میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍ اپریل۲۰۰۳ء)
وَاِذَسَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ۔(البقرۃ:۱۸۷)اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں ۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں ۔
یہ آیتِ کریمہ جس کی ابھی تلاوت کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب سے تعلق رکھتی ہے … اس میں دعاؤں کی قبولیت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس پہلو سے آج یہ مضمون بیان کیا جائے گا اور قبولیت دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر جو بیشمار احسان اور فضل فرمایا ہے اس کا ذکر ہوگا۔ اس بارہ میں ایک حدیث ہے:حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا،بڑا کریم اور سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تووہ ان کوخالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔(جامع ترمذی۔کتاب الدعوات باب فی دعاء النبی ﷺ)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں ۔ جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کروں گا۔ اور اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے گا تو میں اس بندے کا ذکر اس سے بہتر محفل میں کروں گا۔ اگر وہ میری جانب ایک بالشت آئے گاتو میں اس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا۔ اگر میری طرف وہ ایک ہاتھ آئے گا تو میں اس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا۔ (ترمذی ابواب الدعوات باب فی حسن الظن باللّٰہ عزّ وجلّ)
…حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ شاید ہی کبھی کسی مجلس سے اُٹھے ہوں گے کہ آپؐ نے اپنے صحابہؓ کے لئے ان الفاظ میں دعا نہ کی ہو: اے میرے اللہ! تُو ہمیں اپنا ایسا خوف عطا کر جو ہمارے اور تیری معصیت کے درمیان حائل ہو جائے اور ہمیں اپنی ایسی اطاعت عطا کر جس کی وجہ سے تُو ہمیں جنت میں پہنچا دے اور ایسا یقین بخش کہ جس کی وجہ سے دنیا کے مصائب تُو ہم پر آسان کردے۔ اے میرے اللہ! ہمیں اپنے کانوں ، اپنی آنکھوں اور اپنی طاقتوں سے زندگی بھر صحیح صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیں اس بھلائی کا وارث بنا۔ اور جو ہم پر ظلم کرے اُس سے تُو ہمارا انتقام لے۔ جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اُس کے برخلاف ہماری مدد فرما۔ اور ہمارے دین کے بارہ میں ہمیں کسی ابتلا میں نہ ڈال۔ اور دنیا کو ہمارا سب سے بڑا غم اور فکر نہ بنا اور دنیا ہی ہمارا مبلغ علم نہ ہو۔یعنی ہمارے علم کی پہنچ صرف دنیا تک ہی محدود نہ ہو۔ اور ایسے شخص کو ہم پر مسلّط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرتا ہو۔(جامع ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فی عقد التسبیح بالید)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے راہ کھول دیتا ہے۔ وہ دعا کو ردّ نہیں کرتا… قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں ۔ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَالۡجُوۡعِ میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے۔ نونِ ثقیلہ سے جو اظہارِ تاکید کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی ہے۔ اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے، وہ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ میں ظاہر کیا ہے۔…الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اورکبھی وہ مان لیتا ہے۔ یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعاؤں کی ہے اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں ۔ چنانچہ آپؐ کے گیارہ بچے مرگئے مگر آپؐ نے کبھی سوال نہ کیا کہ کیوں؟‘‘ (الحکم ۲۸؍فروری ۱۹۰۲ء، ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۶۷-۱۶۸)
پھر فرمایا :’’خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے‘‘(البدر۳؍اپریل ۱۹۰۳، ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۷۲)
فرماتے ہیں :’’اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو۔ جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خداتعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا‘‘۔(البدر ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳، ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۳۲)
فرمایا:’’میں ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہتا ہوں اور سب سے مقدّم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کو ہموم اور غموم سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ مجھے تو ان کے ہی اَفکار اور رنج، غم میں ڈالتے ہیں ۔ اور پھر یہ دعا مجموعی ہیئت سے کی جاتی ہے کہ اگر کسی کو کوئی رنج اور تکلیف پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کو نجات دے۔ ساری سرگرمی اور پورا جوش یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کروں‘‘۔(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء مرتبہ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ ۱۳۰تا ۱۶۷،ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۶۶)
اللہ تعالیٰ مجھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس سنّت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کا درد مجھے اپنے درد سے بڑھ کر ہوجائے۔اللہ میری مدد فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہوجاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے۔ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کردیتے ہیں دور کردے اور اپنی رضا مندی کی راہ دکھلائے۔‘‘(البدر ۲۴؍ اگست ۱۹۰۴،ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۳۰)