سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا
سنسار کے اے نیتاؤ جی!
اس جگ کے اے مکھیاؤ جی!
اک چنتا ہمری دور کرو
یہ گتھی تو سلجھاؤ جی
تم گیان سبھی جب رکھتے ہو
پھر بات یہ کیوں بسراؤ جی
جس آگ میں خود جل جاؤ گے
کیوں اگنی وہ بھڑکاؤ جی
خود توپ چلا کر کہتے ہو
کنکر بھی نہ ہم پہ اٹھاؤ جی
انصاف اسی کا نام ہے کیا
یہ کیسا عدل نیاؤ جی
بے دست و پا نردوشوں پر
تم خنجر کو لہراؤ جی
کیا ہوتا ہے یہی ہاتھی کا
اک کیڑی سے برتاؤ جی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا
تم بے جا مت اتراؤ جی
کیا اَنت ہوا ہامانوں کا
سو تھوڑی بغلیں بجاؤ جی
تم آج اندھیر مچاتے ہو
تم لاکھ خدا بن جاؤ جی
امبر سے جب ایشر آوے گا
جاؤ گے کہاں پہ خداؤ جی!
کچھ ہوش کرو ہے وقت ابھی
ان جنگوں سے باز آؤ جی
نفرت کے کانٹے دور کرو
اور پیت کے پھول اگاؤ جی
گر کھیل نہ چھوڑا چھریوں کا
تو یاد رکھو راجاؤ جی!
اپنی برچھی سے کھاؤ گے
خود اپنے تن پر گھاؤ جی
پھر پرجا تم سے پوچھے گی
اب بکتی ہے کس بھاؤ جی
(م م محمود )