وہ جو نکلا صبح جیسے آفتاب
جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضورﷺ کو نبوت کی نعمت سے سرفراز کیا گیاحضرت علیؓ کی عمر اس وقت تقریباً گیارہ سال تھی اور وہ اس وقت آپﷺ کے گھرمیں ہی پرورش پارہے تھے۔ایک دن حضرت علیؓ جو ابھی بچے ہی تھے واپس گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ آنحضرتﷺ اور حضرت خدیجہؓ نماز پڑھ رہے ہیں۔یہ ایک بالکل انوکھا منظر تھا جو حضرت علیؓ کے لیے بالکل نیا تھا کہ آخر یہ کیسی عبادت ہے۔ وہ باہر موجود رہے اور یہ سب کچھ باہر کھڑے ہوکر مشاہدہ کرتے رہے۔ جب آپﷺ نماز پڑھ چکے تو حضرت علیؓ حاضر ہوئے اور آپﷺ سے پوچھا یہ آپ کیا کر رہے تھے؟رسول کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو فرمایا کہ بیٹا! یہ اللہ تعالیٰ کا دین ہے جسے اس نے اپنے لیے پسند کیا ہے اور اس دین کی اشاعت کے لیے وہ رسولوں کو مبعوث فرماتا ہے۔پس میں تمہیں بھی اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں اور لات اور عزیٰ بتوں کے انکار کی ترغیب دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے جب یہ سنا تو کہا کہ میں نے آج سے پہلے کبھی ایسی بات نہیں سنی لہٰذا جب تک میں اپنے والد ابو طالب سے اس کا ذکر نہ کرلوں،میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس وقت چونکہ آپﷺ نے کھلے طور پر اپنی نبوت کا اعلان نہیں فرمایا تھا، اس لیے آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اگر تم نے اسلام قبول نہیں کرنا تو اس بات کو ابھی پوشیدہ رکھو۔چنانچہ اس رات حضرت علیؓ نے اس بات کو مخفی رکھااور اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں اسلام کی محبت پیدا فرمادی۔اگلے روز آپؓ رسول کریمﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ رات کو آپ نے کس بات کی شہادت دینے کا ذکر فرمایا تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس بات کی شہادت دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ وحدہ لا شریک ہے اور لات اور عزیٰ بتوں کا انکار کرو۔حضرت علیؓ جن کا دل نورِ حقیقت سے منور ہوچکا تھا، اسی وقت شہادت دے کر اسلام میں داخل ہوگئے۔(اسد الغابۃ جلد۴ صفحہ۸۸-۸۹ علی بن ابی طالب۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۲۰۰۳ء)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’جب انہوں نے یہ سنا کہ خدا کا پیغام آیا ہے تو وہ علیؓ جو ایک ہونہار اور ہوشیار بچہ تھا۔ وہ علیؓ جس کے اندر نیکی تھی۔ وہ علیؓ جس کے نیکی کے جذبات جوش مارتے رہتے تھے مگر نشوونما نہ پا سکے تھے۔ وہ علیؓ جس کے احساسات بہت بلند تھے مگر ابھی تک سینے کے اندر دبے ہوئے تھے اور وہ علیؓ جس کے اندر اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا مادہ ودیعت کیا تھا مگر ابھی تک اسے کوئی موقع نہ مل سکا تھا اس نے جب دیکھا کہ اب میرے جذبات کے ابھرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس نے جب دیکھا کہ اب میرے احساسات کی نشوونما کا موقع آ گیاہے۔ اس نے جب دیکھا کہ اب خدا مجھے اپنی طرف بلا رہا ہے تو وہ بچہ سا علیؓ اپنے درد سے معمور سینے کے ساتھ لجاتا اور شرماتا ہوا آگے بڑھا اور اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ ! جس بات پر میری چچی ایمان لائی ہے اور جس بات پر زید ایمان لایا ہے اس پر میں بھی ایمان لاتا ہوں۔‘‘(انوارالعلوم جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۸)
یہ واقعہ آپﷺ کو نبوت ملنے کے چند دن بعد کا ہے۔ آپﷺ نے ابھی صرف اپنے گھر والوں کو اس سے آگاہ فرمایا تھا اور عام عوام سے اس بات کو پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔ لیکن حضرت علی ؓکی سعادت مندی اور نیک فطرت کے اظہار کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی دلچسپ پہلو جو اس واقعہ سے عیاں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپﷺ کو نبوت ملنے کے ساتھ ہی نماز پڑھنے کا بھی حکم مل چکا تھا۔ چنانچہ اس حوالے سے تاریخی کتب میں یہ درج ہے کہ پہلی وحی کے بعد حضرت جبریلؑ آپﷺ کے پاس آئے اور آپ کو وضو اور نماز پڑھنے کا طریق سکھایا۔ غرض اس سے نماز کی اہمیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے سورت بنی اسرائیل کی تفسیر میں معراج اور اسرا کے مضمون کے تحت نماز کی فرضیت کا ذکر یوں فرمایا ہے:’’جیسا کہ سورہ نجم کی آیات سے ظاہر ہے معراج دو ہیں۔ اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک معراج نبوت کے ابتدائی ایام میں ہوا ہے۔ بلکہ کہہ سکتے ہیں اسی معراج میں شرعی نبوت کی بنیاد پڑی ہے۔ اور نماز یں فرض کی گئی ہیں۔ اور دوسرا معراج سنہ۵ بعد نبوت میں ہوا ہے۔ یا یہ کہ وہ بھی اس سے پہلے ہو چکا تھا صرف اس کا ذکر سورہ ٔنجم میں کیا گیا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۶ ایڈیشن۲۰۲۳ء صفحہ ۲۶۸ )
فترۃ وحی
آنحضرتﷺ کو نبوت ملنے کے بعد ایک مختصر زمانہ ایسا بھی آیا جس کے دوران وحی کے سلسلہ میں ایک وقفہ آگیا۔ اس دور کا ذکر کتب تاریخ میں فترۃ وحی کے نام سے کیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کی معروف روایت کے مطابق یہ مدت تقریباً ۴۰ دن کی تھی(زرقانی جلد ۱ باب مراتب وحی)۔اس کے علاوہ اور مختلف روایات میں یہ ایام ۱۵ اور ۱۲ بھی لکھے گئے ہیں(سیرت حلبیہ)۔ اس زمانہ کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں اپنی تحقیق کو یوں بیان کیا ہے کہ عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پہلی وحی اترنے کے ساتھ ہی آپﷺ پر وحی کا سلسلہ رک گیا تھا،جو کہ روایتوں کی رُو سے درست نہیں ہے۔فتح البیان میں یہ ذکر ہے کہ سب سے پہلے آپﷺ پر سورۃ العلق نازل ہوئی،جس کے بعد ن والقلم پھر سورۃالمزمل اور پھر سورۃ المدثر۔ اور سورۃ المدثر کے حوالے سے صحیح بخاری میں یہ درج ہے کہ جب سورۃ المدثر نازل ہوئی تو وحی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔چنانچہ واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریمﷺ غارِ حرا سے گھر واپس تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں دوبارہ اسی فرشتے کو آسمان میں ایک عظیم کرسی پر براجمان پایاجو غار حرا میں آپکو مل چکا تھا۔آپﷺ نے جب انہیں دیکھا تو گھبرا کر گھر واپس لوٹے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا دَثِّرُوْنِیْ مجھے کپڑے میں ڈھانک دو،مجھے کپڑے میں ڈھانک دو۔جس کے بعد سورۃ المدثر کی ان آیات کا نزول ہوا: یٰۤاَیُّہَاالۡمُدَّثِّرُ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ وَرَبَّکَ فَکَبِّرۡ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ وَالرُّجۡزَفَاہۡجُرۡ۔اے کپڑا اوڑھنے والے! اُٹھ کھڑا ہو اور انتباہ کر۔ اور اپنے ربّ ہی کی بڑائی بیان کر۔ اور جہاں تک تیرے کپڑوں (یعنی قریبی ساتھیوں) کا تعلق ہے تُو (انہیں) بہت پاک کر۔ اور جہاں تک ناپاکی کا تعلق ہے تو اس سے مکمل طور پر الگ رہ۔(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی)
حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں:’’اِقْرَأْ کا لفظ صاف بتاتا ہے کہ کوئی باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہنی ہیں۔ وہ کہنے والی باتیں بہرحال اِقْرَأْ کے بعد نازل ہونی چاہیے تھیں۔ چنانچہ اِقْرَأْ کے بعد ن والقلم نازل ہوئی اس کے بعد سورۃ مزمل نازل ہوئی اور پھر فترةکا زمانہ آگیا۔ پس میرے نزدیک اصل واقعہ یہ ہے کہ اِقْرَأْ کی ابتدائی آیات اور اسی طرح ن و القلم اور سورۃ المزمل کی کچھ آیات پہلے نازل ہوئیں پھر فترة وحی ہوئی اور اس کے ختم ہونے پر سورۃالمدثر نازل ہوئی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۳۔ ایڈیشن ۲۰۲۳ءصفحہ ۳۲۸۔۳۲۹)
یہ دن آنحضرتﷺ کے لیے نہایت سخت تھے۔ آپ کے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ کہیں میرے کسی عمل سے خدا تعالیٰ ناراض تو نہیں ہوگیا۔چنانچہ فترۃ وحی کے بعد سورۃ الضحیٰ کا بھی نزول ہوا۔یہ سورت آنحضرتﷺ کی تسلی اور اطمینان کے لیے نازل ہوئی تھی کہ گھبرائیں نہیں، خدا تعالیٰ آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا۔اسی طرح اس میں آپ کوآئندہ آنے والی فتوحات کے بھی وعدے دیے گئے، ایسے زمانے میں جب کہ آپ ابھی بالکل اکیلے تھے اور آپ کی اہلیہ اور گھر میں موجود ایک بچے کے سوا کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’نبی کریمﷺ پر بھی ایک زمانہ ایسا ہی آیا تھا کہ لوگوں نے سمجھا کہ اب وحی بند ہو گئی۔ چنانچہ کافروں نے ہنسی شروع کی کہ اب خدا نعوذ باللہ ہمارے رسول کریمﷺ سے ناراض ہو گیا ہے اور اب وہ کلام نہیں کرے گا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اس کا جواب قرآن شریف میں اس طرح دیا ہے کہ وَالضُّحٰی۔ وَاللَّيْلِ إِذَا سَجٰی۔ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰی۔(الضحی:۲-۴) یعنی قسم ہے دھوپ چڑھنے کے وقت کی۔ اور رات کی۔ نہ تو تیرے رب نے تجھ کو چھوڑ دیا اور نہ تجھ سے ناراض ہوا۔‘‘(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۳۷۰ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
دو ساتھی
اب لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلانے کا مرحلہ شروع ہوا اور رسول کریمﷺ نے آخر خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے قریبی لوگوں کو اپنے اس پیغام کے بارےمیں آگاہ کرنا شروع کیا۔ گو پہلے تین سال تبلیغ کو عام لوگوں سے مخفی رکھا گیا لیکن کسی نہ کسی طرح یہ خبر مکہ میں پھیل رہی تھی اور لوگوں میں اس کے متعلق باتیں شروع ہو چکی تھیں۔چنانچہ اس امر پر روشنی ڈالنے کے لیے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ہماری کافی راہنمائی کرتا ہے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ مکہ میں اپنے عمدہ اخلاق اور شرافت کی وجہ سے کافی مشہور تھےاورنبوت سے پہلے بھی آپ کا رسول کریمﷺ سے دوستانہ تعلق تھا۔ جب آپﷺ کو نبوت کی نعمت ملی اس وقت حضرت ابو بکرؓ مکہ میں موجود نہ تھے۔ جب آپ واپس مکہ تشریف لائے تو لوگوں سے آپ نے مکہ کے حالات پوچھے۔ اس پر لوگوں نے آپ کو کہا کہ شکر ہے آپ واپس آچکے ہیں، آپ کی غیر موجودگی میں ایک بہت ہی بڑا واقعہ رونما ہوا ہے۔آپ کے دوست محمد(ﷺ) نے خدا کی پیغمبری کا دعویٰ کردیاہے۔ اب چونکہ آپ آچکے ہیں تو اس معاملہ میں آپ ہمارے لیے کافی ہیں۔حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں نے انہیں اچھے انداز سے ٹال دیا اور فوراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے رسول کریمﷺ سےعرض کیا کہ کیا آپ نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔آپﷺ نے فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے۔چنانچہ اس پر آپؓ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو یقیناً آپ سچے ہیں، میں بھی آپ پر ایمان لاتا ہوں۔(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد۳ صفحہ۳۱۲۔۳۱۳دارالکتب العلمیۃ بیروت۲۰۰۸ء)
آنحضرتﷺ حضرت ابو بکر ؓکی قبولیت اسلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس کے اسلام کے قبول کرنے میں ایک طرح کی تاخیر اور سوچ بچار اور پس و پیش تھا۔ بجز ابوبکر بن ابی قحافہ کی حالت کے کہ جب میں نے ان سے اس کا ذکر کیا تو نہ انہوں نے اس میں تاخیر کی اور نہ پس و پیش کیا۔(سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۲۵۲)
حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:’’حضرت صدیق اکبر ابو بکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرتﷺ پر ایمان لائے تو انہوں نے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا اور جب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے تو بیان کیا کہ میرے پر تو محمدﷺ کا امین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ کو استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھیں‘‘۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۳۷)
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہی خاندان سے ایک شخص طلحہ بن عبید اللہؓ بھی تھے۔ان کے اسلام کی قبولیت کا واقعہ بھی حضرت ابو بکر صدیقؓ کے واقعہ قبولیت سے ملتا جلتا ہے۔آپ بھی رسول کریمﷺ کو نبوت ملنے کے وقت مکہ میں موجود نہ تھے۔چنانچہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں بصریٰ کے بازار میں موجود تھا اور وہاں پر ایک یہود ی راہب نے ہمیں بتایا یہ وہ مہینہ ہے جس میں حرم کے لوگوں میں احمد نامی نبی کا ظہور ہونا ہے۔ کہتے ہیں اس راہب کی بات سن کر میں جلد مکہ کے لیے روانہ ہوا۔مکہ پہنچ کرلوگوں سے دریافت کیا کہ کیا کوئی نئی بات ہوئی ہے۔اس پر لوگوں نے بتایا کہ محمد نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ابو بکر صدیق نے ان کی پیروی کی ہے۔چنانچہ میں اسی وقت حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا آپ نے محمد (ﷺ) کی پیروی کی ہے؟ آپ نے کہا ہاں بالکل ایسا ہی ہے،آخر حضرت ابو بکرؓ نے آپ کو تبلیغ کی اور آپ کو آنحضرتﷺ کے پاس لے گئے۔حضرت طلحہؓ نے اپنا تمام قصہ رسول کریمﷺ کو سنایا اور آخر اسلام قبول کرلیا۔حضرت طلحہؓ نے اسلام قبول کیا تو نوفل بن خویلد نے آپ کو اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کو پکڑ لیا اور ایک ہی رسی میں باندھ دیا۔اس واقعہ کی وجہ سے آپ دونوں کو قرینین یعنی دو ساتھی بھی کہا جاتا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ۳ صفحہ ۱۶۱ طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۹۰ء)
مخفی تبلیغ
حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ کی طرح اور بھی کئی جلیل القدر اصحاب تھے جو حضرت ابو بکر صدیقؓ کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے۔ اولین مسلمانوں میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کی تبلیغ سے پانچ صحابہ مسلمان ہوئے۔ ان میں حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت زُبیر بن عوامؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اورحضرت طلحہ بن عبیداللہؓ شامل تھے۔(سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۱۶۶، ذکر من اسلم من الصحابۃ بدعوۃ ابی بکر، دارالکتاب العربی بیروت، ۲۰۰۸ء)
انہی ابتدائی جاںنثاروں کی قبولیت اسلام کی وجہ سے بالآخر یہ پیغام آگے پھیلنا شروع ہوااور ابتدائی تین سالوں میں بعض معروف نام جیسے ابو عبیدہ بن الجراح، عبیدہ بن حارث،ابوسلمہ بن عبد الاسد،ابو حذیفہ بن عتبہ،سعید بن زیداور آپ کی بیوی فاطمہ بنت خطاب، عثمان بن مظعون،ارقم بن ابی ارقم، عبد اللہ بن جحش،آپ کے بھائی عبیداللہ اور بہن زینب بنت جحش، عبد اللہ بن مسعود، بلال بن رباح،عمار،خباب بن الارت،عامر بن فہیرہ، ابو ذر غفاری، اسماء بنت ابی بکر اور ام فضل رضی اللہ عنہم اجمعین اس سلسلے میں شامل ہوگئے۔ان سابقون کی تعداد اتنی زیادہ نہ تھی اور اکثر ان میں کمزور،غریب اور غلام شامل تھے اس لیے جب کبھی مکہ کے سرداروں کو اس نئے دین کی بھنک پڑ بھی جاتی تو وہ اسے یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ یہ سلسلہ آخر جلد ختم ہوجائے گا۔صلح حدیبیہ کے بعد جب آنحضرتﷺ نے ہرقل اور دیگر بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تو ہرقل نے قریش کے لوگوں کی موجودگی میں اپنے دربار میں ابو سفیان سے ایک سوال یہ بھی کیا تھا کہ محمد (ﷺ) کو بڑے اور امیر لوگ مان رہے ہیں یا غریب اور کمزور۔ اس پر ابو سفیان نے کہا کہ کمزور لوگ آپ پر ایمان لا رہے ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر ۷)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’آپ کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنے شروع ہو گئے اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوں سے دشمنی پر کمر باندھ لی‘‘۔(پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۶۶)
یہ سب کچھ مخفی طور پر ہوا۔مسلمانوں کا کوئی باقاعدہ مرکز نہ تھا۔ مسلمان گھاٹیوں میں آکر ملتے تھے اور وہیں نماز بھی ادا کرلیتے تھے چنانچہ انہی دنوں کا ایک واقعہ یوں ملتا ہےکہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ مکہ کی ایک گھاٹی میں کچھ اصحاب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ وہاں مشرکین آ پہنچے اور انہوں نے مسلمانوں کا مذاق اڑانا شروع کیا اور اسلام میں عیب نکالنا چاہا یہاں تک کہ لڑائی تک نوبت پہنچ گئی۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ ۳۲۴، دارالفکر بیروت لبنان، ۲۰۰۱ء)
عام تبلیغ کا حکم
نبوت کے تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کو اسلام کی عام تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔تبلیغ اور اسلام قبول کرنے والے ساتھیوں کی تربیت کے خیال سے رسول کریمﷺنےاس مقصد کے لیے ایک مرکز قائم کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اس عظیم کام کے لیے آپ نے اپنے ایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کا مکان پسند فرمایا۔ چنانچہ یہ دار ارقم تین سال یعنی ۴ سے ۶؍ نبویؐ تک اسلام کی تعلیمی اور تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔حضرت عمر بن خطابؓ وہ اہم وجود تھے جن کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو اتنی طاقت حاصل ہوگئی کہ آخر مسلمان دارِارقم سے نکل کر اعلانیہ طور پر اسلام کی تبلیغ کرنے لگے۔سنہ ۳؍نبویؐ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سےعام تبلیغ کرنے کا حکم ملنے کے بعدآپﷺاس کی تعمیل کے لیے اسی وقت کوہِ صفا پر تشریف لے گئےاور قریش کے مختلف قبیلوں کو ان کے نام لے کر بلانا شروع کیا۔ آخر جب لوگ اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ ہمیں کس لیے بلایا گیا ہے تو آپﷺ نے ان سب کو مخاطب کرکے یہ سوال کیا کہ اگر میں تمہیں اس بات کی خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بھاری لشکر ہے تو کیا تم مجھ پر یقین کرلو گے؟ سب نےایک ساتھ کہا کہ ہاں ہم ضرور یقین کرلیں گے کیونکہ آپ نے ہم سے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔یہ جواب سن کر آپﷺ نے ان سے فرمایا: تو پھر سنو! خدا تعالیٰ کا عذاب بہت ہی نزدیک ہے، پس تم خدا پر ایمان لے آؤ تاکہ تم اس سے بچ جاؤ۔قریش یہ سنتے ہی آپ پر ہنسنے لگے۔ آپﷺ کے چچا ابو لہب نے جو آپ کے شدید مخالف تھے نعوذباللہ یہ کہا کہ تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا تجھ پر ہلاکت ہو، کیا اس لیےتم نے ہمیں یہاں اکٹھا کیا ہے؟اس طرح یہ سب لوگ مذاق کرتے ہوئے وہاں سے منتشر ہوگئے۔اس کے بعد سورۃ اللہب تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّتَبَّ نازل ہوئی یعنی ابو لَہب کے دونوں ہاتھ ہی شل ہوگئے ہیں اور وہ (خود) بھی شل ہو کر رہ گیا ہے۔(صحیح بخاری کتاب التفسیرباب سورة تَبَّتْ يَدَا أَبِى لَهَبٍ وَّتَبَّ ۴۹۷۱)
اس بظاہر چھوٹے سے واقعہ میں ہمیں تاریخ اور سیرت کے بے شمار پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔سب سے پہلی بات جو اس سے ظاہر ہوتی ہے وہ آپﷺ کا جذبۂ تبلیغ ہے، آپ کی زندگی کا یہ ایک لمحہ ہی اس بات کی کافی گواہی دے رہا ہے کہ جب بھی آپﷺ پر کوئی تبلیغی ذمہ داری ڈالی گئی تو آپ نے اسےبڑی عمدگی سے ادا کیا۔پھر قریش کی آپﷺ کی سچائی کے حوالے سےایک عظیم شہادت اس واقعہ میں ملتی ہے۔آپﷺ اس وقت ۴۳؍سال کے تھے اور قریش آپ کے متعلق برملا یہ اعتراف کررہے تھے کہ آ پﷺ ہمیشہ سچ بولتے چلے آئے ہیں اس لیے اگر وہ آج بھی ہمیں کوئی بات بتائیں تو ہم اس پر اعتبار کریں گے۔اسی طرح اس واقعہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب آپﷺ کے ساتھ صرف چند اصحاب تھے، کمزوری کا عالم تھا، کوئی دنیاوی طاقت اور قوت مہیا نہیں تھی لیکن ایسے وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو دشمنوں کی تباہی اور اسلام کی فتوحات کی خوشخبریاں مل رہی تھیں۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرا ایک کے بعد ایک جلیل القدر صحابہ اس سلسلہ میں داخل ہوتے چلے گئےاور اسلام کی اشاعت کے لیے عظیم الشان قربانیوں کے لیے تیار ہوگئے۔
اب فیصلہ تلواروں سے نہیں ہوگا
اس موقع پر قرآن کریم کی جو سورت اللہب نازل ہوئی اس میں یہ عظیم الشان وعدہ بھی کیا گیا کہ حقیقی اسلام کو دنیا سے مٹانے کے لیے جب کبھی بھی دشمن کوئی روک پیدا کرنے کی کوشش کرے گا توخدا تعالیٰ اس کے بد ارادہ کو ہمیشہ ناکام و نامراد فرمادے گا اور اس کی دنیاوی قوت اور طاقت اس کے کچھ بھی کام نہیں آسکے گی۔حضرت مصلح موعودؓ نے یہاں ابو لہب سے مراد کوئی شخص نہیں لیا بلکہ ہر وہ قوم لی ہے جو آخری زمانے میں ترقی حاصل کرلے گی اور آنحضرتﷺ اور اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائے گی۔ لیکن دشمن کے اس آخری فیصلہ کن حملہ کو پسپا کرنے کے لیے خدا تعالیٰ اپنی پیشگوئیوں کے موافق حضرت مسیح موعودؑ او ر آپ کی جماعت کو کھڑا کرے گا جو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سےآخر فتح حاصل کریں گے۔لیکن ان آخری فتوحات کے فیصلے جنگوں کے میدان کی بجائے دعاؤں کے میدان میں ہوں گے۔ تیروں اور تلواروں کی بجائے عاجزی اور گریہ و زاری سے بھری ہوئی دعائیں اور مناجات ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مدد کو کھینچ کر لانے کا باعث بنیں گی اور اس کے لیے بنیادی شرط یہی ہے کہ اسلام کی خدمت اور محبت کا وہی جذبہ ہمارے اندر بھی پیدا ہو جائے جو رسول کریمﷺ اور آپ کے اصحاب میں موجود تھا۔نمازوں، دعاؤں اور روحانیت کی شاہراہوں پر ہم بھی ویسے ہی تیز تر آگے بڑھنے والے بن جائیں جیسا کہ دورِ اوّلین کے صحابہ تھے، تاکہ خلافت احمدیہ کی روحانی قیادت میں ہم دنیا بھر کے دلوں کو اسلام کے لیے فتح کرتےچلے جائیں اور دنیا کو امن، محبت اور سکون کا گہوارہ بنا دیں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’ایک لطیف بات جو اس جگہ قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ احادیث میں جہاں اسلام کے خلاف اٹھنے والی تحریکات کو بیان کیا گیا ہے وہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان فتنوں کے وقت اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو نازل کرے گا اور وہ ان فتنوں کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن دعاؤں سے۔ کیونکہ لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ لِقِتَالِهِمْ۔ (مشكوٰة كتاب الفتن باب العلامات) ان اسلام کے مخالف لوگوں کا مقابلہ مادی ہتھیاروں سے نہ ہو سکے گا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی حالت ضعف و کمزوری کی ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ مسیح موعودؑ کی دعاؤں کو سنے گا اور ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ اسی طرح یہ اسلام کی مخالف اقوام آپس میں لڑ کر تباہ ہو جائیں گی۔ قرآن کریم نے ابولہب کا نام پانے والی اقوام کے مویدین کو بھی ہاتھوں سے تعبیر کیا ہے۔ اور فرمایا ہے تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبْ اور حدیث میں بھی جہاں آخری زمانہ میں پیدا ہونے والے فتنوں کا ذکر ہے وہاں یَدَانِ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۵ ایڈیشن ۲۰۲۳ء صفحہ ۳۶۴)