والدین کے ساتھ حسن سلوک (حصہ دوم۔ آخری)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَلِوَالِدَیۡکَ ؕ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ ۔ وَاِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا وَصَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا ۫ وَّاتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ (سورہ لقمان:۱۶-۱۵) ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے حق میں تاکیدی نصیحت کی۔ اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری میں اٹھائے رکھا۔ اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں (مکمل) ہوا۔ (اسے ہم نے یہ تاکیدی نصیحت کی)کہ میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی۔ میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے اگر وہ دونوں تم سے بحث کریں کہ تم کسی کو میرا شریک مقرر کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو ان دونوں کی بات مت مانیو۔ ہاں دنیوی معاملات میں ان کے ساتھ نیک تعلقات کو قائم رکھو اور اس شخص کے پیچھے چلو جو میری طرف جھکتا ہے اور تم سب کا لوٹنا میری طرف ہی ہو گا۔ اس وقت میں تم کو تمہارے عمل سے خبر دار کروں گا۔
اس آیت میں جہاں ماں باپ کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے وہاں اپنے حقوق کا ذکر بھی ساتھ فرما دیا اور آیت کا مضمون بتاتا ہے کہ تقدم اور تأخّر کو کھول دیا گیا ہے۔ فرمایا کہ ماں کا احسان تم پر ہے اس نے کمزوری کے بعد کمزوری کی حالت میں اٹھائے رکھا اس لئے اس کے شکر گزار ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خالق کو بھول جاؤ جس نے تمہیں ازل سے لے کر آج تک ہزار ہا بلکہ لکھوکھہا بلکہ کروڑ ہا، ارب ہا مراحل سے گزارا ہے اور تمہاری پرورش کے انتظامات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ شرک کی تعلیم کے باوجود تم نے ان سے تعلق نہیں توڑنا اور جہاں تک دنیاوی احسانات کا معاملہ ہے وہ سلوک جاری رکھنا ہے۔ آنحضرتﷺ سے کثرت سے ایسی روایات مروی ہیں جن میں آپﷺ نے ماں کے حقوق کی طرف مختلف رنگ میں توجہ دلائی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ!کس کے ساتھ نیک سلوک کروں؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ۔ عرض کی پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ ۔ عرض کیا گیا پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا اپنے باپ کے ساتھ۔( صحیح بخاری۔ کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبۃ)
اب وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان تفریق کی ہے۔ اس موقع پہ جو تفریق کی ہے۔ وہ ماں کے حق میں ہے عورت کے حق میں ہے۔ باپ کے حق میں نہیں کیونکہ دو دفعہ سوال جب دہرایا گیا تو یہ فرمایا کہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کرو اور ایک دفعہ آخر پہ فرمایا کہ باپ کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو۔ پھر باقیوں کو بھی اس نصیحت میں شامل فرما لیا۔
الادب المفرد ہی کی ایک روایت ہے جو حضرت کلیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ کہتے ہیں کہ میرے دادا نے عرض کیا یا رسول اللہ!کس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپﷺ نے فرمایا اپنی ماں، بہن، بھائی اور اپنے غلام کے ساتھ جو تم سے قریب ہو۔ یہ واجب حق ہے اور قرابت داری کے حقوق کی حق شناسی کرو۔
پھر ایک موقع پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ خاک آلودہ ہو اس کی ناک یعنی گویا ایسا شخص ذلیل ہوا جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی عمر میں پایا اور پھر بھی وہ جہنم میں گیا۔ یعنی بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بخشش کا سلوک فرماتا ہے اور بوڑھے ماں باپ کی خدمت کے نتیجے میں جنت کی راہیں آسان ہو جاتی ہیں۔ جو اس موقع کو پائے اور کھو دے وہ بڑا بدنصیب ہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب البروالصلۃ باب رغم انف من ادرک ابو یہ)
حضرت امام بخاری ہی کی روایت ہے، الادب المفرد سے کہ ایک شخص رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اپنے آپ کو جہاد کے لیے پیش کیا۔آپﷺ نے فرمایا، تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا جاؤ ان کی خدمت کرو یہ تمہارا جہاد ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمررضي اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص آنحضرتﷺ کی خدمت میں ہجرت کی بیعت کرنے کو حاضر ہوا اور ماں باپ کو گھر روتے ہوئے چھوڑ آیا (ہجرت کی بیعت سے مراد یہ ہے کہ مکہ میں جو لوگ مسلمان ہوتے تھے وہ بعض دفعہ تکلیفوں کو برداشت نہ کر کے وہاں سے ہجرت کرتے تھے تو آکر دوبارہ آنحضرتﷺ کی بیعت کرتے تھے، اسے ہجرت کی بیعت کہا جاتا تھا) اب یہ ظاہر نہیں فرمایا گیا اس روایت میں کہ اس کے ماں باپ مومن تھے یا مشرک تھے۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھے مگر وہ ان کو روتا ہوا پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا، واپس جاؤ جیسے تم نے انہیں رلایا ہے ویسے انہیں جا کرہنساؤ۔
بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر ماں باپ فوت ہو جائیں تو ان کی خدمت کیسے کی جائے۔ آنحضرتﷺ نے اس کا جواب بڑے واضح طریق پر دیا ہے۔ آپﷺ فرماتے ہیں کہ چار طریق سے تم ان کے ساتھ حسن سلوک کر سکتے ہو ان کے لیے عمومی دعا کرو، ان کے لیے خدا تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے رہو، اور ان کے وعدوں کا ایفاء کیا کرو یعنی جو کچھ انہوں نے وعدے کیے لیکن زندگی نہ پائی اور وعدے پورے نہ کر سکے ان کا ایفاءکرو۔ ان کے دوستوں کی تکریم اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ پس ماں کے ساتھ جو حسن سلوک ہے اس کے ساتھ والد کا بھی ذکر ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن جہاں بھی تفریق کا سوال پیدا ہوا، بکثرت ایسی احادیث ملتی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے ماں کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپﷺ سے سوال کیا گیا کہ کس کی خدمت کروں تو آپﷺ نے فرمایا ماں کی۔ پھر سوال کیا گیا اس کے بعد کس کی؟ پھر فرمایا ماں کی۔ پھر سوال کیا گیا پھر جواب تھا ماں کی۔ چوتھی بار اس نے سوال کیا پھر فرمایا ماں کی خدمت کرو۔ پس اس پہلو سے ماؤں کو ایک عظیم مقام اسلام نے عطا کیا ہے اور آنحضرتﷺ چونکہ جو نصیحتیں کیا کرتے تھے ان پر عمل بھی فرماتے تھے۔ جب آپﷺ نے فرمایا، ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک طریق ہے کہ ان کے رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کرو تو اس کا ایک مظاہرہ ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:حضرت ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کو جیرا نہ میں گوشت تقسیم کرتے دیکھا، میں ابھی بچہ ہی تھا اور اونٹ کی ہڈیاں اٹھائے لئے پھرتا تھا اتنے میں ایک خاتون آئیں اور حضورﷺ کے پاس پہنچیں۔ تو آپﷺ نے اُٹھ کر ان کے لیے چادر بچھائی اور اس چادر پر وہ بیٹھ گئیں۔ میں نے پوچھا یہ کون؟ تو صحابہ رضی اللہ عنھم نے بتایا کہ یہ آپﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔ یعنی ماں کے معاملہ میں رضاعی والدہ کو بھی شامل کیا گیا۔ (ابوداؤد۔ کتاب الادب باب فی برالوالدین)
لیکن اس کے علاوہ دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی رضاعی والدہ کے تعلق والوں کے ساتھ بھی آپﷺ نے بے انتہا حسن سلوک کیااور بہت سے موقعوں پر ان سے غیر معمولی بخشش کا سلوک فرمایا۔ پس آنحضرتﷺ کا اسوہ ماں باپ سے حسن سلوک کے متعلق ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ حسن سلوک ان کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ ان کی زندگی کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے۔ (اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد دومحضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ صفحہ ۱۶۴-۱۶۱)