حضرت یونس علیہ السلام
آج گھرپردعوت کا اہتمام تھا۔ دادی جان، امی جان کے ساتھ باورچی خانے میں کاموں میں مصروف تھیں۔ احمد،محمود اور گڑیا بھی کام میں امی جان اور دادی جان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ دادی جان مچھلی کو مصالحہ لگا رہی تھیں کہ گڑیا نےدیکھ کر محمود سے سوال کیا: محمود۔ ایسے نبی کا نا م بتاؤ جو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے تھے ؟
محمود: نہیں مجھے تو نہیں معلوم!
احمد: مجھے نام نہیں یاد آرہا مگر اتنا یاد آرہا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی مثال دے کر دعا کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔
گڑیا : ہاں احمد مجھے یاد ہے پیارے حضور نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی مثال دے کر فرمایا تھا کہ ساری جماعت کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں۔ جماعت کی ترقی کے لیے اور ظلموں سےچھٹکارے کے لیے۔اور فرمایا تھا :’’ اگر ساری جماعت تین دن یونسؑ کی قوم کی طرح آہ و زاری کرنے لگ جائے، ہر ایک بچہ، بڑا، بوڑھا، جوان اللہ تعالیٰ کے آگے چلائے گا تو تین دن میں مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔‘‘(17؍فروری 2023ء کو فن لینڈ کے خدام و اطفال سے ورچوئل ملاقات)
تو دادی جان آج آپ ہمیں پھر حضرت یونس علیہ السلام کی کہانی سنائیں۔ احمد دادی جان سے گویا ہوا۔
دادی جان : ٹھیک ہے۔ میں آج آپ کو حضرت یونسؑ کی کہانی سناؤں گی مگر پہلے جلدی جلدی سارے کام ختم کریں مہمان آتے ہی ہوں گے۔
مہمانوں کے جانے کے بعدتینوں بچے دادی جان کے پاس آگئے۔
گڑیا: دادی جان بتائیں کہ تین دن کیا ہوا تھا کہ ہمیں بھی حضور انور ایدہ اللہ نے ان کی طرح دعا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔
دادی جان : تو بچو!بات کچھ یوں ہے کہ حضرت یونسؑ نینوا کی بستی میں بھیجے گئے تھے جو آشور کا دارالحکومت تھا اور وہاں آشور قوم کےبت پرست لوگ آباد تھے۔ موجودہ نقشے کے حساب سے یہ علاقہ کردستان،عراق اور آرمینیا تک پھیلا ہوا ہے۔ حضرت یونسؑ کے سپرد اللہ تعالیٰ نے نینوا کے علاقے میں تبلیغ کا کام کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ ان تک خدا کا پیغام پہنچائیں۔ اور اگر وہ نہ مانیں تو انہیں عذاب الٰہی سے ڈرائیں۔ حضرت یونسؑ نے انہیں سمجھایا۔ لیکن نینوا کے لوگ بہت شرارتی تھے۔ جب نینوا کے لوگوں نے ان کی ایک نہ مانی اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا وقت آگیا تو حضرت یونسؑ اس شہر سے روانہ ہوگئے۔ کچھ دُور جا کر وہ آنے جانے والوں سے نینوا والوں کا حال پوچھتے رہے کہ ان پر خدائی عذاب نازل ہوا کہ نہیں؟
محمود: جی بالکل عذاب سے تباہ ہو گئی ہوگی۔
دادی جان: جی نہیں محمود میاں! نینوا کی قوم نے وقت مقررہ پر غیرمعمولی آثار محسوس کیے اور جب حضرت یونسؑ کی ہجرت کا معلوم ہوا تو وہ حقیقت میں ڈر گئے اور سب میدان میں نکل آئے۔ سب نے حقیقی توبہ و گریہ و زاری کر کے کہا کہ اے ہمارے رب !ہم یونس کی بات پر ایمان لے آئےاور ہمیں معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو معاف کر دیا اور عذاب ٹال دیا۔
حضرت یونسؑ کو ان کی تبدیلی کی خبر نہ ہوئی۔ بلکہ وہ غمگین و پریشان ہوئے کہ عذاب نہیں آیا۔ اب تو اس قوم نے یقین کر لیا ہوگا کہ میں خدا کا نبی نہیں ہوں۔ اس لیے انہوں نے از خود اس علاقے کو چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کر لیا اور ایک کشتی میں سوار ہوگئے جو ترسیس نامی شہر کی طرف جا رہی تھی۔ آپؑ پیشگوئی کے پورا نہ ہونے کے سبب غمگین تھے کہ یہ لوگ اب بالکل خدا سے غافل ہو جائیں گےاور کھل کر گناہ کریں گے۔
محمود: پھرکشتی ڈوب گئی تو حضر ت یونسؑ کو مچھلی نےکھالیا۔
دادی جان: نہیں اس طرح نہیں ہوا۔ جب کشتی چلی تو سمندر میں تیز ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں۔جس کی وجہ سے کشتی شدید ڈولنے لگی۔ کشتی کے ملاح نے اپنے عقیدے کے مطابق سوچا کہ کشتی میں کوئی ایسا غلام ہے جو اپنے آقا کی اجازت کے بغیر گھر چھوڑ آیا ہے تب ہی یہ مشکل در پیش ہے۔ اس لیے ایسے شخص کو سمندر کے حوالے کر دینا چاہیے تاکہ باقی لوگ بچ جائیں۔ انہوں نے قرعہ اندازی کی اور اس میں حضرت یونسؑ کا نام نکلا۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ ابتلا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ وہ وحی الٰہی کا انتظار کیے بغیر ہی چلے آئے۔ آپ دعاؤں میں لگ گئے۔ اور کشتی والوں نے انہیں سمندر کے حوالے کر دیا۔
اللہ تعالیٰ تو سب حالات سے واقف تھا اور یہ بطور عذاب یا ابتلا کے نہیں تھا۔ بلکہ اس تقدیر کے مطابق تھا کہ آپ کو واپس نینوا پہنچایا جائے۔ جونہی آپ سمندر میں گرے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپؑ کو ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا۔ آپؑ بڑے الحاح سے دعائیں کرتے رہے۔ کہ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ (الانبیاء:89) کوئی معبود نہیں تیرے سوا۔ تُو پاک ہے۔ یقیناً میں ہی ظالموں میں سے تھا۔
حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر قرآن شریف میں چھ جگہ آیا ہے اور اسی وجہ سے ایک جگہ پر آپ کو ذو النون اور صاحبِ حوت کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ ان کے ساتھ مچھلی کا واقعہ پیش آیا تھا۔( ماخوذ از تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ 129)
حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں تین رات دن رہے۔ کچھ لوگ سات او رکچھ چالیس دن بھی کہتے ہیں۔ بہر حال تین رات دن معروف قول ہے۔ بالآخر ان کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول کرلیا اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں اُگل دے۔چنانچہ مچھلی نے آپ کو کنارے پر اُگل دیا۔ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے سبب آپ کمزو ر ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے ایک کدو جیسی بیل کے ذریعہ آپ کو سایہ اور طاقت دی۔ پھر وحی الٰہی کے ماتحت انہوں نے واپسی کی راہ لی۔ اب انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ نینوا پر عذاب کیوں نہیں آیا۔ وہ ان لوگوں میں واپس گئے اور انہیں خوب تبلیغ کی۔ ان پر ایمان لانے والوں کی تعداد قرآن کریم نے ایک لاکھ سے زیادہ بیان کی ہے۔
دادی جان! سب کہانیوں میں نبی کی بات نہ ماننے والوں پر عذاب آیا لیکن ان پر کیوں نہیں آیا؟
دادی جان: محمود بیٹا! اللہ تعالیٰ کا ایک نام توّاب ہے ناں۔ بھلا کیا معنی ہیں اس کے؟
بہت توبہ قبول کرنے والا۔ احمد فوراً بولا۔
دادی جان: جی ہاں۔ میں نے آپ کو بتایا تھا ناں کہ سکول میں اگر کوئی بچہ شرارت کرے تو استاد منع کرتا ہے۔ لیکن جب شرارت حد سےبڑھ جاتی ہے تو اس کے والدین کو بلا لیا جاتا ہے یا سزا ملتی ہے۔ اگر وہ بچہ اپنی غلطی مان کر بار بار معذرت کرے تو استاد معاف کر دیتا ہے ناں۔ لیکن اگر وہ باز نہ آئے اور شرمسار نہ ہو تو سکول سے بھی نکال دیا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کا نظام بھی یہی ہے۔ اصل چیز نیّت ہے۔
گڑیا : دادی جان اس کا ہماری جماعت سے کیا تعلق ہے اور حضور انورایدہ اللہ نے کیوں تحریک فرمائی؟
دادی جان: حضرت یونسؑ اس ابتلا میں تین رات دن خوب دعائیں کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر وہ تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ تو دعائیں مصیبت کو ٹال دیتی ہیں جیسے حضرت یونسؑ سے مصیبت ٹل گئی۔ اور جیسے ان کی قوم سے عذاب ٹل گیا انہوں نے توبہ اور دعا ہی کی تھی۔ اس لیے حضور انور نے ان ابتلا کے دنوں میں حضرت یونسؑ کی طرح دعائیں کرنے کی تلقین فرمائی تھی۔
چلیں اب آپ لوگ بھی سونے کی تیاری کریں بہت دیر ہوگئی ہے ۔ دعا پڑھ کر سب نے آنکھیں بند کر لیں۔
(بحوالہ حقائق الفرقان و تفسیر کبیر)
(درثمین احمد۔ جرمنی)