صفت الرافع۔ عبادتوں اور اعمالِ صالحہ کی طرف توجہ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍جون ۲۰۰۹ء)
اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد ہی عبادت فرمایا ہے۔ لیکن عبادت کس طرح ہو؟ اور کس طرح کی ہو؟ اس زمانہ کے امام نے جو اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کے نور سے سب سے زیادہ حصہ پانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کا سب سے زیادہ فہم و ادراک رکھنے والا تھا۔ اس بارے میں ہماری راہنمائی اُس قرآنی تعلیم کی روشنی میں فرمائی ہے جس کا ادراک آپؑ کو عطا فرمایا گیا۔…
آج ہم جو احمدی کہلاتے ہیں ان پر خداتعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ زمانہ کے امام کو قبول کرکے ہمیں ہر وقت اور ہر معاملہ میں راہنمائی ملتی ہے۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد خلافت کے جاری نظام او ر مرکزیت کی وجہ سے توجہ دلائی جاتی رہتی ہے۔ اور خلافت اور جماعت کے ایک خاص رشتے اور تعلق کی وجہ سے جو کہ عہد بیعت کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہتا ہے۔ بغیر کسی انقباض کے اصلاح کی طرف توجہ دلانے پر توجہ ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسرے مسلمان جو ہیں اس نعمت سے محروم ہیں۔ گزشتہ دنوں مجلس خدام الاحمدیہ UK کی عاملہ اور ان کے قائدین کے ساتھ ایک میری میٹنگ تھی کسی بات پرمَیں نے انہیں کہہ دیا کہ تم لوگ میری باتوں پر عمل نہیں کرتے۔ اس کے بعد صدر صاحب خدام الاحمدیہ میرے پاس آئے، جذبات سے بڑے مغلوب تھے، تحریری طورپر بھی معذرت کی کہ آئندہ ہم ہر بات پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور اسی طرح عاملہ کے اراکین جو تھے انہوں نے بھی معذرت کے خط لکھے۔ تو یہ تعلق ہے خلیفہ اور جماعت کا۔ اس کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مادی دور میں، اس مادی ملک میں، وہ لوگ جو دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہیں اور دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں لیکن دین کے لئے اور خلافت سے تعلق کے لئے مکمل اخلاص و وفا دکھانے والے ہیں۔ اور یہ سب اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ سے تعلق کے طریق ہمیں سکھائے۔ ہماری عبادتیں بھی خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں۔ جو ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں اور حقوق العبادکی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں۔ لیکن دوسرے مسلمان اس سے محروم ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک غیرازجماعت دوست ملنے کے لئے آئے۔ بڑے پڑھے لکھے طبقہ کے ہیں اور میڈیا میں بھی معروف مقام رکھتے ہیں۔ کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر مساجد آج کل اس طرح آباد ہیں جو گزشتہ 62 سال میں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ حج پر جانے والے ہمیں اتنی تعداد میں نظر آتے ہیں جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ پھر اور کئی نیکیاں انہوں نے گنوائیں۔ پھر کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود وہ اثرات اور وہ نتائج نظر نہیں آتے جو ہونے چاہئیں۔ پھر خود ہی انہوں نے کہا کہ مسجد کے باہرکے معاملات اصل میں صاف نہیں ہیں اور یہ اس لئے کہ دل صاف نہیں ہیں۔ مسجد سے باہر نکلتے ہی معاملات میں ایک قسم کی کدورت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ ایک بات تو یہ ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ ہماری عبادتیں، ہماری نمازیں، ہماری دوسری نیکیاں تبھی فائدہ مند ہو سکتی ہیں جب ہمارے جائزے بھی ہوں اپنے خود کے۔ اس بات پر خوش ہوجانا کہ ہم عبادت کر رہے ہیں یاہم اپنے آپ پر اسلامی رنگ کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمارے حلیے سے ہماری حالتوں سے اسلامی رنگ کا اظہار ہوتا ہے تو یہ تو کوئی نیکی نہیں ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک فقرہ مجھے یاد آیا مَیں نے انہیں بتایا کہ یہ لوگوں کا کام بے شک ہے کہ تمہارے اعمال کو وہ دیکھیں۔ لیکن تمہارا یہ کام ہے کہ ہمیشہ اپنے دل کا مطالعہ کرو۔ پس اگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ بڑا نمازی ہے بڑا روزہ دار ہے، بڑا حاجی ہے، اس سے نیکیاں پیدا نہیں ہو جاتیں ان چیزوں سے۔ نیکی کی اصل روح تب پیدا ہوتی ہے جب یہ احساس ہو کہ کیا یہ سب کام مَیں نے خدا کی خاطر کئے ہیں؟ اور اس کے لئے اپنے دل کے جائزہ کی ضرورت ہے اور جب یہ جائزے ہوں گے تو ان نیکیوں کے حقیقی اثرات جو ہیں وہ ظاہر ہو رہے ہوں گے۔
دوسری بات مَیں نے انہیں یہ کہی کہ آپ لوگ نہیں مانیں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس زمانہ کے امام کومانے بغیر ان نیکیوں کی جو آپ گنوا رہے ہیں صحیح سمت نہیں رہ سکتی۔ صحیح رخ نہیں رہ سکتے۔ شیطان کا اثر ہر نیکی کو بھی بدنتائج پر منتج کر دیتا ہے۔ تو مَیں نے انہیں بتایا کہ معاملات صاف نہ ہونے یا دل صاف نہ ہونے یافتنہ و فساد کی یہ وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانے بغیر اور آپؑ کے بعد خلافت کو مانے بغیر قبلے درست نہیں ہو سکتے۔ تو حقیقت یہی ہے کہ عبادتوں کے اسلوب بھی ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی سکھائے۔ قرآن وہی ہے، شریعت وہی ہے، لیکن اس کا حقیقی فہم و ادراک اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے غلام صادق کو عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی خوف اور خشیت اور آنحضرتﷺ سے عشق و محبت ہمارے دلوں میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا فرمائی ہے اور اسے اجاگر کیا ہے۔ پس اس کی جس انتہا تک قدر ہم کریں گے اور اس کے نتیجہ میں اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہیں گے ہماری عبادتیں ہمیں فائدہ دیتی رہیں گی۔ پس یہ ہر احمد ی کی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کلام کی جگالی بھی کرتا رہے۔ جو پڑھ سکتے ہیں وہ پڑھیں۔ جو سن سکتے ہیں وہ سنیں اور اس کے مطابق پھر اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے رہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیسیوں جگہ اس بات کی راہنمائی فرمائی ہے کہ عبادت کی حقیقت کیا ہے؟ اور قرآن کریم میں ابتداء میں ہی سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ(الفاتحہ: 5)۔اس کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ ہم روزانہ نماز میں پڑھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اس کو پڑھ کر۔ لیکن اگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر سے دیکھیں تو حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔
…پھر آپؑ نے فرمایا کہ’’ہمارا مذہب یہی ہے کہ ہم بدی کرنے والے سے نیکی کرتے ہیں’’۔ فرمایا ‘‘ہم ان سے سلوک کرتے ہیں اور ان کی سختیوں پر صبر کرتے ہیں۔ تم ان کی بدسلوکیوں کو خد اپر چھوڑ دو‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 130)
جب خدا پر چھوڑو گے تو خداتعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ عبادت کرو گے اور پھر خداتعالیٰ انشاء اللہ مدد کو آئے گا۔
اورپھر آپ نے ہمیں دشمن کے لئے بھی دعا کرنے اور سینہ صاف رکھنے کا حکم دیا ہے۔ تو یہ چیزیں ہیں جو عبادتوں کے معیار قائم کرتے ہوئے۔ اس کے اثرات اور نیک نتائج پیدا کرتی ہیں اور معاشرے کی ان خطوط کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جو اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ پس یہ چیز ہے جو ہر احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ورنہ صرف حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کرنا آپؑ کو مسیح موعود مان لینا تو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ بلندیوں کا حصول اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کی وجہ سے ہو گا جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہے۔ اس میں توکوئی شک نہیں اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ اس بات پہ یقین رکھتا ہے اور نماز کو ایک بنیادی رکن سمجھتا ہے۔