آپؐ اپنے پر ظلم کرنے والوں کو معاف کرتے چلے گئے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک تم بدلہ لینے اور اپنا نقصان پورا کرنے کا حق رکھتے ہولیکن اعلیٰ ترین اخلاق یہ ہیں کہ تم صبر کرو اور دوسرے کو معاف کرو۔ ان کی بہتری کے لئے کوشش کرو اگر معاف کرنے سے بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔ اور اس کی اعلیٰ ترین مثال آنحضرتﷺ کی ذات میں ہمیں نظر آتی ہے اور تاریخ نے اسے محفوظ کیا ہے۔ مستشرقین بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ جب ایک یہودیہ نے آپؐ کو زہر دینے کی کوشش کی تو آپؐ نے اس کو معاف کیا اور کئی مواقع آئے جب آپؐ اپنے پر ظلم کرنے والوں کو معاف کرتے چلے گئے۔ جیسا کہ مَیں نے جوابھی اقتباس پڑھا ہے اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ پھر اس کی انتہاء فتح مکّہ کے وقت ہوئی۔ جب اپنے پیارے ساتھیوں پر ظلم کرنے والوں کو، اپنے پر ظلم کرنے والوں کو تمام اختیارات اور طاقت آنے کے باوجود لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہہ کر معاف کر دیا۔ اب بھی دشمن کہتے ہیں کہ اسلام کے احکامات میں سختی ہے اور کوئی انسانی ہمدردی نہیں اور آنحضرتﷺ نعوذ باللہ رِفق اور حِلم کے نام کی کوئی چیز نہیں جانتے تھے۔ آپؐ تو اپنی جان کو اس بات سے ہی ہلاک کر رہے تھے کہ یہ لوگ جو شرک کرنے والے ہیں، جو ایک خدا کی عبادت نہ کرنے والے ہیں، اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نیچے نہ آ جائیں۔ اپنے ان ظلموں کی وجہ سے جویہ لوگ آپؐ پر اور آپؐ کے ماننے والوں پرکر رہے تھے کہیں اللہ تعالیٰ کا درد ناک عذاب ان کو پکڑ نہ لے۔ آپؐ کی اس صفت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہےلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ(الشعراء:۴) کہ کیا تو اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے؟… آنحضرتﷺ کا تو لوگوں کی ہمدردی میں یہ اُسوہ تھا اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں نعوذ باللہ ظلم اور سختی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ کیا جنگجو فطرت رکھنے والا اپنے آپ کو اس طرح ہلاکت میں ڈالتا ہے؟ کیا اَنا رکھنے والا اور بدلے لینے والا اپنے پر ظلم کرنے والوں کو اس طرح کھلے دل سے معاف کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ان عقل کے اندھوں کو آنکھوں کی روشنی عطا فرمائے لیکن ہمارا کام اُسوۂ رسول اللہﷺ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی بھلائی کے لئے دعا کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو، بدفطرتوں سے علیحدہ کر دے۔ دنیا جس طرح غلاظتوں میں پڑی ہوئی ہے، یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہونا ہے۔ لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے آقا و مطاعﷺ کے اُسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی بھلائی اور بہتری کے لئے دعا کریں۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ بنا کر بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیاء:۱۰۸) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر۔
(خطبہ جمعہ ۲۸؍ مارچ ۲۰۰۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸۔اپریل ۲۰۰۸ء)