رختِ سفر یادِ ماضی مئی ۱۹۷۱ء تا جون ۱۹۷۶ء
[محترم ڈاکٹر چودھری امتیاز احمدصاحب حال یو ایس اے کو مجلس نصرت جہاں کے تحت مغربی افریقہ میں طبی خدمات بجالانے والوں میں السابقون الاولون کا مقام حاصل ہے۔ آپ کی ایک اَور نمایاں خدمت حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہومیوپیتھی کتاب ’’ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل‘‘کا انگریزی ترجمہ ہے۔ ان کی تحریر کردہ پاکستان سے سیرالیون تک کے طویل اور صبر آزما سفر کی داستان ہدیہ قارئین ہے۔(ادارہ)]
۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کادورہ مغربی افریقہ وقوع پذیر ہوا۔ اس کے دوران گیمبیا سے نصرت جہاں سکیم یعنی Leep Forward Program کا اعلان ہوا۔ جس میں تعلیمی مدارس اور دُورافتادہ مقامات کے لیے شفا خانے بنانا مقصود تھا۔
حضورؒ سے اگست ۱۹۷۰ء میں اپنے آپ کو پیش کرنے والےڈاکٹرز و اساتذہ کی ملاقات ہوئی۔جس میں خاکسار ، ڈاکٹر اسلم جہانگیری صاحب اور ڈاکٹرسردار محمد حسن شامل تھے۔
مئی ۱۹۷۱ء میں بمشکل تمام گورنمنٹ سے N.O.C ملا اور اسی دن ڈسٹرکٹ ہسپتال شیخوپورہ جس میں خاکسار بطور سرجن متعین تھا ، سے فراغت ہوئی۔ محمد اسماعیل منیر صاحب سیکرٹری مجلس نصرت جہاں تھے۔ ہفتہ میں دو نہیں تو ایک خط تواتر سے آتا رہا۔
لیٹر ہیڈ پر ’خدمتِ دین کو اک فضل الٰہی جانو‘ اور ’ارضِ بلال پکار رہی ہے‘درج ہوتا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ولایت سے لائی ہوئی VW (فوکسی) کار بیچ کر مکان کے لیے H بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک پلاٹ خرید لیں بلکہ تقریباً معاملہ طے ہو چکا تھا مگر مکرم محمد اسماعیل منیر صاحب سیکرٹری مجلس نصرت جہاں کے ولولہ انگیز خطوط کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
ویزا کے ملتے ہی چند روز کے اندر مع اہلیہ اور تین بچے (رضوان ، شازیہ ، صائمہ ) لاہور سے ایک چھوٹے فوکر طیارے کے ذریعہ براستہ ملتان حیدرآباد پہنچے۔ تین دن قیام تھا۔ ان دنوں میرے بہنوئی میجر حمید احمد کلیم صاحب نوازآباد فارم کے انچارج تھے۔ ان کے ایماء پر ڈاکٹر نامی صاحب سے SNAKO دوائی خریدی۔ اس دوا کا ذکر بعد میں آئے گا کہ کتنی سستی مگر مؤثر نکلی۔
ملتان کے ہوائی اڈے پر میرے عزیز دوست ڈاکٹر ولی محمد ساغر صاحب مجھ سے الوداعی ملاقات کے لیے آئے۔ استفہامیہ انداز میں کہنے لگے کہ امتیاز افریقہ جارہے ہو؟ جواباً میں نے کہا کہ ایسے مواقع قسمت سے ہی نصیب ہوتے ہیں۔ وہاں بھی تو مجھے ڈاکٹر ہی رہنا ہے۔
اس حصول مقصد کے لیے میرے تین بڑے محرکات تھے۔ نمبر ایک سعادت از خداوندی، نمبر دو میرے عزیز بہنوئی میجر حمید احمد کلیم صاحب اور سب سے بڑھ کر میرے ابا جی کا حوصلہ تھا جنہوں نے باوجود پیرانہ سالی کے بڑی خوش دلی سے افریقہ جانے کی اجازت دی۔ (۱۹۶۹ء میں جبکہ میری والدہ وفات پا گئی تھیں اور انہوں نے ان کی وفات کے بعد ۱۳سال تن تنہا گزارے۔)
حیدر آباد میں تین دن قیام کے بعد کراچی بذریعہ فوکر جہاز پہنچے۔ اور وہاں سے سیرالیون کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔
ان دنوں ہوائی پروازیں کم ہوتی تھیں ۔ پہلی پرواز سے بذریعہ Viscount جہاز بیروت پہنچے۔ وہاں چند گھنٹے ہوٹل میں ٹھہرے۔ بیروت کو ایشیائی سوئٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کروں کہ پاکستان کی حکومت نے زرِ مبادلہ(فارن ایکسچینج) کی مد میں صرف ۱۵؍پاؤنڈ منظور کیا تھا۔
ٹیکسی والے نے اپنے دستور کے مطابق بخشیش مانگی رقم تو تھی نہیں۔ بڑی حکمت کے ساتھ عاجزانہ طور پر خلاصی حاصل کی۔
اگلا سفر بیروت سے قاہرہ، مصر کا تھا۔ وہاں دو دن ہوٹل میں قیام ہوا۔ ہوٹل والے بہت مہربان اور فراخ دل نکلے۔ زندگی میں پہلی بار وہاں چھوٹےچھوٹے کیلے دیکھنے میں آئے۔ ہوٹل کی کھڑکی سے جہاز اترتے اور اڑتے دیکھتے رہے۔ گنتی یاد نہیں۔ ہماری فلائٹ تو دو دن کے بعد جانی تھی۔ اسی دوران اہرامِ مصر دیکھنے کا قصد کیا۔ شومئی قسمت کہ وہ مقام بند نکلا۔
قاہرہ سے Egypt Air کی فلائٹ بوئنگ ۷۰۷ ہمیں لے کر کانو، نائیجیریا کے ہوائی اڈے پر اتری جہاں تھوڑی دیر رک کر یہ فلائٹ ہمیں لاگوس نائیجیریا لے آئی۔
مئی کے آخری ایام تھے۔ گرمی سخت اور رطوبت سو فیصد تھی۔ ہوٹل میں شام تک قیام ہوا۔ وہاں گھاس پر بیسیوں gonosہمیں دیکھنے کو آئے،جن کو لوکل زبان میں4 o’clockکہا جاتا ہے اور گھاس پر رہتے ہیں۔
سیرالیون کے لیے وہاں سے انٹرنیشنل ہوائی اڈا لیگوس پر پہنچے ، وہاں پر ڈاکٹر عمر دین سندھو صاحب ہمیں خوش آمدید کہنے اور الوداع کہنے آئے ہوئے تھے۔ (ایک پنتھ دو کاج)۔ محترم ڈاکٹر صاحب موصوف فرشتہ صفت انسان تھے۔ میرے دورانِ تعلیم نشتر ہسپتال ملتان میں DMS(ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ) تھے۔
وہاں سے نائیجیرین ایئر ویز کی کوسٹل پرواز سے آبی جان (آئیوری کوسٹ)، اکرا(گھانا)، منروویا (لائبیریا) کو ہیلو ہیلو کرتے اپنی منزلِ مقصود لنگے ایئر پورٹ (سیرالیون) پہنچے۔ سفر سے پہلے اور دورانِ سفر اپنی اہلیہ محترمہ اور بچوں کو میں پہلے ہی سمجھا چکا تھا کہ ہم افریقہ جا رہے ہیں ۔ وقف کا تقاضا ہے کہ افریقہ کو افریقہ جان کر ہی رہنا ہے۔ انگلستان اور پاکستان قصۂ پارینہ ہوں گے۔ مجھے نہیں یاد کہ اتنے لمبے اور صبر آزما سفر میں کسی نے کوئی شکایت کی اور نہ ہی بعد میں دورانِ قیامِ وطنِ اختیار۔
لنگے ایئر پورٹ فری ٹاؤن سے باہر ایک جزیرہ میں ہے۔ دیارِ غیر میں پر سانِ حال اور گلے ملنے والا کوئی نہ تھا۔
وہاں سے بس میں بیٹھ کر فری ماؤنٹ کے راستے Freemont ہوٹل میں پہنچے۔ وہاں جا کر امیر صاحب سیرالیون مولانامحمد صدیق صاحب گورداسپوری کو حیران بلکہ خاصا پریشان کر دیا۔ فرمانے لگے کہ ہمیں تو آپ کے آنے کی اطلاع ہی نہیں ملی۔ باہر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ربوہ سے چار روز پہلے کی بھجوائی ہوئی تار نہیں پہنچی تھی۔ امیر صاحب فوراً سے پہلے تشریف لائے اور ہمیں بصد عزت اور معذرت مشن ہاؤس لے آئے۔
انہوں نے اپنے خادم ارونا (ہارون) کو بلایا: Arona! come small
انگریزی کا یہ فقرہ سن کر ہنسی سے طویل سفر کی ساری کوفت جاتی رہی۔ اور پھر فرمایا: Pull chop۔ کھانا لے آؤ۔
ڈاکٹر اسلم جہانگیری صاحب ہم سے چند روز پہلے پہنچ چکے تھے۔ السابقون الاولون۔ اپنا مشن ہاؤس واقع بروک فیلڈ بہت خوبصورت پایا۔ اس کے قرب میں سڑک کی دوسری سمت پریذیڈنٹ ہاؤس تھا۔ درمیا ن میں کافی خالی رقبہ تھا۔ جہاں صدرِ مملکت کی گائیں خدا کی پیدا کردہ گھاس چرنے میں مصروف رہتیں ۔
امیر صاحب کی فیملی اس وقت وہاں نہیں تھی۔ گھر کا کام ارونا کرتا تھا۔ میری اہلیہ اور ڈاکٹر اسلم صاحب کی اہلیہ نے بھی خوب ہاتھ بٹایا۔ اگلےروز امیر صاحب محترم نے میری اور ڈاکٹر اسلم صاحب کی اہلیہ کو بازار بھجوایا تاکہ گھروں کی بیڈ شیٹس کے لیے بڑے عرض کا کپڑا خرید لیں۔ اگلے روز محکمہ صحت میں رجسٹریشن ہوگئی تو ڈاکٹر اسلم کے جورو (Joru) پہنچ جانے کے بعد ہمارا بواجے بو (Boajibu) جانے کا پروگرام بنا۔
یہاں بتاتا چلوں کہ امیر صاحب نے فرمایاکہ آپ سارے مجوزہ کلینکس کی جگہیں دیکھ لیں۔ میں نے عرض کیا کہ ضرور دیکھوں گا لیکن سب سے پہلے میری تعیناتی فرما دیں۔ میں وقف پر آیا ہوں میری چوائس کا سوال نہیں۔
اس وقت نذیر چودھری صاحب کسی ٹاؤن (Kissy Town)میں احمدیہ سیکنڈری سکول کے پرنسپل تھے۔ وہ مجھے سمجھاتے رہے کہ آپ روکوپر(Rokupr) جائیں وہاں بجلی ہے۔ میں نے صاف انکار کیا اور بن مانگے مشورہ کو ٹھکرا دیا۔آخر کار بواجے بو جانے کا دن بھی آ گیا۔
امیر صاحب کی کار VW اسٹیشن ویگن تھی۔ کافی عمررسیدہ اور تجربہ کار تھی۔ ڈرائیور کا نام بنگورا تھا۔ اس کی تیز روی بھی مسلمہ تھی۔ ہمارا سامان بھی کافی سے زیادہ تھا۔ جس میں پورے چار سالوں کے لیے پارچہ جات بھرے ہوئے تھے۔
نو بجے صبح کو ناشتہ وغیرہ کر کے عازمِ سفر ہوئے۔ مائل۴۷ (Mile47)جسے آج کل مشاکا ٹاؤن کہتے ہیں، پہنچنے سے پہلے ٹائر فلیٹ ہوگیا۔ جو بدلا گیا اور مائل ۴۷ پر مرمت ہوا۔ اگلے مقام مائل۹۱(Mile91) سے پہلے ایک اور ٹائر پھٹا تو مرمت شدہ ٹائر زیر استعمال آیا۔
اللہ اللہ کر کے اگلے مقام یعنی بو (Bo) کا قصد ہوا۔ شومیٔ قسمت کہ وہاں پہنچنے سے پہلے spare ٹائر نے جواب دے دیا۔ شام ڈھلنے کو تھی۔ ہمیں تو کسی نیک دل کی کار میں بٹھا کر Bo روانہ کر دیا گیا۔ ڈرائیور رک گیاکہ کار کو ٹھیک کر کے بو پہنچے گا۔ بو مشن ہاؤس میں منصور بشیر صاحب مبلغ سلسلہ متعین تھے۔ وہاں کھانا کھایا۔ کار پہنچ جانے پر منزلِ مقصودیعنی بواجے بو کا رخ ہوا۔ رات ہوگئی تھی لیکن بواجے بو ضرور پہنچنا تھا۔ کیونکہ ہماری آمد پر استقبالیہ جوجو ڈانس(استقبال کا ایک لوکل طریقہ) تجویز تھا۔ عزیزو محترم بشیر اختر صاحب احمدیہ سیکنڈری سکول کے پرنسپل تھے انہوں نے پوری تیاری کی ہوئی تھی۔
ہماری قسمت کہ ہم بلاما (Blama)سے ہوتے ہوئے آدھی رات کو بواجے پہنچے۔ لوگ تھک تھکا کر بکھر چکے تھے اور ہم جلوس نکلوانے سے بال بال بچ گئے۔ بو سے بلاما تک سڑک بُری نہیں تھی۔ بلاما سے بواجے بو کا فاصلہ ۲۴؍میل تھا مگر اس کی مشہوری تھی کہ ۲۴ میل، ۲۴ گاؤں، ۲۴؍پل اور ۲۴؍موڑ۔ اور یہ مشہوری اب بھی قائم ہے۔ ہر لکڑی کے تختوں کے پل کے ساتھ موڑ ہے اور کوئی سائیڈنگ نہیں اور اب تک بھی نہیں ہے۔ سڑک پر کچی پکی یعنی کنکریوں ملی مٹی ہے۔ڈرائیور کو بڑی مہارت اور ہوش و حواس میں رہ کر سائیلنسر کو بچانا پڑتا ہے ۔ الحمدللہ ۲۴۰ میل کا خاصا صبر آزما سفر اختتام پذیر ہوا۔ ہماری رہائش کا بندو بست پافواض (Pa Fuwaz) کے گھر کی اوپر کی منزل میں تھا۔ ۵۳ سال قبل یہ سفر ۱۵ گھنٹوں میں طے ہوا ۔ الحمد للہ
٭…٭…٭