قویٰ کی برداشت اور حوصلہ سے بڑھ کر کسی قسم کی شرعی تکلیف نہیں اٹھوائی گئی
صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طا قت کبھی بھی نہیں رکھتے۔ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پا کر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔صرف فدیہ کا خیال کرنا اباحت کا دروازہ کھول دینا ہے۔ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں۔اس طرح سے خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ تیری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جاوے گی۔
(ملفوظات جلد ۹صفحہ۴۳۲-۴۳۳، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
…سوال کیا کہ میں نے آج تک روزہ نہیں رکھا اس کا کیا فدیہ دوں؟ فرمایا: خدا ہر ایک شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا۔وسعت کے موافق گذشتہ کا فدیہ دے دو اور آئندہ عہد کرو کہ سب روزے ضرور رکھوں گا۔
(ملفوظات جلد ۴صفحہ۳۵۰، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ہم کو عقل سے بھی کام لینا چاہیے ،کیونکہ انسان عقل کی وجہ سے مکلف ہے ۔کوئی آدمی بھی خلاف عقل باتوں کے ماننے پر مجبور نہیں ہو سکتا ۔قویٰ کی برداشت اور حوصلہ سے بڑھ کر کسی قسم کی شرعی تکلیف نہیں اٹھوائی گئی۔ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا(البقرہ:۲۸۷) اس آیت سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام ایسے نہیں جن کی بجا آوری کوئی کر ہی نہ سکے اور نہ شرائع واحکام خدا تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے نازل کیے کہ اپنی بڑی فصاحت و بلاغت اور ایجادی قانونی طاقت اور چیستان طرازی کا فخر انسان پر ظاہر کرے اور یوں پہلے ہی سے اپنی جگہ ٹھان رکھا تھا کہ کہاں بیہودہ ضعیف انسان؟ اور کہاں کا ان حکموں پر عمل درآمد؟خدا تعالیٰ اس سے برتر و پاک ہے کہ ایسا لغو فعل کرے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۶۱-۶۲، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)