے۔ کسی بھی عقیدہ کی کیا تاثیرہوا کرتی ہے اور ان عقائد کا افادی پہلو کیا ہوتا ہے۔ عقائد کے بیان میں کیا کوئی طبعی روک بھی ہے۔ کیا عقیدہ میں یقین اور عرفان کی ضرورت ہوتی ہے۔حیاتِ انسانی کے متعلق یورپ کے زاویہ نگاہ کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔
اس قیمتی کتاب میں صفحہ ۱۹ پر ’’فلسفہ حیات الدنیا‘‘ پرروشنی ڈالتے ہوئے فاضل مصنف نے بتایا ہے کہ ’’فلاسفروں کا خیال یہ ہے کہ حیات آخرت کا عقیدہ دراصل نتیجہ ہے محض طبعی تقاضائے حبِ بقا وغیرہ کا۔ وہ کہتے ہیں کہ شمعِ زندگی جب تک روشن ہے اس کی طبیعت میں یہ تقاضا ہے کہ وہ جلتی رہے۔
یہی طبعی تقاضا انسان میں یہ ہوس پیدا کرتا ہے کہ اُسے موت نہ آئے اور ہمیشہ ہمیش زندہ رہے۔ یہ طبعی تقاضا تو ایک حقیقت ہے۔قرآن مجید بھی یہودیوں کی حبِ بقا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:یَوَدُّ اَحَدُہُمۡ لَوۡ یُعَمَّرُ اَلۡفَ سَنَۃٍ۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اے کاش ہزار سال زندہ رہیں یہ زندہ رہنے کی خواہش یقیناً طبعی ہے۔ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور موت کا ڈر بھی طبعاً یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ موت نہ آئے‘‘
آگے چل کر فاضل مصنف نے اس نظریہ کی مزید تفصیل بتاکر اس کا درست تجزیہ بھی کیا ہے۔
کتاب کے صفحہ ۴۷ پر مصنف کے فلسطین و مصر میں گزارے ہوئے ایام کے بعض واقعات سے متعلقہ موضوع شروع ہوتے ہیں۔
آگے چل کر صفحہ ۱۰۸ پر مصنف نے ایک نہایت دلچسپ ذوقی نکتہ درج فرمایا ہے جہاں آپ اثنائے بحث آیت قرآنی ’’مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَمَا طَغٰییعنی اس مشاہدہ کے موقع پر آپ کی نظر نے دیکھنے میں نہ کمی کی اور نہ زیادتی‘‘ کی تشریح میں بتاتے ہیں کہ ’’آنکھ کی بینائی کے دو مشہور نقص ہیں۔ قصرِ بصر اور مدِّ بصر۔ انگریزی میں انہیں Myopiaاور Hypermetropiaکہتے ہیں۔ یعنی نزدیک کی بینائی اور دُو ر کی بینائی۔ آیت مذکورہ بالا میں آنحضرت ﷺ کے مشاہدہ کو دونوں نقصوں سے مبرا قرار دیا گیا ہے۔‘‘ (حاشیہ صفحہ مذکورہ بالا)
اس کتاب کے صفحہ ۱۲۶ تا ۱۲۸ پر اس خاص واقعہ گرفتاری کا ذکر ہے جب ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے موقع پر پیداہونے والے غیر معمولی سیاسی اور معاشرتی حالات میں پولیس اہلکاروں نے قادیان میں جن احمدیوں کو گرفتار کیا ان میں حضرت شاہ صاحبؓ بھی تھے۔ آپ ۱۴؍ستمبر کو نظربند ہوئے اور کئی ماہ تک گورداسپور جالندھر کی جیل میں صبرآزما مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد اپریل ۱۹۴۸ء میں بین المملکتی معاہدہ کے مطابق پاکستان منتقل ہوئے اور رہا کر دیے گے۔
پس اس کتاب میں واقعات تقسیم ہند کا خلاصہ بھی ہے، اور فاضل مصنف کے پابند سلاسل ہونے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دعاؤں اور کوششوں سے ایک مرتبہ پھر آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا واقعاتی بیان بھی ہے۔
الغرض فاضل مصنف نے اپنی اس کتاب میں قرآن کریم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم کردہ علم الکلام اور من جانب اللہ عطا ہونے والے خاص علم سے روشنی پاکر حیات آخرت پر باحوالہ اور اصولی مواد مہیا فرمایا ہے۔ کتاب کے حواشی میں عربی زبان کے مشکل الفاظ اور تحریرات کے تراجم، ان کی آسان الفاظ میں وضاحتیں اور تشریحات درج کی گئی ہیں۔اسی طرح کتاب میں آنے والے انگریزی زبان کے الفاظ اور اصطلاحات کو انگریزی ہجوں میں درج کرکے ان کا آسان اردو میں معانی اور مفہوم بھی دیا گیا ہے۔
حیات آخرت کے متعلق غیروں کے اقرار اور گواہیاں مع حوالہ جات کے انگریزی میں ہی درج کرکے ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔کاتب کی لکھائی میں تیار ہونے والی اس کتاب کے ۱۳۷ صفحات ہیں۔ جسے مہتمم نشر و اشاعت نظارت دعوة و تبلیغ صدر انجمن احمدیہ ربوہ ضلع جھنگ نے لاہور آرٹ پریس لاہور سے چھپوا کر ربوہ سے شائع کیا۔
اس کتاب کی طباعت نہایت عمدہ اور نفیس ہے جس میں فاضل مصنف نے حیات آخرت جیسے اہم اور وقیع موضوع پر جگ بیتی اور ہڈ بیتی کی طرز پر اپنے وسیع مطالعہ اور ذاتی تجارب کی مدد سے ایک مدلل اور سیر حاصل، پُر اثر مواد جمع کردیا ہے۔ جس کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی مفید رہے گا۔