پاکستان میں مولویوں کا انتباہ : قرآن مجید سے براہ راست استفادہ مناسب نہیں
مارچ ۲۰۲۴ء میں ملی مجلس شرعی کا ایک اجلاس لاہور میں ہوا۔ اس تنظیم میں جماعت احمدیہ کے نمایاں مخالفین شامل تھے۔اس اجلاس میں جماعت اسلامی کے فرید پراچہ صاحب اور سابق ممبر پنجاب اسمبلی الیاس چنیوٹی صاحب سمیت مختلف مذہبی تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے۔ موضوع وہی تھا جس نے آج کل مذہبی سیاسی جماعتوں میں بے چینی پیدا کی ہوئی ہے یعنی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ جس میں ایک احمدی کی درخواست ضمانت کو منظور کیا گیا تھا۔
آیات کریمہ غیر متعلقہ کیسے ہو گئیں؟
اس اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس کا زیادہ تر حصہ تو یہ تھا کہ چیف جسٹس صاحب نے اپنے فیصلہ میں جن آیات کریمہ کے حوالے دیے ہیں وہ غیر متعلقہ ہیں۔ مولوی حضرات کو سب سے زیادہ اعتراض اس بات پر تھا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلہ میں ’لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ‘ یعنی ’دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں‘ کیوں درج کی گئی ہے۔ ان حضرات کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو کہ وہ یہ اصرار کر رہے ہیں کہ مذہبی آزادی کے موضوع پر قرآن کریم کی آیت کریمہ غیرمتعلقہ ہیں ۔ انا للہ و انا الیہ رجعون۔ یعنی جو کچھ یہ مولوی حضرات کہہ رہے ہیں، اس پر توملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو آنکھیں بند کر کے عمل کرنا چاہیے لیکن جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس کا ذکر تک نہیں کرنا چاہیے۔
احمدیوں کے بارے میں مطالبات
چنانچہ اس اجلاس میں ان حضرات نے آئین اور قوانین میں نئی تبدیلیوں کے بارے میں بہت سے مطالبات منظور کیے۔ ان مطالبات کی فہرست بہت طویل ہے ۔ اور ان کو پڑھ کر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے:
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
بہر حال اس مضمون میں ان میں سے صرف ایک فرمائش پر تبصرہ کیا جائے گا۔ ان مطالبات میں ایک یہ مطالبہ بھی تھا کہ احمدی قرآن مجید کو اپنی مذہبی کتاب نہیں کہہ سکتے، اس کی طباعت و اشاعت نہیں کر سکتے بلکہ کتاب اللہ کی تدریس بھی نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ آئین اور تعزیرات پاکستان میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں کہ اس بات کو بھی جرم قرار دیا جائے کہ احمدی ایک دوسرے کو قرآن کریم پڑھائیں۔نہ معلوم مخالفین جماعت نے یہ نتیجہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ کوئی غیرمسلم (یا جسے انہوں نے بزعم خود غیر مسلم قرار دیا ہے ) قرآن نہیں پڑھ سکتا؟ اگر وہ قرآن مجید پڑھے گا نہیں تو اس کی حقانیت کا قائل کیسے ہوگا ؟ شاید ان مخالفین نے وہ مشہور واقعہ سن رکھا ہو جب اسلام لانے سے قبل حضرت عمر ؓیہ خبر سن کر اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر پہنچے کہ وہ دونوں مسلمان ہو گئے ہیں ۔ اور اپنی بہن اور بہنوئی پر ہاتھ بھی اٹھایا۔لیکن پھر نادم ہو کر کہا جو تم پڑھ رہے تھے مجھے بھی دکھائو۔ ان کی بہن نے پہلے ان سے غسل کرنے کو کہا پھر قرآن کریم کے اوراق انہیں دیے۔ انہیں پڑھ کر حضرت عمرؓ کا دل ایمان کے لیے کھل گیا اور وہ مسلمان ہو گئے ۔(طبقات ابن سعد اردو ترجمہ از عبد اللہ العمادی جلد ۲۔ناشر دارالاشاعت کراچی ۲۰۰۳صفحہ۷۲)
چیف جسٹس صاحب کو تنبیہ
خیر یہ تو احمدیوں کا ذکر تھا ۔ ان حضرات کو یہ فکر بھی لاحق ہےکہ پاکستان میں کوئی شخص قرآن مجید سے براہ راست استفادہ نہ کر پائے ۔ چنانچہ اس اجلاس میں انہوں نے متفقہ طور پر یہ مطالبہ پیش کیا کہ چیف جسٹس صاحب کے لیے مناسب ہوگا کہ وہ قرآن کریم سے براہ راست استفادہ کرنے کی بجائے علماء سے رابطہ کیا کریں ۔ حالانکہ اس فیصلہ کے بارے میں خود چیف جسٹس صاحب نے مختلف مدرسوں اور مذہبی تنظیموں سے رائے طلب کی ہے لیکن اس کے باوجود علماء نے ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ کیا:’’ انہیں چاہیے کہ قرآن کریم سے براہ راست خود استفادہ کرنے کی بجائے ان اہل علم سے مشورہ لے لیا کریں جنہوں نے ساری عمر قرآن کریم کو سمجھنے سمجھانے اور سیکھنے سکھانے میں گذاری ہے۔‘‘ (رسالہ ختم نبوت جلد ۴۳ شمارہ ۱۴و ۱۵صفحہ ۲۱)
اس طویل رپورٹ کے اوپر یہ عنوان درج ہے کہ ’’ملی مجلس شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کا متفقہ تبصرہ اور تجاویز۔‘‘ اس عنوان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے بہت سے علماء نے غور و فکر کر کے یہ نظریہ دریافت کیا ہے کہ قرآن کریم پر غور و فکر کرنے کا حق صرف ان مولوی حضرات کو حاصل ہے۔ اس سے قبل اسی فیصلہ کے سلسلہ میں مولوی حضرات کا یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ کوئی جج بھی قرآن کریم یا حدیث کی تشریح نہیں کر سکتا ۔جیسا کہ رسالہ اہل حدیث ۸ تا ۱۴؍مارچ ۲۰۲۴ء کے اداریہ کا عنوان ہے ’چیف جسٹس مفتی نہ بنیں‘۔ اس میں لکھا ہے :’’جس طرح آئین کی تشریح کرنا سپریم کورٹ اور ججوں کا کام ہے ایسے ہی قرآن و حدیث اور دینی امور کی تشریح علماء دین ہی کر سکتے ہیں، کوئی جج خواہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو وہ قرآن و حدیث کی تشریح محض قانون کا ماہر ہونے کی بناء پر نہیں کر سکتا۔ اسکے لیے علماء کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا ہوتا ہے۔‘‘
آئین پاکستان اور مولوی حضرات کا مطالبہ
لیکن اب یہ مطالبہ مزید سخت ہو گیا ہے اور یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ عام انسان تو ایک طرف رہا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف جسٹس بھی کسی آیت کی تشریح کرنا تو ایک طرف رہا، براہ راست قرآن کریم سے استفادہ تک نہیں کر سکتا۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک طرف تو پاکستان کے آئین کی شق ۳۱ کے الفاظ یہ ہیں :’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طورپر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کا مفہوم سمجھ سکیں ۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین نے پاکستان کے آئین میں ’مسلمان کی تعریف‘ کے علاوہ کسی اور حصہ کو پڑھنے کا تکلف نہیں کیا۔ پاکستان کے اصل آئین میں تو یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ہر شہری کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ کا مفہوم سمجھ سکے اور مولوی حضرات یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ملک کے چیف جسٹس کو بھی اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قرآن کریم سے براہ راست استفادہ کر سکے اگر اس نے کچھ دریافت کرنا ہے تو ہم سے کرے ۔ گویا قرآن کریم سے براہ راست استفادہ کرنے پر صرف ان مولوی حضرات کی اجارہ اداری ہے۔
قرآن مجید کی راہنمائی کیا ہے؟
یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ قرآن کریم اس سلسلہ میں کیا راہنمائی کرتا ہے؟ قرآن مجید تو ہر شخص کویہ دعوت دے رہا کہ وہ اس کی آیات پر تدبر کرے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَلَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا۔(النساء:۸۳)ترجمہ:پس کیا وہ قرآن پر تدّبر نہیں کرتے۔اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے۔
سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ منافقین کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے:اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا (سورہ محمد: ۲۵)ترجمہ: پس کیا وہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا دلوں پر ان کے تالے پڑے ہوئے ہیں۔
اور خود قرآن کریم یہ اعلان کر رہا ہے کہ قرآن کریم تو نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے تا کہ تمام لوگ اس پر غور و فکر کریں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَلَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ۔ (النحل:۴۵)ترجمہ: اور ہم نے تیری طرف بھی ذکر اتارا ہے تا کہ تو اچھی طرح لوگوں پر اس کی وضاحت کردے تا کہ وہ تفکر کریں۔
یہ آیات کریمہ واضح کر رہی ہیں کہ قرآن کریم بار بار تمام لوگوں کو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ میری آیات پر تدبر کرو اور اچھی طرح غور و فکر کرو ۔ دوسری طرف پاکستان کے مولوی حضرات یہ فتوے جاری کر رہے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی شخص قرآن مجید سے براہ راست استفادہ بھی نہیں کرسکتا۔ ان حضرات کا یہ نظریہ بہر حال اسلامی نظریہ تو نہیں کہلا سکتا البتہ یہ سوال حل طلب ضرور ہے کہ نیم ملاں خطرہ ایمان قسم کے حضرات نے یہ نظریہ کہاں سے اخذ کیا ہے؟
کیا یہ نظریہ منودھرم شاستر سے لیا گیا ہے؟
معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین پرانے زمانے کے ان برہمن پنڈتوں سے بہت متاثر ہو گئے ہیں جنہوں نے ہندو مت کی مقدس کتب پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے یہ اہتمام کیا تھا کہ کسی شودر کو اس بات کی کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہیے کہ ویدوں میں کیا کچھ لکھا ہے۔ ہندو مت کے قوانین کی معتبر کتاب منودھرم شاستر میں لکھا ہے:’’شودر کو ہدایت نہ دے اور نہ ہی (اپنے کھانے کی )جھوٹن یا دیوتائوں کی بھینٹ کیے گئے کھانے میں سے۔(اس طرح کے شخص کو)مذہبی تعلیم نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی اسے برت (یعنی روزے )کا کہا جا سکتا ہے۔
اس لیے( شودر کو) مذہبی تعلیمات سکھانے والا یا اسے برت کا سبق دینے والا اس (شخص) کے ساتھ ہی اسمیرت نامی دوزخ میں جاتا ہے۔‘‘(منودھرم شاستر اردو ترجمہ ارشد رازی۔ ناشر نگارشات پبلشرز لاہور ۲۰۰۳صفحہ۱۰۱)
صرف یہی نہیں بلکہ منو دھرم شاستر میں یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ وید پڑھتے ہوئے اچھی طرح دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں کوئی شودر آس پاس موجود تو نہیں ۔ جیسا کہ اس میں برہمنوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے۔
’’اس کے بعد وہ مہینوں کے روشن نصفوں میں پوری توجہ سے وید پڑھے گا اور تاریک نصفوں میں ان کے انگ ۔
پڑھنے میں صاف ہو اور کوئی شودر پاس میں موجود نہ ہو۔‘‘ (منودھرم شاستر اردو ترجمہ ارشد رازی ۔ناشر نگارشات پبلشرز لاہور ۲۰۰۳صفحہ ۱۰۲ و ۱۰۳)
اگر پاکستان میں جماعت احمدیہ کے مخالف نام نہاد مذہبی طبقہ نے قدیم ہندوستان کے روایتی برہمنوں کے طورطریقے اپنا لیے ہیں تو پھر یہ بھی ضروری تھا کہ آخری ہدف صاحب اقتدار طبقہ ہی ہو۔ اور یہ اہتمام کیا جائے کہ ہرنمایاں عہدیدار ان کے سامنے سر جھکا کر رہے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتا جائے۔ کیونکہ منو دھرم شاستر میں لکھا ہے:’’بادشاہ صبح اٹھ کر برہمنوں کی پوجا کرے… بادشاہ ان کے مشورے پر چلے۔روزانہ ویدوں کے عالم پوتر عمر رسیدہ برہمنوں کا پوجن کرے ۔ عمررسیدہ (برہمنوں ) کی پوجا پر کاربند (بادشاہ ) کی راکھشس بھی عزت کرتے ہیں ۔‘‘ (منودھرم شاستر اردو ترجمہ ارشد رازی۔ناشر نگارشات پبلشرز لاہور ۲۰۰۳صفحہ۱۴۰)
آج سے صدیوں پہلے مقدس کتب پر اپنی اجارہ داری اور صاحبان اختیار پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے پنڈتوں نے جو حکمت عملی اپنائی تھی ۔ پاکستان کے تنگ نظر مولوی حضرات پوری تندہی سے ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔البتہ ان خیالات کا قرآن کریم کی تعلیمات سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔
چرچ نے عوام کو بائبل سے دور رکھا
اب ایسا بھی نہیں کہ اس طرح کی حکمت عملی صرف قدیم زمانہ کے ہندو برہمنوں نے ہی اپنائی ہو۔ تاریخ میں ان کے علاوہ دوسرے مذاہب کے مذہبی لیڈروں نے بھی اس قسم کے احکامات جاری کیے ہیں کہ مقدس کتب کو سمجھنے اور ان سے استنباط کرنے کا حق صرف ہم مذہبی عمائدین کا ہے۔ عام لوگوں کی کیا اوقات کہ مقدس کتب کو سمجھ سکیں ۔ان کی راہنمائی کرنے کا حق صرف ہمیں حاصل ہے۔
شاید آپ خیال کریں کہ کیتھولک چرچ کی مقدس کتاب تو بائبل تھی ۔ آج سے صدیوں پہلے جب زیادہ لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے تو چرچ نے یہ کوشش کی ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ بائبل پڑھیں تا کہ اس پر عمل کر سکیں۔لیکن ایسا نہیں تھا ۔ ۱۲۲۹ء میں ٹولوس (Toulouse) فرانس میں چرچ کے عمائدین کی ایک میٹنگ یا کونسل منعقد ہوئی۔ اس میں یہ عمائدین سر جوڑ کر بیٹھے کہ بہت سے عام لوگ بائبل کے تراجم پڑھ کر اپنی رائے قائم کر رہے ہیں ۔اس خطرے سے نمٹنے کے لیے اس کونسل نے یہ ہدایت جاری کی کہ عام لوگوں کو نئے اور پرانے عہد نامے کی کتابیں رکھنے کی ممانعت کی جاتی ہے سوائے اس کے کہ کسی خاص مذہبی رسومات کے لیے زبور اور دعائیں رکھی جائیں ۔ اور ان مقدس کتب کے تراجم رکھنے کی تو بہر حال سختی سے ممانعت ہے۔اب ظاہر ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ بھی عبرانی اور لاطینی میں لکھی ہوئی کتب نہ پڑھ سکتے تھے اور نہ سمجھ سکتے تھے۔ اس پابندی کا مقصد یہی تھا کہ عام لوگوں کو مقدس کتب تک رسائی نہ ہو تاکہ وہ ہماری ہر بات کو مقدس سمجھ کر بغیر کسی بحث کے قبول کر لیں۔اس کے صرف چار سال بعد سپین میں Council of Tarragonaمنعقد ہوئی اور اس میں یہ ہدایت جاری کی گئی کہ کسی شخص کے پاس بائبل کا رومی ترجمہ نہیں ہونا چاہیے۔اگر کسی کے پاس ایسا ترجمہ موجود ہو تو وہ آٹھ روز کے اندر اندر مقامی بشپ کے حوالے کر دیا جائے تا کہ اسے جلا کر تلف کر دیا جائے۔
لیکن آخر کہا ں تک بائبل کو مسیحی آبادی کے لیے شجر ممنوعہ قرار دیا جاتا۔تاکہ جو چرچ کہے وہ آنکھیں بلکہ آنکھوں کے ساتھ ذہن بھی بند کر کے دل و جان سے تسلیم کرتے رہیں۔آخرکار ۱۳۸۰ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر جان وائیکلف (John Wyclife) نے انجیل کا انگریزی میں ترجمہ کر دیا۔اس پر چرچ نے وائیکلف کی جیتے جی جو مخالفت کی سو کی،مرنے کے بعد بھی اس عالم کی قبر اکھیڑ کر باقیات نکالی گئیں اور انہیں نظر آتش کر کے آتش انتقام کو ٹھنڈا کیا گیا ۔ا س کا قصور کیا تھا ؟ انجیل کا ترجمہ کیا تھا تاکہ عام پڑھا لکھا طبقہ اسے سمجھ سکے اور یہ جاننے کے لیے کہ انجیل میں کیا لکھا ہے چرچ کا مرہون منت نہ رہے ۔
جب جرمنی میں پروٹسٹنٹ تحریک کے بانی مارٹن لوتھر اور کیتھولک چرچ کے درمیان جھگڑا شروع ہوا تو۱۵۲۱ء میں مارٹن لوتھر کو چرچ کےعتاب سے بچانے کے لیے ان کے ہمدردوں نے وارٹبرگ کے قلعہ میں محصور کر دیا۔ اس دوران انہوں نے نئے عہد نامہ کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا۔ اور اس کے بعد پرانے عہد نامے کی کتب کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا جو کہ ۱۵۳۴ء میں مکمل ہوا۔ظاہر ہے کہ کیتھولک چرچ نے اس ترجمہ کو رد کر دیا۔
اس کے فوراََ بعد انگلستان میں ولیم ٹینڈیل (William Tyndale)نے انگریزی زبان میں بائبل کا ترجمہ کیا۔ انجام یہ ہوا کہ انہیں زندہ جلا دیا گیا۔
یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ تاریخ میں مختلف مذاہب کے تنگ نظر طبقے یہ کوششیں کرتے رہے ہیں کہ عوام الناس اپنے مذہب کی حقیقت سے بے خبر رہیں ۔ اور وہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو صحیح سمجھنے پر مجبور ہوں تاکہ جب کوئی ان سے ذرا بھی اختلاف کرے تو اسے ملحد اور مرتد قرار دے دیا جائے۔بدقسمتی سے اس دور میں پاکستان کے اندر تنگ نظر مذہبی طبقہ نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ عوام الناس کو مذہب کے نام پر بھڑکا کر خون خرابہ کرایا جاتا ہے اور منفی جذبات کو اتنی ہوا دی جاتی ہے اکثر لوگ بغیر کچھ سوچے سمجھے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اور اب یہ عمل اس انتہا تک پہنچ چکا ہے کہ جماعت احمدیہ کا مخالف طبقہ ملک کے چیف جسٹس کو متنبہ کر رہا ہے کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ قرآن مجید سے براہ راست استفادہ کریں۔آپ نے قرآنی تعلیمات کے بارے میں کچھ جاننا ہے تو ہم سے راہنمائی کی درخواست کریں۔ اس طرح پوری قوم کو اپنی سوچ کی غلامی کے شکنجے میں قید رکھا جارہا ہے۔خدا پاکستان کے عوام کو اس ذہنی غلامی سے نجات دلائے۔ آمین