شادی کے موقع پرتقویٰ اور قول سدید کی اہمیت (حصہ سوم۔آخری)
نکاح کے بعد دیگر رشتہ داروں کے رویے کے متعلق امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ’’شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں اور میرے خیال میں اس میں زیادہ قصور لڑکے، لڑکی کے ماں باپ کا ہوتا ہے۔ ذرا بھی ان میں برداشت کا مادہ نہیں ہوتا۔ یالڑکے کے والدین بعض اوقات یہ کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ(Understanding) نہ ہو اور ان کا آپس میں اعتما دپیدا نہ ہونے دیا جائے کہ کہیں لڑکا ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ پھر بعض مائیں ہیں جو لڑکیوں کو خراب کرتی ہیں اور لڑکے سے مختلف مطالبے لڑکی کے ذریعے کرواتی ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کرنا چاہئے ایسے لوگوں کو۔‘‘ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۸؍جولائی ۲۰۰۵ء)
’’بعض دفعہ گھروں میں چھوٹی موٹی چپقلشیں ہوتی ہیں ان میں عورتیں بحیثیت ساس کیونکہ ان کی طبیعت ایسی ہوتی ہے وہ کہہ دیتی ہیں کہ بہو کو گھر سے نکالو لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب سسر بھی، مرد بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہوئی ہے اپنی بیویوں کی باتوں میں آ کر یا خود ہی بہوؤں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں حتیٰ کہ بلاوجہ بہوؤں پہ ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ پھر بیٹوں کو بھی کہتے ہیں کہ مارو اور اگر مر گئی تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور بیوی لے آئیں گے۔ اللہ عقل دے ایسے مردوں کو۔ ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں کہ ایسے مرد بزدل اور نامرد ہیں۔‘‘ ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍جولائی ۲۰۰۴ء)
’’ایک اور مسئلہ جو آج کل عائلی مسئلہ رہتاہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی اس بارہ میں توجہ دلائی جاتی ہے بچیوں کی طرف سے کہ سسرال یا خاوند کی طرف سے ظلم یا زیادتی برداشت کر رہی ہیں۔ بعض دفعہ لڑکی کو لڑکے کے حالات نہیں بتائے جاتے یا ایسے غیر واضح اور ڈھکے چھپے الفاظ میں بتایا جاتاہے کہ لڑکی یا لڑکی کے والدین اس کو معمولی چیز سمجھتے ہیں لیکن جب آپ بیچ میں جائیں تو ایسی بھیانک صورتحال ہوتی ہے کہ خوف آتاہے۔ ایسی صورت میں بعض دفعہ دیکھا گیاہے کہ لڑکا تو شرافت سے ہمدردی سے بچی کو، بیوی کو گھر میں بسانا چاہتاہے لیکن ساس یا نندیں اس قسم کی سختیاں کرتی ہیں اور اپنے بیٹے یا بھائی سے ایسی زیادتیاں کرواتی ہیں کہ لڑکی بیچاری کے لئے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو وہ علیحدگی اختیار کر لے یا پھر تمام عمر اس ظلم کی چکی میں پستی رہے اور یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ بعض صورتوں میں جب اس قسم کی زیادتیاں ہوتی ہیں، جب لڑکی کے بحیثیت بہو اختیارات اس کے پاس آتے ہیں تو پھر وہ ساس پر بھی زیادتیاں کرجاتی ہے اور اس پر ظلم شروع کر دیتی ہے۔ اس طرح یہ ایک شیطانی چکر ہے جو ایسے خاندانوں میں جو تقویٰ سے کام نہیں لیتے جاری رہتاہے۔ حالانکہ نکاح کے وقت جب ایجاب وقبول ہوتاہے، تقویٰ اور قول سدید کے ذکر والی آیات پڑھ کر اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور ہمیں یہ بتایا جاتاہے کہ ایسا جنت نظیر معاشرہ قائم کرو اور ایسا ماحول پیدا کرو کہ غیر بھی تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں۔ لیکن گو چند مثالیں ہی ہوں گی جماعت میں لیکن بہرحال دکھ دہ اور تکلیف دہ مثالیں ہیں۔
جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہر بات سے پہلے، ہر کام سے پہلے سوچے کہ اس کا انجام کیا ہوگا اورجو کام تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ خیال ہوتاہے زیادتی کرنے والوں کاکہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔ ہم گھر میں بیٹھے کسی کی لڑکی پر جو مرضی ظلم کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ تو پھر اگر یہ خیال دل میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اگر دیکھ رہاہے اور اللہ کو اس کی خبر ہے تو حضور(حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ) فرماتے ہیں کہ ان برائیوں سے بچا جا سکتاہے۔ اللہ کرے کہ ہرا حمدی گھرانہ خاوند ہو یا بیوی، ساس ہو یا بہو، نند ہو یا بھابھی تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے والی اور ایک حسین معاشرہ قائم کرنے والی ہوں۔‘‘ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍جولائی۲۰۰۳ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’یہ بھی نصیحت ہے کہ اگر تم اس طرح سچ پر قائم رہو گے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہو گے تو خداتعالیٰ تمہاری ان کوششوں کے نتیجہ میں تمہاری اصلاح کرتا رہے گا۔ تمہیں نیکیوں پر چلنے کی توفیق دیتا رہے گا۔ تمہارے گناہوں سے، تمہاری غلطیوں سے، صَرفِ نظر کرتے ہوئے تمہارے گھروں کو جنت نظیر بنا دےگا۔
سچ پر قائم رہنے کے بارے میں فرمایا ہے کہ سچ پر قائم رہ کر ہی ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوتا ہے اور سچ پر قائم رہ کر ہی آپس کے تعلقات کو اچھی طرح ادا کر سکتے ہو اور سچ پر قائم ہوکر ہی اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کر سکتے ہو اور ان کو معاشرے کا ایک مفید وجود بنا سکتے ہو۔ ‘‘(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ۲۱؍ اگست۲۰۰۴ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی ۲۰۱۵ء )
اللہ کرے ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی کامل اطاعت کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی کے ہر معاملہ میں تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے سچائی پر قائم رہنے والا بنائے۔آمین