’’اس زمانے کا حصنِ حصین میں ہوں‘‘ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
آج دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوئے ایک صدی سے زائد عرصہ گذرگیا ہے۔لیکن غیر مسلم تو الگ رہے،خود مسلمانوں میں سے بھی ایک قلیل تعدادایمان لائی ہے۔قرآن کریم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایمان لانے والے ہمیشہ قلیل ہی ہوتے ہیں۔دوسری طرف دنیا میں جنگ کے طبل بج رہے ہیں۔قومیں قوموں پر چڑھائی کر رہی ہیں۔ یاجوج و ماجوج جو خطرناک ہتھیار بنا چکے ہیں اگر ان کا استعمال ہو جاتا ہے توان سےبچاؤ کا راستہ کسی کو نظر نہیں آرہا۔ تاہم قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں بچاؤ کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اللہ کی طرف رجوع اور اُس کے مامور پر ایمان لاتے ہوئے اس کی قائم کردہ خلافت سے وابستہ ہوجانا اور مکمل اطاعت اور عمل صالح کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھک جانا۔ اس زمانے میں اس کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود نہیں۔میں قرآن کریم سے ہی اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔
انسان کو اللہ نے پیدا کیا اور دنیا میں ہم یہ اصول دیکھتے ہیں کہ کسی چیز کو پیدا کرنے والا ہی اس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔ مثلاً ماں کی مثال ہی دیکھ لیں۔ جنگل میں جانور کا بچّہ بھی ماں سے دُور ہو تو وہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ بچہ شیر کا بھی ہو اگر پیدا کرنے والی ماں سے دُور چلا جائے توجنگل میں ایک کتّا بھی اس کا شکار کر لیتا ہے۔اُس کی بچت اسی میں ہے کہ اپنی پیدا کرنے والی ماں کے قریب رہے۔ماں بھی تب تک حفاظت کرسکتی ہے جب تک بچّہ خود اس کے برابر نہ ہوجائے۔جب وہ خود ماں کے برابر ہو جاتا ہے تو پھر اسے ماں کی ضرورت نہیں رہتی۔یہی حال انسان کا ہے۔انسان جتنا خداسے دُور ہوتا ہے اتنا ہی خطرات کا شکار ہوتا ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے۔ جب اللہ اسے طاقت اور ترقی عطا فرماتا ہے تو جانوروں کی طرح وہ اپنے آپ کو خدا کے برابر سمجھنے لگتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اب مجھے خدا کی ضرورت نہیں۔جبکہ انسان اپنی پیدا کرنے والی ماں کے برابر تو ہو سکتا ہےلیکن خواہ کتنا ہی بڑا ہو جائے وہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کے برابر نہیں ہو سکتا۔اور اپنی اسی غلط فہمی میں خود اپنے ہی ہاتھوں تباہی اور عذاب کے سامان پیدا لیتا ہے۔ لیکن اللہ کی ذات، جو اس سے محبت کرتی ہے،جو کبھی نہیں چاہتی کہ وہ عذاب میں پڑے۔وہ خدااس سرکش انسان کو سمجھانے اور بچانے کے لیے نبی بھیجتا ہے۔جو اسے واپس اللہ کی طرف بلاتا ہے۔ لیکن انسان اپنی سرکشی میں نہ صرف اس کا انکار کرتا ہے بلکہ اس سے تمسخر کرتا اور اسےدکھ اور تکلیف دیتا ہے۔یہ سنّت اللہ ہے کہ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا۔(بنی اسرائیل: ۱۶) مامور کا اصل کام لوگوں کو خدا کے قریب کرنا ہوتا ہے۔ اگر مامور کی آواز پہ لبّیک کہتے ہوئے وہ خدا کا قرب حاصل کرلیں تو عذاب سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
آخری زمانہ کی پیشگوئیاں بتاتی ہیں کہ اس زمانے میں انسان کی روحانی حالت بہت بدتر ہوگی اور علماء جن کا کام لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہوتا ہے، یہودی علماء کی طرح یہ خود آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے۔ یہی حالت اِس دور میں مسیح موعود کی آمد کا تقاضا کرتی تھی اور اللہ نے اپنی سنّت کے مطابق وہ مسیح و مہدی بھیجا جس نے یہ اعلان کیا کہ ’’وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے،اس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اورسچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اوردینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کردوں۔ اور روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلاؤں اورخدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں،حال کے ذریعہ نہ محض قال سے،ان کی کیفیت بیان کروں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک شرک کی آمیزش سے خالی ہے، اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوّت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے‘‘۔(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ۱۸۰)
مگر افسوس کہ آج کا انسان خدا سے زیادہ دنیاوی طاقتوں پہ بھروسہ کر رہا ہے۔ آج مسلمان ملکوں نے بھی اللہ کو چھوڑ کر امریکہ، رُوس، چائنا،یورپ کو اپنا سہارا بنا لیا ہے۔ اللہ کے بجائے اُن طاقتوں کے اشارے پہ چل رہے ہیں اور اپنے بچاؤ کے لیے کوئی امریکہ اور یورپ کی طرف توجّہ کرتا ہے اور کوئی چین اور روس کا سہارا لینا چاہتا ہے۔ اللہ کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔اور یہ طاقتیں آج اپنے آپ کو سُپر کہتی ہیں اور خدا اور رسول سے تمسخر کر رہی ہیں۔اسی بات نے دنیا کی تباہی اور عذاب کے سامان پیدا کردیےہیں۔
ایسی صورت میں جب دنیا عذاب کے کنارے پر پہنچ چکی تھی تو اللہ نے اپنی سنّت کے مطابق اپنے موعود مسیح کو بھیجا تاکہ دنیا عذاب سے بچ جائے۔اُس آنے والے مسیح اور اس پر ایمان لانے والوں کے متعلق آنحضورﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ کہ اُن کی حالت بھی میری اور میرے صحابہؓ جیسی ہو گی۔ یعنی انہیں تکالیف بھی اسی طرح اٹھانی پڑیں گی جیسے مجھے اور میرے صحابہ کو اُٹھانی پڑیں اور ان کو برکات بھی وہی ملیں گی جو مجھے اور میرے صحابہؓ کو ملیں۔ جیسےدشمن مجھے تباہ نہیں کر سکا، انہیں بھی تباہ نہیں کر سکے گا۔ فرمایا کیف تھلک امّۃ انا اوّلھا وعیسیٰ ابن مریم اٰخرھا۔نیز فرمایا کہ میری اُمّت کی مثال بارش کی طرح ہے جس کے بارے نہیں کہا جاسکتا کہ اس کاپہلا حصّہ بہتر ہے یا آخری۔ آپﷺ نے اپنے بارے میں بھی فرمایا کہ میں اور السّاعۃ کھاتین ایسے ملے ہوئے ہیں جیسے یہ دو انگلیاں( انگلیاں ملاتے ہوئے فرمایا) اور مسیح موعود کو بھی اشراط السّاعۃ میں سے قرار دیا کہ مسیح کے آنے کے بعد السّاعۃ آئے گی۔عام علماء نے اس سے مراد قیامت کا دن لیا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ کیونکہ وہ قیامت تو اشرار النّاس پہ آئے گی اور حضورﷺ اور مسیح موعود لوگوں کو شریر نہیں بلکہ نیک بنانے آئے ہیں۔ دراصل حضورﷺ نے اپنے اور مسیح کے بعد آنے والے رُوحانی انقلاب کو تمثیلی طور پہ قیامت قرار دیا ہے۔ اس تمثیل پر غور کرنا چاہیے کہ قیامت کسے کہتے ہیں؟ قیامت کا دن وہ ہے جس دن مردے زندہ کیے جائیں گے۔مردہ روح پھونکنے سے زندہ ہوتا ہے۔رُوح کیا ہے؟ مفردات امام راغب کے مطابق روح کا مطلب یہ ہے کہ
(۱) رُوح اللہ کے کلام کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَيَسْأَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۖ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ وَمَا أُوْتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيْلًا (بنی اسرائیل:۸۶)۔اسی وجہ سے قرآن کریم کو بھی روح قرار دیا گیا، فرمایا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا (الشوریٰ:۵۳)۔
(۲) اسی طرح وہ فرشتہ جو یہ کلام لے کے اُترتا ہے، وہ بھی روح کہلاتا ہے۔ فرمایا: نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِيْنُ (الشعراء:۱۹۴) پھر فرمایا: قُلْ نَزَّلَهُ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ (النحل: ۱۰۳) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ ایَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرۃ:۸۸)
(۳) پھر وہ نبی جس پر کلام نازل ہوتا ہے وہ بھی رُوح کہلاتا ہے۔ اسی لیے حضرت عیسیٰ ؑکو روح منہ (النساء:۷۲)کہا گیا۔آنحضورﷺ کو بھی فرمایا کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا (الشوریٰ:۵۳)۔اور حضرت آدم کے بارے میں بھی محض ان کی پیدائش پہ سجدہ ٔاطاعت کرنے کا حکم نہیں تھا بلکہ ان کو سجدۂ اطاعت کرنا تب واجب ہوا جب ان پر اللہ کی رُوح یعنی اُس کا کلام نازل ہوا۔ یعنی وہ نبی بنائے گئے۔فرمایا: فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَنَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ (الحجر:۳۰) اور فرمایا: یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرُوۡۤا اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوۡنِ (النحل: ۳) یعنی وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا کلام نازل کر تا اور اسے لوگوں کے انذار پہ مامور کر دیتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ رُوح دراصل اللہ کے کلام اور اس کے حکم کا نام ہے، جس سے زندگی ملتی ہے۔ اور وہ فرشتہ جو یہ کلام لاتا ہے وہ بھی رُوح ہے اور وہ نبی جس پر وہ کلام اترتا ہے وہ بھی رُوح اللہ کہلاتاہے۔ اور وہ لوگ جو جسمانی طور پہ تو زندہ ہوں لیکن روحانی طور پہ مردہ ہو کر اللہ کے عذاب کے مستحق ہوچکے ہوں۔ انہیں رُوحانی زندگی عطا کر کے عذاب سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی کو چنتا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل کر کے اسے بھی اپنی رُوح بنا دیتا ہے۔ اور پھر خدا سے دُور، روحانی مردے،جب اُس روح اللہ،یعنی نبی سے اپنا تعلق قائم کرتے ہیں تو وہ رُوحانی طور پہ دوبارہ زندہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وہ اُس نبی کے ذریعہ تعلق باللہ میں جتنا بڑھتے جاتے ہیں اتنا ہی ان میں رُوحانیت ترقی کرتی جاتی ہے۔ یہ ہیں وہ مردے جو نبیوں کے ذریعہ زندہ کیے جاتے ہیں۔ یہی مردے تھے جو عیسیٰ( علیہ السلام)نے زندہ کیے۔ لیکن اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ ہر نبی روح اللہ ہوتا ہے اور رُوحانی زندگی عطا کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کام حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے کیا۔اللہ تعالیٰ کا آپؐ کو یہی حکم تھاکہ وَجَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا (الفرقان:۵۳) کہ اس قرآن کے ذریعہ سے ان سے جہاد کر۔ لہٰذا آپﷺ کی تبلیغ اور دعاؤں سے ہزاروں مردوں کو زندگی عطا ہوئی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’ وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرہ گذرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔اور گونگوں کی زبان پر الہٰی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نےدنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجیب باتیں دکھلائیں جواس امّی و بےکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں ‘‘( برکات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶، صفحہ ۱۰-۱۱)
اب آئندہ قیامت کے دن تک آپﷺ ہی کے فیض سے یہ مردے زندہ ہو سکیں گے۔حتّٰی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آپؐ پر نازل شدہ کلام اللہ یعنی قرآن کریم کے ذریعے ہی اس زمانہ میں مردوں کو زندہ کررہے ہیں۔ چونکہ اب جو بھی روحانی مردے زندہ ہوں گے وہ آپﷺ ہی کے فیض سے ہوں گے لہٰذا ان کو برکتیں بھی وہی ملیں گی جو آپﷺ کے فیض سے پہلوں کو ملی تھیں۔
یہ وہ السّاعۃ یعنی انقلاب ہےجو آنحضورﷺ کے ذریعہ قائم ہوئی اور یہی وہ السّاعۃ ہے جو آخری دَور میں آپﷺ کے ظلِّ کامل، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے قائم ہو رہی ہے اور مردے پھر زندہ کیے جارہے ہیں۔
لیکن آخری زمانے میں بڑے پیمانے پرمردے زندہ کرنے کا یہ انقلاب کب آئے گا؟ اس بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَاۤ اَنَّہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ۔ حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ۔ (الانبیاء:۹۶) کہ اب جس بستی (کے لوگوں ) کو ہم نے ہلاک کر دیا ہے وہ واپس (زندگی کی طرف) نہیں لوٹیں گے جب تک یاجوج و ماجوج نہ کھول دئے جائیں اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔دجّال اور یاجوج و ماجوج ایک ہی ہیں جن کا روحانی قتل مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ مقدر کیا گیا ہے۔دجال کا یہ قتل ظاہری نہیں بلکہ دلائل سے قتل کرنا ہے۔ جیسا کہ فرمایا کہ لِیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّیَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ (الانفال: ۴۳) تاکہ وہی ہلاک ہو جس کی ہلاکت کا جواز کھلی کھلی حجّت سے ہواور وہی زندہ رہے جس کی زندگی کا جواز کھلی کھلی حجّت سے ہو۔
یہ ذہن میں رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دجال کے خلاف جہاد اور مقابلہ کوئی مختصر قصّہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ دلائل کی، صبر و استقامت کی، قربانیوں اور دعاؤں کی ایک لمبی جنگ ہے جو خلافت کے زمانے تک چلتی جائے گی۔ اور قرآن کریم سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جب لوگ نہیں مانیں گے تو یہ ایک بڑی جنگ اور تباہی پر مبنی عذاب الٰہی کا شکار ہو ں گے۔ اس کے بعد دنیا خدا کی طرف لوٹے گی۔
سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہاں خلافت کا ذکر کیسے آگیا؟ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ پورا کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ فرمایا وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل:۳۵)۔ نیز فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (آل عمران:۱۰) پھر اللہ تعالیٰ خود مومنوں سے ایک وعدہ فرماتا ہے کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ …(النور:۵۶)کہ جو مومن ایمان کے ساتھ عمل صالح کریں گے، اللہ لازمی انہیں ایسے ہی خلافت عطا فرمائے گا جیسے پہلے لوگوں کوعطا فرمائی تھی۔مطلب یہ کہ جب بھی ایمان اور عمل صالح اکٹھے ہوں گے، اللہ تعالیٰ خلافت عطا فرمائے گا۔
آنحضورﷺ نے سورۃ الکہف کی ابتدائی اور آخری آیات کو دجال کا علاج قرار دیا تھا۔ ان آیات پر غور کرتے ہیں تو ان میں دو گروہوں کا ذکر ملتا ہے۔(۱) ایک گروہ کو بشارت دی گئی ہے۔ فرمایا:وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ … اور (۲) دوسرے گروہ کو ڈرایا گیا ہے۔ فرمایا کہ وَ يُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا۔تو معاملہ واضح ہے کہ جو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں وہی دجال ہیں اور جو ایمان اور عمل صالح کرنے والے ہیں وہ دجال کا مقابلہ کرنے والے ہیں۔ وہی ایمان کے ساتھ عمل صالح کرنے والے ہیں جنہیں اللہ اس زمانے میں خلافت عطا فرمائے گا۔کیونکہ جہاں ایمان اور عمل صالح ہو گا،وہاں اللہ کا وعدہ ہے کہ خلافت ملے گی۔
سورۃ الانبیاء میں اللہ فرماتا ہے کہ (آخری زمانہ میں) یہ رُوحانی مردے زندہ نہیں ہو سکیں گے جب تک یاجوج و ماجوج کےلشکر نہ کھل جائیں۔ یہ وہی یاجوج و ماجوج ہیں جن کو سورۃ الکہف کے مطابق ذوالقرنین نے ایک دیوار بنا کر روکا تھا۔اور سمجھایا تھا کہ یہ دیوار انہیں ہمیشہ کے لیے نہیں روک سکے گی۔ بلکہ فرمایا کہ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ رَبِّیۡ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ ۚ وَکَانَ وَعۡدُ رَبِّیۡ حَقًّا۔وَتَرَکۡنَا بَعۡضَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ یَّمُوۡجُ فِیۡ بَعۡضٍ وَّنُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَجَمَعۡنٰہُمۡ جَمۡعًا۔ وَّعَرَضۡنَا جَہَنَّمَ یَوۡمَئِذٍ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ عَرۡضَا۔ ۣالَّذِیۡنَ کَانَتۡ اَعۡیُنُہُمۡ فِیۡ غِطَـآءٍ عَنۡ ذِکۡرِیۡ وَکَانُوۡا لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَمۡعًا (سورۃالکہف:۹۹تا۱۰۲) کہ جب میرے رب کا وعدہ آجائے گا تو وہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔اس دن ہم ان میں سے بعض کوبعض پر موج در موج چڑھائی کرنے دیں گے۔ صور میں پھونکا جائے گا۔اور ہم ان سب کو جمع کر یں گے۔ پھرہم اس دن جہنم کو ان کافروں کے سامنے لاکھڑا کریں گے۔ جن کی آنکھیں میرے ذکر(یعنی قرآن کریم سے )پردے میں تھیں اور وہ سننے کی توفیق نہیں رکھتے تھے ( یعنی قرآن کریم کی بات سننا چاہتے ہی نہ تھے)۔
اب سورۃ الانبیاء میں وہ وقت بھی بتا دیا کہ یہ تب ہوگا جب یاجوج و ماجوج کی طرح مسلمان بھی خدا سے دُور ہو کر روحانی مردے بن جائیں کے۔یاجوج و ماجوج ترقی کریں گے۔اپنی ترقی کے نشے میں اپنے آپ کو خدا کے برابر سمجھنے لگیں گے اور اپنی حرکتوں کی وجہ سے عذاب کے قریب پہنچ جائیں گے۔اس وقت انہیں اس جہنّم کے عذاب سے بچانے اور اللہ کے قریب کر کے روحانی زندگی دینے کے لیے محمد مصطفیٰﷺ کی غلامی میں اللہ کا ایک رسول مسیحا بن کے آئے گا۔ لیکن سورۃ الانبیاء کی یہ آیات بتا رہی ہیں کہ یہ زندہ نہیں ہوسکیں گے جب تک یاجوج و ماجوج اپنا کام نہ دکھا لیں۔لیکن پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت جس میں خلافت جاری ہو چکی ہو گی، اُس کا کیا بنے گا؟ کیا وہ بھی تباہ کردی جائے گی؟ نہیں! اس کے لیے اس سورت کی آیات ۹۵ تا ۱۱۰ کا مطالعہ کریں تو بات واضح ہو جاتی ہے۔یہاں اللہ کا وعدہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو بچائے گا۔اس زمانے میں وہ کون ہیں؟وہی جن کو خلافت عطا ہوئی۔فرمایاکہ جو لوگ خلافت کے ساتھ وابستہ ہوں گے اللہ ان کی حفاظت کے سامان پیدا کر دے گا۔اور اُن کی عام تباہی نہ ہو گی۔ فرمایا:فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَا کُفۡرَانَ لِسَعۡیِہٖ ۚ وَاِنَّا لَہٗ کٰتِبُوۡنَ (الانبیاء:۹۵)۔پس جو بھی اعمال صالحہ بجا لائے گااور وہ مومن بھی ہوگاتواُس کی کوشش کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔اور ہم اس کےاعمال صالحہ کو لکھ رکھیں گے۔یعنی ان کو اللہ نقصان سے بچالے گا۔ اور پھر یاجوج و ماجوج کے کھلنے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَاۤ اَنَّہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ۔ حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ۔ وَاقۡتَرَبَ الۡوَعۡدُ الۡحَقُّ فَاِذَا ہِیَ شَاخِصَۃٌ اَبۡصَارُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ یٰوَیۡلَنَا قَدۡ کُنَّا فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا بَلۡ کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ۔اِنَّکُمۡ وَمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ؕ اَنۡتُمۡ لَہَا وٰرِدُوۡنَ۔(الانبیاء:۹۶تا۹۹)(ترجمہ: یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کو کھولا جائے گا اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑے چلے آئیں گےاور اٹل وعدہ قریب آجائے گاتو وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا،ان کی آنکھیں اچانک پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور وہ کہیں گے، ہائے ہماری ہلاکت کہ ہم اس بات سے غفلت میں تھے۔ بلکہ ہم تو ظلم کرنے والے تھے۔یقیناً تم اور وہ سب جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے تھےجہنّم کا ایندھن ہو، تم سب اس میں پڑنے والے ہو )۔آج نہ تمہیں امریکہ بچا سکے گا نہ روس، نہ چین اور نہ ہی یورپ۔ اگر کوئی ہستی بچا سکتی ہے تو اللہ کی ذات ہے جسے تم چھوڑ چکے ہو۔اس تباہی کے بعد انہیں ہوش آئے گی اور وہ کہیں گے لَوۡ کَانَ ہٰۤؤُلَآءِ اٰلِہَۃً مَّا وَرَدُوۡہَا ؕ وَکُلٌّ فِیۡہَا خٰلِدُوۡن۔َ (الانبیاء:۱۰۰) اگر یہ (امریکہ روس،چین وغیرہ) واقعۃً معبود ہوتے تو وہ اس میں نہ پڑتےاور وہ سب اس میں لمبا عرصہ رہنے والےہیں۔ لیکن اس کے بعد پھر دوبارہ دہرایا کہ اِنَّ الَّذِیۡنَ سَبَقَتۡ لَہُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰۤیۙ اُولٰٓئِکَ عَنۡہَا مُبۡعَدُوۡنَ (الانبیاء:۱۰۲) (ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جن کے حق میں ہماری طرف سے حسنِ سلوک کا وعدہ ہو چکا ہے وہ اس دوزخ سے دور رکھے جائیں گے)
پس یاد رکھو کہ زندگی اللہ کے قُرب کا نام ہے اور اللہ سے دُوری کا نام ہلاکت ہے۔ آنحضورﷺ نے عربوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شرٍّ قَدِ اقْتَرَبَکہ عربوں کے لیے ہلاکت ہے اس شرکی وجہ سے جو قریب آگیا ہے۔ یہ اقتراب وہی ہے جس کے بارے میں اللہ نے ان آیات میں فرمایا کہ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ۔جب حضورﷺ نے فرمایا کہ عربوں کے لیے ہلاکت ہوتو مطلب یہ تھا کہ عرب آنے والے مسیح کاا نکار کرکے ماں سے بڑھ کر محبت کرنے والے خدا سے دُور ہوں گےاور درندہ صفت لوگوں کے ہاتھوں ہلاکت کا شکار ہوں گے۔ یاجوج و ماجوج اُٹھیں گے اور عذاب کے سامان پیدا ہو جائیں گے۔
آج ہمارے عرب بھائیوں پر فلسطین میں جو ظلم ہو رہا ہے۔اگر کوئی اس تباہی سے بچا سکتی ہے تو وہ اللہ کی ذات ہے،جس کی طرف بلانے کےلیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں۔کیونکہ آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ لَا یَدَانِ لِاَحَدٍ لِّقِتَالِھِمَا کہ ان سے لڑنے کی کسی میں طاقت نہ ہوگی۔اور یہ بھی فرمایا تھا کہ فَاِ نْ رَاءَیْتَ یَومَئِذٍ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَلْزِمْہُ،وَاِنْ نُھِکَ جِسْمُکَ و اُخِذَ مَالُکَ(مسلم)اگر تم اس وقت زمین پر اللہ کے خلیفہ کو دیکھو تو اس سے چمٹ جانا خواہ تمہارا جسم نوچ لیا جائے اور مال لوٹ لیا جائے۔ پس اس زمانے میں ان درندوں سے اللہ کے سوا بچانے والا کوئی نہیں اور خدا کو پانے کے لیے اس مسیح اور اس کے خلیفہ پر ایمان لانا ضروری ہے جس کی پیشگوئی اللہ اور اس کے رسول نے کی تھی۔اے کاش ہمارے عرب بھائی اس راز کو سمجھ سکیں اور واپس زندگی کے چشمہ کی طرف آجائیں جو اللہ نے اپنے مبارک ہاتھ سے جاری فرمایا ہے۔ کیونکہ ارض فلسطین عبادی الصّالحون کے لیے مقدّر ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے کہ وَلَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ۔اِنَّ فِیۡ ہٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوۡمٍ عٰبِدِیۡنَ۔(الانبیاء:۱۰۷،۱۰۶)
یہاں لفظ’’عابدین‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ آج یہ واحد جماعت ہے جسےعبادت سے روکا جارہا ہے۔ ہماری اذان پہ پابندی، نماز پہ پابندی،کلمہ پڑھنے پہ پابندی، مسجد کو مسجد کہنے پر پابندی( جس میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے)، یہ واحد جماعت ہے جن کو محض ربنا اللّٰہ کہنے پہ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ اللہ فرما رہا ہے کہ وہ سب کچھ برداشت کر لیں گے لیکن اللہ کی عبادت سے نہیں رکیں گے۔ایسے عباد ت گذاروں کو اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہےکہ فکر نہ کریں تم نے مجھ سے وفا کی تو میں تم سے وفا کروں گا۔ میں نے زبور میں بھی یہ وعدہ کیا تھا اور اب قرآن کریم میں بھی اس وعدے کو دہرا رہا ہوں کہ یہ زمین میرے عبادت گذاروں اور عمل صالح کرنے والوں کی ہے اور بالآخر انہی کو ملے گی۔فرمایا: فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ اٰذَنۡتُکُمۡ عَلٰی سَوَآءٍ ؕ وَاِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ اَمۡ بَعِیۡدٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ۔(الانبیاء:۱۱۰) (ترجمہ:پس اگر وہ پیٹھ پھیر لیں تو ان سے کہہ دے میں نے ( مومن و کافر)تم سب کو برابر بتا دیا ہے اور میں نہیں جانتا کہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا وہ قریب ہے یا دُور ہے(لیکن یہ ہو کے رہے گا)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی۔ کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں۔مگر جن کی فطرت کو اُس عالَم کا حصّہ دیا گیا ہے، وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے۔جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہےجس کی طرف سے میں آیا ہوں۔ میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے۔ جو شخص میرے پاس آتا ہے، ضرور وہ اُس روشنی سے حصّہ لے گا۔ مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے، وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔اِس زمانے کا حصنِ حصین میں ہوں۔ جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے۔ ہر طرف سے اس کوموت در پیش ہے!اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی‘‘ ( فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳، صفحہ ۳۴)
پھر فرمایاکہ’’اے یورپ! تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا! تُو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دُور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔ نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے۔ توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی۔جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۶۹)
پس اہم بات یہ ہے کہ ہم لو گ جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کی سعادت ملی ہے، ہمارے اوپر ذمہ داری بھی سب سے زیادہ ہے۔ ہم ایمان کا دعویٰ تو کر رہے ہیں لیکن کیا اس کے مطابق عمل صالح بھی ہیں یا نہیں؟ کیونکہ اللہ کے مامور کے آنے کا مقصد وفات ِ مسیح یا ختم نبوّت کے مطالب سمجھانا ہی نہیں تھا۔ یہ سب ضمنی باتیں ہیں۔صرف وفاتِ مسیح مان لینے سے اللہ کا قرب حاصل نہیں ہوجاتا۔ بلکہ اللہ کے احکام پر عمل کرنے سے اللہ کا قرب ملتا ہے اور اللہ کا قرب انسان پہ اللہ کا رنگ چڑھادیتا ہے۔ آگ کے پاس بیٹھ کے جسم گرم نہ ہو تومطلب ہے کہ یہ آ گ نہیں ہے یا پھر بندہ بیمار ہے۔پس اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ہمارا اللہ سے تعلق ہے۔اس طرح کہ ہمارا اٹھنا،بیٹھنا، سونا اور جاگنا سب اللہ کے لیے ہو۔ ہمارے ہاتھ اور زبان یا کسی بھی ذریعے سے دوسرے انسانوں سمیت اللہ کی کسی بھی مخلوق کو نقصان نہ پہنچے اور دوسرے سب انسان قطع نظر رنگ و نسل اور مذہب کےہماری زبان اور ہاتھ سے امن محسوس کریں بد امنی محسوس نہ کریں۔ ہم اللہ سے اور اللہ ہم سے راضی ہو۔ یہ وہ کام ہے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے۔ اور یہی وہ حصنِ حصین ہے جس میں آکر آج دنیا تباہی سے بچ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین