آرہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج
مالٹا ایک رومن کیتھولک عیسائی ملک ہے جس میں ۹۶؍ فیصد لوگ رومن کیتھولک مذہب سے منسلک ہیں اور اپنے عقائد میں بہت سخت ہیں جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مالٹا میں مجموعی طور پر ۳۵۹؍گرجا گھر (چرچ) ہیں۔ مالٹی لوگ اپنے آپ کو ویٹیکن سے بھی زیادہ عیسائی تصور کرتے ہیں اور یہ جملہ عام بولتے ہیں کہWe are more Catholic than the Vatican
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ملک میں بھی تبدیلی کی ایک فضا ہے جس کے مختلف نظارے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔
خاکسار گذشتہ دنوں مالٹا کے ہسپتال میں کسی کی عیادت کے سلسلے میں گیا اور انتظار گاہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ سامنے والی کرسیوں پر چار مالٹی لوگ آکر بیٹھ گئے اور آپس میں گفتگو کرنے لگے اور اسی دوران ایک شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بات کرنے لگا جس کی وجہ سے خاکسار کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی۔ انہوں نے دوسرے دوستوں سے کہا کہ میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر فوت ہوئے اور نہ ہی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ وفات کے بعد زندہ ہو کر آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں۔ کہنے لگے یہ محض کہاوتیں ہیں جو بنائی گئی ہیں اور ان کو دو ہزار سال گزر گئے ہیں اس لیے ان کی صداقت کو بھی پرکھنا مشکل ہے لیکن لوگ ان پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں۔ کہنے لگے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو معجزات کا ذکر ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتے تھے وغیرہ ان پر بھی یقین نہیں رکھتا یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
ان کی یہ بات سننے کے بعد خاکسار ان کی طرف متوجہ ہوا اور ان کی گفتگو میں شریک ہوا اور ان سے پوچھا کہ آپ کس بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ یہ ایک عام منطق اور عقل (basic logic and common sense) کی بات ہے۔ ساتھ تفصیل بتانے لگے کہ حضرت عیسیٰؑ کو صلیب دینے کے بعد نہ تو ان کی ہڈیاں توڑی گئیں اور نہ ہی رائج الوقت طریقہ کار کو فالو کیا گیا توپھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ صلیب پر فوت ہوگئے۔ ساتھ کہنے لگے کہ انہیں ہدایت تھی کہ یہ مرنے نہ پائیں۔ بعد میں قبر میں رکھے گئے اور وہاں ان کا علاج وغیرہ بھی کیا گیا۔ کہنے لگے اگر حضرت عیسیٰؑ وفات کے بعد اچانک زندہ ہوجاتے تو وہ لوگ جو اُن کے اردگرد تھے وہ تو خوف کے مارے بھاگ اٹھتے کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ اور پھر یہ بات پورے علاقہ میں مشہور ہوجاتی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا نہ ہی وہ لوگ جو ان کے اردگرد تھے ان کے بھاگنے کا کوئی پتا چلتا ہے اور نہ ہی اس بات کے علاقہ میں پھیلنے کا۔ کہنے لگے یہ محض حکایات ہیں جو دو ہزار سال پرانی ہیں ان کی تصدیق کیسے کی جائے اور لوگ ان کو مانتے بھی ہیں اس لیے ان کی سچائی کیسے پتا کی جائے۔
اس پر خاکسار نے انہیں تفصیل کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان فرمودہ حقائق کی روشنی میں تفصیل سے بتایا اور معجزات کی حقیقت کے بارے میں بھی آگاہ کیا جس پر وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے ان تمام باتوں کی تصدیق کی کہ ہم بھی یہی مانتے ہیں۔
٭…٭…٭