مساجد کی اہمیت (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍ اگست ۲۰۰۸ء)
مساجد جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں اور اس لحاظ سے یہ مساجد ایک احمدی مسلمان کی زندگی کا بہت اہم حصہ ہیں اور ہونی چاہئیں۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر مَیں کوشش کرتا ہوں کہ جہاں جہاں بھی ہو سکے خود جا کر ان مساجد کا افتتاح کروں۔ گزشتہ پانچ سال میں جرمنی میں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعت کی توجہ مساجد کی تعمیر کی طرف بہت زیادہ ہوئی ہے اور مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کی روشنی میں جماعت کو اس طرف توجہ بھی دلاتا رہتا ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جہاں بھی جماعت کو متعارف کرانا ہے، اسلام کی تبلیغ کرنی ہے اور اسلام کی حسن و خوبی سے مزین تعلیم کو لوگوں تک پہنچانا ہے، وہاں مسجد کی تعمیر کر دو۔ جس سے اپنی تربیت کے بھی مواقع ملیں گے اور تبلیغ کے بھی مواقع ملیں گے۔ اللہ کرے کہ جب بھی ہم کسی مسجد کی تعمیر کا سوچیں اور اس کی تعمیر کریں یہ اہم مقاصد ہمیشہ ہمارے سامنے رہیں۔ پس اس حوالے سے اگر ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھا اپنا جائزہ لیتا رہے گا تو مساجد کی تعمیر سے فیض پانے والا ہو گا۔
ایک وقت تھا جب ہمبرگ میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ احمدیوں کی تعداد بھی محدود تھی اور وہ مسجد ضرورت کے لحاظ سے کافی تھی۔ علاقے کے لوگوں پر بھی اس مسجد کا بڑا اچھا اثر ہوااور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک ہے لیکن پھر ضرورت کے پیش نظر جماعت کی تعداد بڑھی تو آپ لوگوں نے ایک بڑی جگہ جو ’’بیت الرشید‘‘ کے نام سے موسوم ہے وہ خریدی، جس میں بڑے ہال بھی ہیں اور مسجد کا حصہ ملا کے شاید ہزار بارہ سو تک نمازی اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں اور پہلے جب بھی مَیں آیا ہوں تو مَیں نے دیکھا ہے کہ مسجد پوری بھری ہوتی ہے۔ نزدیکی جماعتوں کے لوگ بھی جمعہ پڑھنے کے لئے آ جاتے تھے تو مارکی لگانی پڑتی تھی۔ تو وہ جگہ بھی چھوٹی پڑ جاتی تھی بلکہ اس دفعہ تو کَل مَیں دیکھ رہا تھا کہ مغرب اور عشاء کی نمازوں پر بھی وہ جگہ چھوٹی تھی اور لوگ باہر نمازیں پڑھ رہے تھے اس لئے آج یہاں اس ہال میں جمعہ کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم چھلانگ لگا کر جب بڑی چیز بناتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتے ہوئے ضرورت کو اور بڑھا دیتا ہے اور جب تک ہم خالص اس کے بندے ہوتے ہوئے یہ کوشش کرتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے گھروں کو آباد کریں اللہ تعالیٰ بھی ضرورتیں بڑھاتا چلا جائے گا اور جماعت انشاءاللہ بڑھتی چلی جائے گی۔ پس ہمیشہ ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں مساجد کے حسن کو دوبالا کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے اور وہ کوشش کس طرح ہو گی؟ وہ کوشش اس طرح ہو گی جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ اس طرح کوشش کرو۔ وہ طریق بتائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے جس کی مَیں نے ابھی تلاوت کی ہے، ترجمہ اس کا یہ ہے کہ تو کہہ دے کہ میرے ربّ نے انصاف کا حکم دیا ہے نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی توجہات اللہ کی طرف سیدھی رکھو اور دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسی کو پکارو۔ جس طرح اُس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم مرنے کے بعد لَوٹو گے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسجد میں آنے والوں کو بعض باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہر مومن کا پہلا فرض ہے کہ وہ اعلان کرے کہ مجھے خداتعالیٰ نے انصاف کا حکم دیا ہے۔ اور انصاف کیا ہے؟ اس بارے میں اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ سورۃ نساء آیت 59 میں فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا (النساء :59) کہ یقیناً اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یعنی جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے۔
یہاں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مومن کا انصاف کا معیار اس وقت قائم ہوتاہے جب ہم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کا حق کس طرح ادا ہو گا اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ہم اسی وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خدا وند منعم نے ہمیں دیا ہے، ہم اس کو واپس کر دیں یا واپس دینے کے لئے تیار ہو جائیں۔ ایک دوسری جگہ آپؑ نے فرمایا کہ اس حق کے ادا کرنے کا حقیقی حق تو آنحضرتﷺ نے ادا فرمایا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قویٰ اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی اور جسمانی ہیں جو خداتعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل برطبق آیت اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا (النساء:59) اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اَتَم طورپر ہمارے سید، ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی، نبی و امی، صادق و مصدوق محمد مصطفیٰﷺ میں پائی جاتی تھی‘‘۔ (آئینۂ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ 161-162)
پس یہ ہے وہ انصاف کا اعلیٰ ترین معیار جو آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا۔ لیکن یہ اُسوہ قائم فرما کر ہمیں بھی اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق یہ حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں حکم ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہﷺ کا جو اُسوہ ہے وہ ہی قابل تقلید ہے۔ وہ کامل نمونہ ہیں جن کے نقش قدم پر چلنے کی تم نے کوشش کرنی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ ہم اُس وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خدا نے ہمیں دیا اسے واپس دیں یا واپس دینے کی کوشش کریں۔ یعنی آنحضرتﷺ نے جو اُسوہ قائم فرمایا اس پر چلنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں کیونکہ آپ نے ہی اللہ تعالیٰ کی امانت کو اللہ تعالیٰ کو لوٹانے کا صحیح حق ادا کیا اور اس کے لئے کوشش کرنا بھی ایک مومن کا فرض ہے اور یہی ایک مومن ہونے کی نشانی ہے۔ اور جب یہ سوچ پیدا ہوتی ہے تو تب ہی انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور ہوں گے۔ سورۃ اعراف میں اَمَرَ رَبِّیۡ بِالۡقِسۡطِ(اعراف:30)کہہ کر جس انصاف کا حکم دیا گیا ہے وہ دو طرح قائم ہوتا ہے ایک اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرکے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے انعاموں کو اس کی رضا کے حصول کے لئے استعمال کرکے، اس کی دی ہوئی امانتوں کو اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کو واپس لوٹاتے ہوئے۔ اور دوسرے بندوں کے درمیان عدل قائم کرکے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ان دونوں باتوں کے لئے جو کوشش ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے۔ جو کامیابی ملنی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملنی ہے۔ اس لئے جب مسجد میں آؤ تو اپنی توجہات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سیدھی رکھو۔ نماز کے لئے کھڑے ہو تو خالص ہو کر اس کو پکارو، اس سے فضل مانگو کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کی ادائیگی کی بھی توفیق عطا فرمائے اور آپس کے تعلقات میں بھی عدل قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کسی کے حقوق غصب کرنے سے بچاتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ جوایسی عبادتوں کے ادا کرنے والے ہوں گے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے وہ پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والے ہوں گے۔ کیونکہ یہی خالص عبادتیں ہیں جن کو خداتعالیٰ سنتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ بصیر بھی ہے صرف ظاہری چیز نہیں دیکھتایا دیکھ رہا بلکہ اس کی بڑی گہری نظر ہے دلوں کے اندرو نے کو بھی دیکھ رہا ہے، انسان کی پاتال تک سے وہ واقف ہے۔ اسے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اے اللہ مَیں تیرے لئے خالص ہو کر سب کچھ کر رہاہوں، اس لئے میری دعاؤں کو قبول فرما۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں بَصِیْر ہوں، مَیں اسے بھی دیکھ رہا ہوں جو تمہارے دلوں میں ہے۔ مَیں تمہاری اس نیت سے بھی واقف ہوں جس سے تم نے امانتیں لوٹائیں، جس سے تم نے صرف اور صرف خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نمازیں ادا کیں۔ اس پر بھی میری گہری نظر ہے جو عدل کے تقاضے تم نے میرے حکموں پر چلتے ہوئے پورے کرنے کی کوشش کی۔