قیامِ امن کے لیے سب سے ضروری چیز عدل کا قیام ہے
نتیجہ جو بھی ہو ہمیں آنحضرت ﷺ نے یہ سنہری اصول سکھایا ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو ۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ظالم کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اُس کے ہاتھوں کو ظلم سے روک کر کیونکہ بصورت دیگر اُس کا ظلم میں بڑھتے چلے جانا اُسے خدا کے عذاب کا مورد بنادے گا۔(صحیح البخاری کتاب الاکراہ باب یمین الرجل لصاحبہ حدیث نمبر 6952) پس اُس پر رحم کرتے ہوئے اُسے بچانے کی کوشش کرو۔ یہ وہ اصول ہے جو معاشرہ کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اطلاق پاتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم فرماتا ہے: ترجمہ: ’’اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر اُن میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کر رہی ہے اُس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو اُن دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ ( سورة الحجرات: 10) اگر چہ یہ تعلیم مسلمانوں کے متعلق ہے لیکن اس اصول کو اختیار کر کے عالمی امن کی بنیا درکھی جاسکتی ہے۔آغاز میں ہی یہ بات وضاحت سے بیان ہو چکی ہے کہ قیام امن کے لیے سب سے ضروری چیز عدل کا قیام ہے۔ اور اُصول عدل کی پابندی کے باوجود اگر قیام امن کی کوششیں ناکام ثابت ہوں تو مل کر اُس فریق کے خلاف جنگ کرو جو ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ظالم فریق امن قائم کرنے کے لیے تیار نہ ہو جائے لیکن جب ظالم اپنے ظلم سے باز آجائے تو پھر عدل کا تقاضا ہے کہ انتقام کے بہانے نہ تلاش کرو۔ طرح طرح کی پابندیاں مت لگاؤ۔ ظالم پر ہر طرح سے نظر رکھو لیکن ساتھ ہی اُس کے حالات بھی بہتر بنانے کی کوشش کرو۔ اس بدامنی کو ختم کرنے کے لیے جو آج دُنیا کے بعض ممالک میں موجود ہے اور بد قسمتی سے ان میں بعض مسلمان ممالک نمایاں ہیں اُن اقوام کو جنہیں ویٹو کا حق حاصل ہے بطور خاص اس امر کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا صحیح معنوں میں عدل کیا جارہا ہے؟ مدد کی ضرورت پڑنے پر طاقتور اقوام کو ہی مدد کے لیے پکارا جاتا ہے۔
(خطاب بمقام برطانوی پارلیمنٹ، دارالعوام لندن، انگلستان۲۲؍اکتوبر۲۰۰۸ء مطبوعہ عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ ۱۶)