حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت مسیح موعودؑ کی خلافت دائمی ہے (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍مئی۲۰۰۴ء)

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ(سورۃ النور: 56)

اس کا ترجمہ ہے:کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے، یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خلافت کا وعدہ کیا ہے لیکن ساتھ شرائط عائد کی ہیں کہ ان باتوں پر تم قائم رہو گے تو تمہارے اندر خلافت قائم رہے گی۔ لیکن اس کے باوجود خلافت راشدہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں صرف تیس سال تک قائم رہی۔ اور اس کے آخری سالوں میں جس طرح کی حرکات مسلمانوں نے کیں اور جس طرح خلافت کے خلاف فتنے اٹھے اور جس طرح خلفاء کے ساتھ بیہودہ گوئیاں کی گئیں اور پھر ان کو شہید کیا گیا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ختم ہو گئی اور پھرملوکیت کا دور ہوا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرما دیا تھا اور اس ارشاد کے مطابق ہی تھا کہ اگر تم ناشکری کرو گے تو فاسق ٹھہرو گے۔ اور فاسقوں اور نافرمانوں کا اللہ تعالیٰ مدد گار نہیں ہوا کرتا تو بہرحال اسلام کی پہلی تیرہ صدیاں مختلف حالات میں اس طرح گزریں جس میں خلافت جمع ملوکیت رہی پھر بادشاہت رہی پھر اس عرصہ میں دین کی تجدید کے لئے مجدد بھی پیدا ہوتے رہے۔ یہ ایک علیحدہ مضمون ہے، اس کا ویسے تو میں ذکر نہیں کر رہا۔

لیکن جو بات میں نے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خوشخبریاں دی تھیں اور جو پیشگوئیاں آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اپنی امت کو بتائی تھیں اس کے مطابق مسیح موعودؑ کی آمد پر خلافت کا سلسلہ شروع ہونا تھا اور یہ خلافت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی رہنا تھا اور رہنا ہے انشاء اللہ۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔ (مسند احمد بن حنبل۔ مشکوٰۃ کتاب الرقاق باب الانذار والتحذیر الفصل الثالث)

پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس دور میں اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس دائمی خلافت کے عینی شاہد بن گئے ہیں بلکہ اس کو ماننے والوں میں شامل ہیں اور اس کی برکات سے فیض پانے والے بن گئے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت ایک مبارک امّت ہے۔ یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری زمانہ، یعنی دونوں زمانے شان و شوکت والے ہوں گے۔

اس آخری زمانے کی بھی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرما دی کہ وہ کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپؐ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی جب آپؐ نے اس کی آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ پڑھی جس کے معنے یہ ہیں کہ کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان صحابہ ؓ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے۔ تو ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہؐ! یہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جواب نہ دیا۔ اس آدمی نے تین دفعہ یہ سوال دوہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی ؓ ہم میں بیٹھے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اٹھ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ واپس لے آئیں گے۔

یعنی آخرین سے مراد وہ زمانہ ہے جب مسیح موعود کا ظہور ہو گا اور اس پر ایمان لانے والے، اس کا قرب پانے والے، اس کی صحبت پانے والے صحابہؓ کا درجہ رکھیں گے۔ پس جب ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور یہ زمانہ پانے کی توفیق عطا فرمائی جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کا درجہ دیا ہے۔ تو یہ بھی ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق خلافت علی منہاج نبوت بھی قائم رہے۔ یہاں یہ وضاحت کر دی ہے جیسا کہ پہلے حدیث(کی روشنی)میں مَیں نے کہا کہ مسیح موعود کی خلافت عارضی نہیں ہے بلکہ یہ دائمی خلافت ہو گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button