تقویٰ سے جاہلیت ہرگز جمع نہیں ہوسکتی
حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ (الانفال: ۳۰) وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ (الحدید:۲۹) یعنی اے ایمان لانے والو اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گاوہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گاجس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آجائے گاتمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہوجائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قویٰ کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے۔
اب اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تقویٰ سے جاہلیت ہرگز جمع نہیں ہوسکتی ہاں فہم اور ادراک حسب مراتب تقویٰ کم و بیش ہوسکتا ہے اسی مقام سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بڑی اور اعلیٰ درجہ کی کرامت جواولیاء اللہ کو دی جاتی ہے جن کو تقویٰ میں کمال ہوتا ہے وہ یہی دی جاتی ہے کہ ان کے تمام حواس اور عقل اور فہم اور قیاس میں نور رکھا جاتا ہے اور ان کی قوت کشفی نور کے پانیوں سے ایسی صفائی حاصل کر لیتی ہے کہ جو دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی ان کے حواس نہایت باریک بین ہوجاتے ہیں اور معارف اور دقائق کے پاک چشمے ان پر کھولے جاتے ہیں اور فیض سائغ ربانی ان کے رگ و ریشہ میں خون کی طرح جاری ہوجاتا ہے۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۱۷۷-۱۷۹)