بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو
اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ(الشعراء:۴) یعنی ’’کیا تو اِس غم سے اپنے تئیں ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کفار کے ایمان لانے کے لئے اس قدر جانکاہی اور سوزو گداز سے دعا کرتے تھے کہ اندیشہ تھا کہ آنحضرتﷺ اس غم سے خود ہلاک نہ ہو جاویں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے اس قدر غم نہ کر اور اس قدر اپنے دل کو دردوں کا نشانہ مت بنا کیونکہ یہ لوگ ایمان لانے سے لاپروا ہیں اور ان کے اغراض اور مقاصد اور ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اے نبی (علیہ السلام)! جس قدر تو عقد ہمت اور کامل توجہ اور سوزو گداز اور اپنی روح کو مشقت میں ڈالنے سے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دعا کرتا ہے تیری دعاؤں کے پُرتاثیر ہونے میں کچھ کمی نہیں ہے لیکن شرط قبولیت دعا یہ ہے کہ جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے سخت متعصب اور لاپروا اور گندی فطرت کا انسان نہ ہو ورنہ دعا قبول نہیں ہو گی۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد۲۱صفحہ ۲۲۶)
اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کروگو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤتا قبول کیے جاؤ…بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرونہ ان کی تحقیراور عالم ہوکر نادانوں کو نصیحت کرونہ خودنمائی سے ان کی تذلیل اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو نہ خودپسندی سے ان پر تکبر۔ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۱۱-۱۲)