حیات ِمسیح کے عقیدے سے مسلمان عیسائیوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں
عیسائیوں نے اپنے غلط عقیدے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو خداتعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی تھے خدائی کا مقام دے دیا۔ خداتعالیٰ کا مقام تو بہت بلند اور ہر عیب سے پاک ہے۔ اس کو کسی کی حاجت نہیں جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ اور ان کی والدہ کھاناکھایا کرتے تھے۔ جہاں اس بات سے ان دونوں کے فوت ہونے کا پتہ چلتا ہے، وفات کا پتہ چلتا ہے وہاں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس کو کھانے کی حاجت ہو، اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے وہ خدا کس طرح ہو سکتا ہے۔ دوسروں کی حاجات کس طرح پوری کر سکتا ہے اور اس طرح بے شمار باتیں ہیں اور دلیلیں ہیں جو ان کو ایک انسان ثابت کرتی ہیں۔ احمدیوں کے علاوہ یعنی احمدیوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد لاعلمی کی وجہ سے یا اپنے علماء کے پیچھے چل کر جن کو قرآن کریم کا صحیح فہم و ادراک نہیں قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں جو الفاظ آئے ہیں رَافِعُکَ اِلَیَّ (آل عمران :56)یا رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ (النساء: 159) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف ان کا رفع کر لیا۔ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ گویا حضرت عیسیٰؑ اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے یا خداتعالیٰ نے انہیں اٹھا لیا اسی جسم کے ساتھ اور کسی و قت پھردنیا کی اصلاح کے لئے اتریں گے وہ۔ پہلے چودھویں صدی میں آنا تھا۔ اب وہ گزر گئی تو قیامت کے قریب آنے کا کہا جاتا ہے یا اور بہت ساری کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ توبہرحال مسلمان نہیں جانتے کہ غیر ارادی طور پر اس غلط استنباط سے وہ عیسائیوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس بات کو لے کر عیسائی جو ہیں وہ حضرت عیسیٰؑ کی فوقیت آنحضرتﷺ پر ثابت کرتے ہیں۔ گو کہ اب بعض علماء اور بعض پڑھا لکھا طبقہ جو ہے بعض ملکوں میں، مسلمان ملکوں میں اس غلط مطلب کی اصلاح کرتے ہوئے یہ مانتے ہیں کہ ان آیات میں جو نئے الفاظ استعمال ہوئے ہیں سے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے۔
گزشتہ دنوں ایران کے صدر صاحب نے بھی ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے عیسائیوں کو مخاطب کرکے جو بیان تھا اس سے یہی لگتا تھا کہ ان کے ذہن میں یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات پا گئے ہیں۔ یا کم از کم وہ یہ سمجھتے ہیں۔ اس بیان میں انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کوئی برائی نہیں بیان کی تھی بلکہ ان کی تعلیم کے حوالے سے عیسائیوں کو نصیحت کی تھی۔ قطع نظر اس کے کہ یہ صدر صاحب خود کس حد تک راہ ہدایت پر قائم ہیں، مَیں صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ ان کے ذہن میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے فوت ہونے کا تصور ہے جو ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
(خطبہ جمعہ ۳؍جولائی۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍جولائی ۲۰۰۹ء)